تعارف
سولہ دسمبر 1971 کا دن برصغیر کی تاریخ میں ایک المناک اور افسوسناک موڑ کی
حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز دنیا کے نقشے پر موجود ایک متحدہ ملک، پاکستان،
اندرونی انتشار، بیرونی سازشوں اور ناقص سیاسی حکمت عملی کے باعث دو حصوں
میں تقسیم ہوگیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی ریاست کی شکل
میں ابھرا، اور مغربی پاکستان اپنی موجودہ حدود میں محدود ہوگیا۔
پس منظر: داخلی ناعاقبت اندیشی
پاکستان کا قیام لاکھوں قربانیوں کا نتیجہ تھا، لیکن بدقسمتی سے قیام
پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین دوریاں بڑھنے
لگیں۔ مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی بنگالی زبان بولتی تھی، جب کہ مغربی
پاکستان میں اردو اور دیگر زبانوں کو فوقیت دی گئی۔ 1948 میں جب بنگالی
زبان کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو مشرقی پاکستان میں ایک
سیاسی اور ثقافتی بے چینی نے جنم لیا۔
یہ صورت حال اس وقت مزید سنگین ہوگئی جب اقتصادی ترقی کے ثمرات مشرقی
پاکستان تک نہ پہنچ سکے۔ مغربی پاکستان کے سیاستدان
پس منظر: داخلی ناعاقبت اندیشی
پاکستان کا قیام لاکھوں قربانیوں کا نتیجہ تھا، لیکن بدقسمتی سے قیام
پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین دوریاں بڑھنے
لگیں۔ مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی بنگالی زبان بولتی تھی، جب کہ مغربی
پاکستان میں اردو اور دیگر زبانوں کو فوقیت دی گئی۔ 1948 میں جب بنگالی
زبان کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو مشرقی پاکستان میں ایک
سیاسی اور ثقافتی بے چینی نے جنم لیا۔
یہ صورت حال اس وقت مزید سنگین ہوگئی جب اقتصادی ترقی کے ثمرات مشرقی
پاکستان تک نہ پہنچ سکے۔ مغربی پاکستان کے سیاستدان اور فوجی اشرافیہ کے
زیراثر ملک کی پالیسیاں بنیں، جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی
بڑھتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ مغربی پاکستان کے صنعت کاروں اور تاجروں نے معیشت
پر غلبہ حاصل کر لیا، جس کی بنا پر مشرقی پاکستان کو معاشی استحصال کا
سامنا رہا۔
بیرونی سازشیں اور بھارت کا کردار
مشرقی پاکستان میں عوامی بے چینی اور سیاسی انتشار کو بھارت نے اپنے مقاصد
کے لیے استعمال کیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی
حمایت کی اور "مکتی باہنی" کے نام سے ایک مسلح گروہ کو منظم کیا۔ بھارتی
حکومت نے بین الاقوامی سطح پر مشرقی پاکستان میں ہونے والے حالات کو اپنی
مداخلت کے لیے جواز بنایا اور دسمبر 1971 میں کھلم کھلا فوجی کارروائی کا
آغاز کر دیا۔
بھارتی فوج نے نفرت کے بیج بونے کے لیے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں اور اردو
بولنے والوں کے درمیان موجود اختلافات کو مزید ہوا دی۔ مکتی باہنی نے کئی
مقامات پر غیر بنگالیوں کے خلاف مظالم ڈھائے، جبکہ بھارتی فوج نے جنگ کے
دوران اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مزید تباہی مچائی۔
فوجی حکمت عملی اور سقوط ڈھاکہ
1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان کی عوام نے عوامی لیگ کو واضح
اکثریت سے کامیاب کیا، لیکن مغربی پاکستان کی قیادت نے اقتدار کی منتقلی
میں پس و پیش سے کام لیا۔ اس سیاسی بحران نے معاملات کو مزید خراب کر دیا
اور فوجی آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت
پیدا ہوگئی۔
مارچ 1971 میں شروع ہونے والا "آپریشن سرچ لائٹ" ایک بڑا فوجی اقدام تھا،
جس کا مقصد بغاوت کو کچلنا تھا۔ تاہم، اس کے نتیجے میں عوامی ردِعمل مزید
شدید ہوگیا۔ مکتی باہنی نے بھارتی مدد سے مشرقی پاکستان میں شورش کو
بڑھایا۔ دسمبر 1971 میں بھارت نے براہ راست فوج کشی کی، اور 16 دسمبر کو
جنرل نیازی نے ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
المیے کے اثرات اور نتائج
سقوط ڈھاکہ صرف ایک جغرافیائی تقسیم نہیں تھا بلکہ یہ نظریاتی شکست بھی
تھی۔ اس کے ساتھ ہی لاکھوں انسانوں کو دربدر ہونا پڑا، ہزاروں خاندان تقسیم
ہوگئے، اور ہزاروں بے گناہ افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا۔ اردو بولنے
والے مہاجرین پر مظالم ڈھائے گئے، جبکہ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج نے
وحشیانہ کارروائیاں کیں۔
پاکستان کے لیے سقوط ڈھاکہ ایک زخم تھا جس نے قوم کی نفسیات پر گہرے اثرات
مرتب کیے۔ اس شکست نے پاکستانی قیادت کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اندرونی
اختلافات کو ختم کرکے قومی یکجہتی کی بنیادیں مضبوط کریں، مگر افسوس کہ یہ
عمل آج بھی مکمل طور پر پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
سبق اور نتیجہ
سولہ دسمبر 1971 کا سانحہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قومی وحدت اور یکجہتی کے
بغیر کسی بھی ملک کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اندرونی ناعاقبت اندیشی اور
بیرونی سازشیں ہمیشہ اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب ریاست اپنے عوام کو
نظرانداز کرتی ہے۔ آج کے دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کے اس
المیے سے سبق حاصل کریں اور باہمی اتحاد، انصاف اور مساوی حقوق کو یقینی
بناتے ہوئے پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بنائیں۔
سقوط ڈھاکہ ایک دردناک باب ہے، مگر یہ تاریخ کا وہ سبق ہے جسے کبھی فراموش
نہیں کرنا چاہیے۔
|