ابھی حال ہی میں دنیا کی اہم ترین بین الاقوامی اقتصادی
تنظیموں کے سربراہان نے چین کا دورہ کیا اور چین کی اعلیٰ قیادت سے
ملاقاتیں کیں۔ان تنظیموں میں نیو ڈیولپمنٹ بینک ، ورلڈ بینک ، عالمی
مالیاتی فنڈ ، عالمی تجارتی تنظیم ، یواین کانفرنس برائے تجارت و ترقی ،
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن ، اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم ، بینک آف
انٹرنیشنل سیٹلمنٹس ، مالیاتی استحکام بورڈ اور ایشین انفراسٹرکچر بینک کے
سربراہان شامل رہے جن کے دورہ چین کا مقصد "1+10" ڈائیلاگ میں شرکت تھا۔
ماہرین کے نزدیک "1+10" ڈائیلاگ کا انعقاد برمحل ہے، جس سے چین کو بین
الاقوامی اقتصادی تنظیموں کے ساتھ موثر تعاون کو مضبوط کرنے، بین الاقوامی
اقتصادی تنظیموں کے اہم ذمہ دار افراد کے ساتھ بات چیت بڑھانے ، چین کی
آواز کو دنیا تک پہنچانے اور دنیا کو چین کی معاشی صورتحال سے روشناس کرانے
کا موقع ملا ہے۔
اس موقع پر چینی صدرشی جن پھنگ نے دنیا کے ٹاپ اقتصادی رہنماوں کو بتایا کہ
دنیا تبدیلی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ تمام ممالک کو 190 سے
زائد چھوٹی کشتیوں پر سوار ہونے کے بجائے ایک ہی بڑی کشتی پر سوار ہونا
چاہئے۔ تمام ممالک کو ایک دوسرے کو مخالف کے بجائے شرکت دار ، اور ایک
دوسرے کی ترقی کو چیلنج کرنے کے بجائے اسے ایک موقع سمجھنا چاہیئے۔
شی جن پھنگ نے عالمی معیشت، چینی معیشت اور عالمی معیشت کی حکمرانی سمیت
دیگر موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت کو
مضبوط اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا بین الاقوامی برادری کے سامنے
ایک بڑا سوال ہے۔ ہر ملک کی معیشت کی اپنی مشکلات ہوتی ہیں اور اسے کھلے
عالمی اقتصادی نظام کی تعمیر کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔ "چھوٹے صحن اور
اونچی دیواریں" اور " ڈی کپلنگ اور صنعتی اور سپلائی چین کو الگ کرنا اور
توڑنا" دوسروں اور خود کو نقصان پہنچائے گا۔ چین ہمیشہ اس بات پر یقین
رکھتا ہے کہ جب چین اچھا ہوگا تو دنیا بہتر ہوگی؛ جب دنیا اچھی ہوگی، تو
چین مزید بہتر ہوگا۔
شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ 40 سال سے زائد عرصے سے پائیدار اور تیز رفتار
ترقی کے بعد چین کی معیشت اعلیٰ معیار کی ترقی کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے
اور عالمی اقتصادی ترقی میں اس کا حصہ تقریباً 30 فیصد ہے۔ چین کو رواں سال
کی اقتصادی ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے اور عالمی اقتصادی ترقی کے سب سے
بڑے انجن کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے پر مکمل اعتماد ہے۔
شی جن پھنگ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عالمی اقتصادی ترقی کے فروغ کو
موثر اور امید افزا عالمی اقتصادی حکمرانی سے جدا نہیں کیا سکتا۔ بین
الاقوامی اقتصادی تنظیموں کو عالمی اقتصادی حکمرانی کے نظام کی اصلاحات میں
فعال طور پر حصہ لینا چاہیے اور اسے فروغ دینا چاہیے، ایک زیادہ منصفانہ
اور معقول عالمی اقتصادی حکمرانی کا نظام قائم کرنا چاہیے، اور گلوبل ساؤتھ
ممالک کی نمائندگی اور آواز کو بڑھانا چاہیے۔
شی جن پھنگ نے چین امریکہ تعلقات کی ترقی کے بارے میں چین کے مستقل اصولی
موقف کی بھی وضاحت کی اور اس بات پر زور دیا کہ چین امریکی حکومت کے ساتھ
بات چیت کو برقرار رکھنے، تعاون کو وسعت دینے، اختلافات کو دور کرنے اور
چین امریکہ تعلقات کو مستحکم، صحت مند اور پائیدار سمت میں فروغ دینے کے
لیے تیار ہے۔ چین امید کرتا ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
نیو ڈیولپمنٹ بینک کی صدر دلما روسف، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی صدر
کرسٹیلنا جارجیوا، ورلڈ بینک کے صدر اجے بینگا اور عالمی تجارتی تنظیم کی
ڈائریکٹر جنرل ایویلا نے غیر ملکی فریقوں کی جانب سے خطاب کیا۔ انہوں نے
چینی معیشت کی ترقی کو سراہا اور چین کی ترقی کے امکانات کے لئے بھرپور
امید ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ چین نے غربت کے خاتمے میں بنی نوع انسان کے
لیے ایک معجزہ تشکیل دیا ہے۔ نئی معیاری پیداواری قوتوں کے حوالے سے چین
دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ چینی حکومت کا عوام
پر مبنی ترقی کا تصور کامیاب اور قابل عمل ہے ، جو دنیا کے لئے خاص اہمیت
رکھتا ہے۔
عالمی مبصرین کے نزدیک چین عالمی سپلائی چین کا ایک اہم اورکلیدی جزو ہے۔
"1+10" ڈائیلاگ کے بعد عالمی سپلائی چین کے استحکام اور ہمواریت کو مزید
بہتر بنایا جائے گا، عالمی سپلائی چین کو ترقی پذیر ممالک تک مزید وسعت دی
جائے گی، اور عالمی سپلائی چین کی جامع ترقی کی خصوصیات زیادہ نمایاں ہوں
گی۔مزید برآں ، بڑی معیشتوں کے درمیان میکرو اکنامک پالیسی کوآرڈینیشن کو
مضبوط بنانے سے عالمی معیشت پر رونما ہونے والے منفی اثرات سے مؤثر طریقے
سے نمٹنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
|