شام کے معزول صدر بشار الاسد اپنے والد سابق حافظ الاسد
کی موت کے بعد 2000 میں انہوں شام کا اقتدار سنبھالا تھا۔ ان کے والد حافظ
الاسد نے 29 سال سے زائد تک ملک شام پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی
طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھنے میں کافی مشہور تھے۔
معزول صدر مبشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا
کنٹرول ہمیشہ سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں اختلاف
رکھنے والے کو پابند سلاسل یا غائب کردیا جاتا تھا. کسی قسم کی اپوزیشن کو
ناقابل برداشت سمجھا جاتا تھا۔
بشار الاسد کی حُکمرانی میں لوگوں کو یہ امید تھی کہ یہ مغرب سے تعلیم حاصل
کی ہے تو اپنی حُکمرانی میں کچھ اچھی بہتری لائیگا اور بہت چیزیں میں بدلاؤ
آئیگا. اور سب چیزوں میں شفاقیت عیاں ہونگی اور ظلم ختم ہوگا و انصاف کا
بول بالا ہوئیگا. مگر یہ مغرب سے آنے والا نوجوان بشار الاسد عوام کی
توقعات پر پورا نہ اُترا یہ بھی اپنے مرحوم باپ حافظ الاسد کی طرز حُکمرانی
کے ٹریک پر چل ہڑا جس سے شام کے نوجوانوں کو بہت مایوسی ہوئی.
شام کے اس معزول صدر بشار الاسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا
جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر بے پناہ تشدد
کر کے انھیں موت کے گھاٹ اور لوگوں کو لہولہان کرنے کے بعد منتشر کیا۔ اس
ہی صورتحالب نے اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا جس میں پانچ لاکھ سے
زائد لوگ ابدی نیند سُلادیے اور کئی لاکھ زخمی لہولہان و معذور ہوئے اور
تقریبا 60 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے.
جبکہ بشار الاسد پر ہمیشہ یہ ہی الزام لگتا رہا کہ اس نے روس اور ایران کی
مدد سے باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔
جبکہ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی
معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں
اپنے حمایتی جنگجو تعینات کیے۔
جبکہ اس بار یہ سب کچھ نہیں ہو سکا۔ کیونک شام کے اتحادی اپنے اپنے ملکوں
میں جنگی حالت و سازشیوں میں گھرئے ہوئے تھے کہ وہ ان عناصر سے مصروف عمل
تھے. انھوں نے بشار الاسد کو یک و تنہا چھوڑنے پر ہی اکتفا کیا ۔ ان کی مدد
کے بغیر شامی دستے باغیوں کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے اور تنکے کی طرح
بکھرتے گئے اور بعض مقامات پر دستوں نے باغیوں کو روکنے کی کوشش کے بجائے
اپنے ہتھیار ان کو دیکر سرینڈر کرتے رہے. ان باغیوں کی قیادت سخت گیر
اسلامی گروہ ہیئت التحریر الشام نے کی ہے۔
شام میں پہلے باغیوں نے حلب شہر پر اپنا قبضہ پکا کیا اور یہاں سے ہی شامی
افواج کا حوصلہ پست سے پست تر ہوتا گیا ، حلب شہر جو ملک کا دوسرا سب سے
بڑا شہر ہے۔ انھیں اس شہر میں نہ ہونے بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا پھر
حما اور کچھ دن بعد حمص جیسے اہم شہر بھی باغیوں کے ہاتھوں آتے چلے گئے جو
خود باغی بھی اتنی آسانی فتوحات ان کی گود پر آگر رہی تھیں باغی بھی اس پر
حیرت زدہ ہورہے تھے.
آخر میں یہ بڑا شہر وہ دارالحکومت دمشق تنہا رہ گیا تھا اور دمشق میں
باغیوں کا جو خوف کا عالم بنا ہوا تھا کہ یہ دارالحکومت شہر دمشق یہ صرف
کچھ گھنٹوں کی بات تھی۔ یوں باغی دارالحکومت میں داخل ہوئے جو اسد کی طاقت
کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
بلاشبہ شام میں یہ اسد خاندان کے 50 سالہ ظلم و ستم کا فاشسٹ دور کا خاتمہ
ہوا۔ شام میں اس تبدیلی کے آنے سے خطے میں طاقت کے توازن میں بھی اور دوسرے
مڈل ایسٹ کے جغرافیہ میں بھی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی نظر آرہی ہیں.
اس وقت مشرق وسطی میں جس طرح سے سابق ایرانی صدر اور حماس کے لیڈر کا مارے
جانا اور اب شام میں اسد خاندان کا خاتمہ اس سے یہ ہی نظر آرہا ہے کہ خطے
میں ایران کے اثر و رسوخ کا اب بستر لپیٹنا ہی نظر آرہا ہے ایران کے لیے یہ
ایک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔
بشار اسد کی قیادت میں شام ایرانیوں اور حزب اللہ کے بیچ رابطوں کا حصہ نظر
آتا تھا۔ بشار الاسد پر ہمیشہ یہ الزام لگتا رہتا تھا کہ حزب اللہ کو
ہتھیار اور گولہ بارود کی ترسیل میں بشار الاسد کا اہم کردار تھا۔
حالیہ جنگ اور تقریبا ایک سال سے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حزب اللہ بھی
کافی کمزور ہوئی ہے اور اس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔
دیکھا جائے تو یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو بارہا فضائی
کارروائیوں میں متواتر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تمام گروہوں کے علاوہ عراق
میں ملیشیا اور غزہ میں حماس، ان سب کی مدد سے خطے میں ایران کا 'مزاحمت کا
محود' تشکیل پاتا تھا۔ مگر اب اس نیٹ ورک کو سنگین سے سنگین تر نقصان پہنچا
ہے۔
اس دفعہ اسرائیل کی جانب سے اس نئی صورتحال کا خیر مقدم کیا جائے گا کیونکہ
یہ ایران کے لیے مشرق وسطی میں ایران کی طاقت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے اس ہی
لیے اسرائیل اُسے اپنے لیے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی کی مرضی کے بغیر یہ سب ناممکن تھا۔ ترکی
ہمیشہ سے شام میں باغیوں کی حمایت کرتا ہے مگر اس نے ہیئت التحریر الشام کی
پشت پناہی کے الزام کی تردید کی ہے۔
کچھ دنوں تک صدر طیب اردوغان اسد پر زور دے رہے تھے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے
اس مسئلے کا سفارتی حل تلاش کیا کریں تاکہ ترکی میں شامی پناہ گزین واپس
لوٹ سکیں۔ شامی پناہگزین کی تعداد اس وقت ترکی میں ان کی تعداد تیس لاکھ سے
زائد تک ہے جو مقامی سطح پر ایک حساس مسئلہ بن چکا ہے۔
مگر بشار الاسد نے ہمیشہ ترکی میں شامی مہاجرین کی نقل مکانی و سکونیت سے
انکار کیا”
کئی لوگ اسد کی بے دخلی پر خوش ہیں۔ لیکن آگے کیا ہوگا؟ ہیئت التحریر الشام
کی جڑیں القاعدہ سے ملتی ہیں اور اس کا ایک پُرتشدد ماضی ہے۔
کئی برسوں کے دوران اس گروہ نے خود کو شام کی ایک قومی قوت کے طور پر ظاہر
کیا ہے۔ ان کے حالہ پیغامات میں سفارتی اور مفاہمتی سوچ جھلکتی ہے۔
مگر اس کے باوجود کئی لوگ پوری طرح مطمئن نہیں۔ انھیں تشویش ہے کہ حکومت
گِرانے کے بعد وہ آگے کیا کریں گے؟
ان ڈرامائی تبدیلیوں سے شام میں طاقت کا خلا پیدا ہوسکتا ہے۔ نتیجتاً مزید
افراتفری اور تشدد کا خدشہ ہے۔
|