ہٹلر کے پراپیگنڈے کے وزیر گوئبلزنے ایک مرتبہ کہا ”جھوٹ
اگرکثرت سے دہرایا جائے تووہ سچ بن جاتاہے“۔ حقیقت یہی کہ آمر ہمیشہ ایسے
لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو جھوٹ کوسچ ثابت کردکھائیں۔ گوئبلز نے بھی
نازی حکومت کے وزیر کے طورپر ایساہی کیا اور کامیاب بھی رہا۔ یہ بھی عین
حقیقت کہ جھوٹ کبھی پنپتا نہیں۔ اِسی لیے بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہٹلرکا
انجام عبرت ناک ہوا۔ ہمارے ہاں بھی 2011ء میں ایک طوفان اُٹھا جسے
”سونامی“سے منسوب کیاگیا۔ سونامی سے شروع ہونے والاسفر اب اڈیالہ جیل میں
اپنے انجام کوپہنچنے کے قریب۔ وجہ اُس کی بھی یہی جھوٹ جوبانی پی ٹی آئی نے
تواترسے بولا اورجس کے لیے سوشل میڈیاکا سہارا لیاگیا۔ اِدھر بانی پی ٹی
آئی کاایک بیان آتاتھا اور اُدھر لاکھوں کی تعداد میں وہ ٹرینڈ بن جاتاتھا۔
2011ء سے اب تک بانی کے بیانات کوسامنے رکھیں اور غیرجانبداری سے پرکھیں
توآپ کو پتہ چل جائے گاکہ بانی کبھی بھی اپنے کہے پرقائم نہیں رہے۔ یہی
نہیں بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے تھے کہ جویوٹرن نہیں لیتا وہ کبھی کامیاب
نہیں ہوتا۔ پہلے ”نیا پاکستان“ کانعرہ لگایا پھر اُسے بھُلاکر ”ریاستِ
مدینہ“ کی تشکیل کے لیے نعرہ زَن ہوئے۔ قوم کوایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ
گھروں کی نوید سناتے سناتے کٹوں، وَچھوں، انڈوں اور مرغیوں تک آن پہنچے
لیکن جھوٹ کی آڑھت آخر کب تک۔ سونامی گٹرکی نظر اوربانی کے حواری خزاں کے
پتوں کی طرح بکھرنے لگے۔ اقتدار کے چھِن جانے کے بعدبانی پی ٹی آئی نے جتنے
بھی جلسے کیے سبھی ناکام۔ اگرصرف ستمبرسے 24نومبر 2024ء کے جلسوں کوہی
مدِنظر رکھا جائے توسوائے خیبرپختونخوا کے کہیں سے بھی عوام نے اِن جلسوں
کو پذیرائی نہیں بخشی۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان مکمل طورپر لاتعلق رہے اور
خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ہرجگہ احتجاجیوں کوبے
یارومددگار چھوڑکر راہِ فرار اختیار کی۔
عوام کی طرف سے بے اعتنائی کودیکھ کر جیل سے تازہ تازہ رہا ہوکر
خیبرپختونخوا میں پناہ لینے والی بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے احتجاجیوں
کی کمان سنبھالی حالانکہ بانی اپنے دَورِحکومت میں متواتر یہ کہتے رہے کہ
اُن کی اہلیہ گھریلو خاتون ہے اِس لیے اُسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ بشریٰ
بی بی کو چونکہ بانی پرحکم چلانے کی عادت تھی اِس لیے اُنہوں نے یہی حربہ
تحریکِ انصاف کے قومی وصوبائی اسمبلی کے ارکان اور ٹکٹ ہولڈرز پربھی آزمانے
کی کوشش کی۔ حکم ہواکہ 24نومبرکے ڈی چوک اسلام آباد کی طرف مارچ میں قومی
اسمبلی کاہررکن 10ہزار اور صوبائی اسمبلی کا ہررکن 5ہزار افراد کواپنے
ہمراہ لائے گا۔ اُن کی احتجاج میں شامل گاڑیوں اور افراد کی باقاعدہ ویڈیوز
بنائی جائیں گی۔ جو رُکنِ اسمبلی یاٹکٹ ہولڈر مطلوبہ افراد ہمراہ لانے میں
ناکام ہوا اُسے تحریکِ انصاف سے نکال دیا جائے گااور ٹکٹ ہولڈرز کو آئندہ
ٹکٹ نہیں دی جائے گی۔ ارکانِ اسمبلی نے مطلوبہ افراد توکیا لانے تھے اُن کی
غالب اکثریت بھی اِس احتجاج میں شریک نہیں ہوئی۔ 24نومبرکو اسلام آبادکی
طرف مارچ سے پہلے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کے مابین مارچ کی قیادت
پر جھگڑا بھی ہوا۔ پھر دونوں کی قیادت میں لگ بھگ 20ہزار شَرپسندوں کے ساتھ
یہ مارچ اسلام آبادکی طرف عازمِ سفر ہوا۔ یہ قافلہ رکاوٹیں عبور کرتاہوا
26نومبر کوڈی چوک کے قریب چائینہ چوک تک پہنچا۔ اِس دوران رینجرز کے 3 اور
پولیس کاایک جوان شہید ہوچکے تھے۔ رات 10بجے تک وہاں چھ، سات ہزار افراد سے
زیادہ کا مجمع نہیں تھاجن پر پولیس اور رینجرز کامشترکہ آپریشن ہوا اور
آدھے گھنٹے میں میدان خالی۔ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور اِس سے پہلے
ہی وہاں سے فرار ہوچکے تھے۔ بشریٰ بی بی کادعویٰ ہے کہ وہ رات ساڑھے12بجے
تک وہیں موجود تھیں لیکن اُن کے آس پاس کے سبھی لوگ فرار ہوچکے تھے۔ حقیقت
مگریہ کہ رات ساڑھے 11بجے کے بعد سارا میڈیا وہاں موجودتھا اور کیمرے کی
آنکھ سب کچھ محفوظ کررہی تھی۔ علی امین نے بھی کہاکہ اُسے چونکہ بشریٰ بی
بی کی حفاظت کرنی تھی اِس لیے اُسے بی بی کے ساتھ فرار ہونا پڑا۔ اِس کے
علاوہ یہ بھی کہاگیا کہ فورسز نے سیدھی گولیاں چلائیں جس سے سینکڑوں
احتجاجی مارے گئے۔ لطیف کھوسہ نے کہاکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 278تھی
اور 12دسمبر کوٹاک شو میں وہ یہی دعویٰ دہراتا نظر آیا جبکہ اِس سے بہت
پہلے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور قائدِحزبِ اختلاف عمرایوب یہ
کہہ چکے تھے کہ ہلاکتیں صرف 12تھیں جن کاڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے۔ اُدھر
حکومت کادعویٰ کہ کوئی ایک گولی بھی نہیں چلی اور اگرکوئی ہلاکت ہوئی ہے تو
اُس کاثبوت دیا جائے۔ آج 18دن گزرنے کے باوجود بھی تحریکِ انصاف ثبوت پیش
کرنے میں ناکام ہے۔
12اگست کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے جاری کردہ اعلامیے نے تحریکِ
انصاف کے حلقوں میں تھرتھرلی مچادی ہے کیونکہ اُس کے ”بِگ باس“ جنرل (ر)
فیض حمیدکے خلاف فیلڈجنرل کورٹ مارشل کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا
گیاہے۔ ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چودھری نے کہاکہ پاکستان آرمی ایکٹ کی
خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات ثابت ہونے پر فیض حمیدکے خلاف فیلڈجنرل کورٹ
مارشل کارروائیوں کاآغاز کردیا گیاہے۔ اِس کیس میں جوبھی ملوث ہوا خواہ اُس
کاکوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو، اُس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اُنہوں نے کہاکہ
پاک فوج کاکوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ عمران خاں کو فوجی تحویل میں یااُن
کے خلاف فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کے سوال پرڈی جی نے کہا ”یہ ایک
زیرِسماعت معاملہ ہے اور آپ کاسوال مفروضوں پر مبنی ہے لیکن میں آپ کویہ
ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص اگرکسی فرد یاافراد کو
جوآرمی ایکٹ کے تابع ہو، اُن کوذاتی یاسیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے اور
اُس کے ثبوت اور شواہد موجود ہوں توقانون اپنا راستہ خود بنائے گا“۔ 9مئی
کے واقعات پرڈی جی صاحب نے کہاکہ اُس پرابھی تک تفتیش جاری ہے۔
جیساکہ عمومی طورپر کہا جارہا ہے کہ 9مئی کے ٹارگٹس فیض حمیدنے طے کیے تھے
جن میں عمران خاں کی مکمل مشاورت شامل تھی توایسی صورت میں جہاں فیض حمیدکا
کورٹ مارشل ہوگا وہیں عمران خاں کو بھی فوجی تحویل میں لیاجائے گا۔ باخبر
حلقوں کے مطابق فوج کی انکوائری میں 50افراد نامزد کیے جاچکے ہیں جن میں سے
کم ازکم 40 سویلین ہیں۔ اُدھر سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں
ٹرائل کیے گئے 85افراد کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی ہے۔ جسٹس امین الدین
کی سربراہی میں قائم 7رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت موسمِ سرماکی چھٹیوں
کے بعدتک ملتوی کرتے ہوئے آرڈر جاری کیاکہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم
کورٹ میں زیرِالتواء مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
|