جمہوریت کہتے ہیں اسے

مجھے کئی بار کہا گیا کہ میں بہاولپور کے مسائل سامنے لاؤں اور میں جب بھی لکھنے بیٹھا تو پاکستان کی بات شروع ہوگئی ۔اور اب تو یہ نوبت بھی سامنے آگئی ہے کہ مجھے بہت عجیب لگتا ہے جب میں کسی پریس کانفرنس میں جاتا ہوں اور وہاں جو دیکھتا ہوں اور جو سنتا ہوں محسوس کرتا ہوں اس کو حرفوں کا لبادہ اوڑھانے میں ناکام رہتا ہوں۔

پاکستان کو آج لیڈر شپ کا فقدان مہنگائی،کرپشن ،بے روزگاری تعلیم صحت سمیت جتنے بھی مسائل درپیش ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف عوام ہے اس ملک میں حکومت نام کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جو عوام کی خاطر کام کر رہا ہو اور عوام کو ریلیف دے رہا ہو۔ہر پندرہ دن بعد تیل گیس سمیت ضرویات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے جس سے عوام کی زندگی جڑی ہوتی ہے۔عوام کا درمیانہ درجہ ایک اور نچلا درجہ نشئی کی مانند ہو چکا ہے بجلی کے بل زیادہ آجائے تو اس میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا بل ٹھیک کروا سکے نچلے اور درمیانے درجے نے جب دیکھا کہ (رشوت دینے اور لینے والا جہنمی ہیں ) کا اطلاق 16 ویں سکیل سے اوپر کے ملازمین پر نہیں ہوتا تو انہوں نے بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنا شروع کردیا۔

جمہوری حکومت اور اپوزیشن کا کردار سامنے ہے اور کشمیر کے الیکشن کا نتیجہ بھی سامنے ہے کہ پیپلز پارٹی عوام کی پارٹی ہے اور وہ ساڑھے تین سال سے عوام کو بہت ریلیف دے رہی اور اب ظاہر ہے حکومت کے مخالف اور میرے جیسے لوگ جن کو کچھ نہیں ملتا انہوں نے تنقید تو کرنی ہے مجھے بھی کچھ ملے گا تو میں بھی یہ کام بند کردوں گا۔

حکومتی دعوے بے بنیاد اور رائی کا پہاڑ ثابت ہوئے۔41 ماہ سے زائد عرصہ کی حکومت کے دوران مہنگائی اپنے عروج پہ پہنچ گئی ۔خود ساختہ مہنگائی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری نے ہندو بنیئے اور یہودی تاجروں کی بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔عوام کو صرف ٹالک شوز میں آکر مسلسل بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ عوام اب بھی سوئی ہوئی ہے اور جو تھوڑی باقی جاگ رہی ہے وہ زندہ باد کے نعرے لگانے میں مصروف ہے۔مشرف کے دورحکومت میں روشن خیال پاکستان پالیسی نے ،اور اس سے پہلے بے نظیر اور نواز دور حکومت میں بلا وجہ پابندی (جو کہ صرف غریب عوام پر تھی) وگرنہ جن لوگوں نے اس دور میں بھی ان کے منہ میں ہڈی ڈالی تھی ان کو نوکریاں ملیں اور آج وہ ملک کی کلیدی کرسیوں پر بیٹھے ہیں،انہوں نے پاکستان کی معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ شاید کئی عشرے اور کئی حکومتیں اس کو راہ راست پر لانے میں گزر جائیں گے۔یہ پاکستان ہے جہاں رشوت کے بغیر علاج نہیں ہوتا۔رشوت کے بغیر داخلے نہیں ہوتے۔رشوت کے بغیر تعلیم نہیں ملتی۔رشوت کے بغیر میرٹ نہیں بنتا۔رشوت کے بغیر انصاف نہیں ملتا ۔رشوت کے بغیر نوکری نہیں ملتی اور اب آٹا اور چینی بھی رشوت کے بغیر نہیں ملتے۔مگریہ دور سنہری دور کہلائے گاکیونکہ کئی بلند پایہ سیاسی لیڈروں کی قتل اور قربانیوں نے ان کی حکومت اور وراثت کو مستقل کر دیا ہے اور ان کی حکمت عملی سے اس ملک اور عوام نے ایک آمر سے نجات حاصل کرلی نجات تو حاصل کرلی مگر عوام کو صوبائی قومی سینیٹ وزراء وزیراعظم اور صدر کی تحویل جبر میں دے دیا گیا اور اپوزیشن کے ساتھ ملکر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیئے کراس فائرنگ شروع کردی گئی ۔یہ کراس فائرنگ حلیف اور حریف جماعتوں اور لیڈروں کی طرف سے صرف ایک ٹوپی ڈرامہ ہے جس کا اسکرپٹ امپورٹڈ ہے اور ہدایت کاری آئی ایم ایف کی ہے۔مجھے میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ میں اپنے پاکستانی لوگوں کے بارے میں کچھ لکھوں۔کچھ دنوں پہلے پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی ورکشاپ کے دوران جس میں میں عوامی پارٹیوں کے نمائندے بھی موجود تھے بڑھ چڑھ کر آمریت مردہ باد اور جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ مگر عوام کا پیٹ جمہوریت سے بھرتا ہے اورنہ آمریت سے ۔ان کا پیٹ بھرتا ہے روٹی سے ۔20سے 30 فی صد عوام کو تو یہ بھی نہیں پتا ہوتا کہ ان کے نمائندے کون کون ہیں؟جب جب آمریت آئی تو کیا ان ساتھ جمہوریت کے پہلوانوں نے نہیں دیا؟

کیا سیاسی جماعتوں نے ان کی طرف داری نہیں کی؟ روز تو ٹی وی چینلز پر جمہوریت کے علمبرداروں کی تو طبعیت ٹھیک کی جاتی ہے مگروہ صرف سیاسی نوک جھونک ہی ہوتی ہے۔جناب عوام کو کرپشن سے نجات دلوائیں ۔صحت کی سہولیات دیں ،تعلیم دیں روزگار دیں خالی آمریت سے نجات کی مبارک باد نہ دیں ۔کتنا عرصہ درکار ہے آپ کو یہ سب شعبے ٹھیک کرنے میں؟تاکہ عوام اس کی آس لگا کر بیٹھیں کہ شاید پانچ ،دس ،پندرہ یا بیس سال لگ جائیں گے سب ٹھیک ہونے میں۔اور وہ اسی امید پر کچھ اور عرصہ جی لیں۔

بہرحال تمام شعبہ ہائے زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بارے میں یہ کہوں گا کہ لگڑبگھڑ ہیں اور یہ غول کی صورت میں پھرتے ہیں جب لگڑ بگھڑ کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا تو یہ ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اورایک دوسرے کو گھورتے ہیں جیسے ہی کسی ایک کی آنکھ جھپکتی ہے باقی سب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور کھا جاتے ہیں ۔عوام اس تمام عرصے میں حکومت اور اپوزیشن کی قلابازیاں دیکھ لیں کہ کس طریقے سے یہ عوام میں گھل مل کر ان کی کھال اتارنے کا کام کر رہے ہیں۔حکومت عوام کے لیئے دال روٹی کا بندوبست ہی کردیں عوام کے لیئے ۔اپنی بندر بانٹ کسی اور سیشن کے لیئے رکھ لیں۔ عوام تمام سیاسی جماعتوں کی قلابازیاں دیکھ لیں۔۔۔۔ کس شاطرانہ انداز میں اپنی اپنی کرسی کو بچا کر بیٹھے ہیں۔اور سب اچھا سب اچھا کے راگ الاپے اور سنے جارہے ہیں۔ڈاکٹرز کے مسائل؟اداروں کے مسائل؟ درمیانے اور نچلے طبقے کے مسائل؟ حکمرانوں کے مسائل؟اتحادیوں کے مسائل؟صوبوں کے مسائل؟امید ہے کہ حل ہو جائیں گے اگلے الیکشن اگر عوام نے ووٹ دیئے۔وگرنہ فرینڈلی اپوزیشن تو ہوگی ہی۔

اب فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ اپنا مستقبل کس کے ہاتھ میں دیتے ہیں؟ بغاوت کرتے ہیں یا پھر اسی طرح اپنے حق کے لیئے مارے مارے پھرتے رہیں گے۔سول سرونٹس اور عوامی نمائندوں کی سمجھ نہیں آتی وہ تنخواہ اور مراعات تو پاکستان کی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے لیتے ہیں مگر قواعد و ضوابط اور کہنے پر عمل آئی ایم ایف اور امریکہ کے کرتے ہیں۔آئی ایم ایف نے کہا کہ بجلی مہنگی کردو ،ہم ان کے قرضدار ہیں اس لیئے مہنگی کردی۔آئی ایم ایف نے کہا کہ پٹرول مہنگا کردو ہم نے کر دیا ۔ماضی قریب میں مشرف دور میں پٹرول مہنگا ہوا تو سب سے زیادہ شور مچانے والے لوگ پیپلز پارٹی کے تھے اور ایک ایک پروگرام میں آکر مشرف حکومت کو بہت دھویا تھا۔مشرف کے کردار کو فوج کے کردار سے نہیں ملایا جاسکتا۔مشرف کی صرف ایک غلطی تھی اور وہ یہ کہ چوروں کو ہٹا کر چور لے آیا تھا ۔رہی بات فوج کی تو فوج کے کردار پر کسی بھی دور میں شک نہیں کیا جاسکتا۔یہ فوج ہی ہے جو ملک کھڑا ہے ورنہ سیاست دان تو اس کو بیچ کر جا چکے تھے۔اب جن سیاست دانوں کو ان کے بجٹ اور ان کے کردار پر شک ہے تو ان کو چولستان کے بارڈر ،سیاچن گلیشیئرپر ڈیوٹی کے لیئے بھیجا جائے اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو صرف ان کو الخالد ٹینک یا توپوں کو صاف کروانے کاکام بلکہ ان کو ٹریننگ کروائی جائے یہ عوام کی خدمت بھول جائیں گے۔اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا توجن لوگوں کو عوام کی خدمت کا اسمبلی میں سو کر یا بیٹھ کر کرنے کا شوق ہو انکو امریکہ انکی کی پوری فیملی کے ساتھ بھجوادیںیہ وہاں جاکر انکی خدمت کریں اور عوام کو سکھ کا سانس لینے دیں ۔زکوٰۃ ،بیت المال ،سپورٹس،ہیلتھ،تعلیم،فنانس ،پولیس ،بنک ،ریلوے،پی آئی اے، انصاف،واپڈا،مذہب اور ایف آئی اے کوئی ایک محکمہ تو بخش دیا جائے جو عوام کے لیئے کام کرسکے ۔چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس پاکستان مہربانی کریں عوام کی فریاد پر توجہ دیں تمام اداروں کو مختلف قسم کی آسائشات اور لالچ کے ذریعے کرپشن کا زہر داخل کیا جارہا ہے۔پٹرول کی ملک ترقی میں کیا کردار ہے اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔عوامی نمائندوں کوذیادہ سے ذیادہ 16 ویں یا 17 ویں سکیل کے ملازمین کے برابر تنخواہ دے دی جائے۔پہلے ہی اس ملک کی معشیت کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے اور اوپر سے ان کی آسائشات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ۔اور رہی سیاسی کشمکش ہر لمحے بل کھاتی ایوان بالا تک رسائی دوڑ اور ہم سب سے اچھے ہیں کے گیت ہر اخبار میں پڑھے جا سکتے ہیں اور چینلز پر دیکھے جاسکتے ہیں۔حکومت کی عدلیہ سے سرد جنگ بظاہر محسوس نہیں ہو رہی !مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے عدلیہ کے فیصلے ہضم نہیں ہو رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی معاشرہ دنیا کی تمام آسائشات کے بنا دنیا میں جی سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر ایک دن نہیں چل سکتاپیپلز پارٹی کی یہ غلط فہمی کہ وہ اس وقت پاکستان کی سب سے مقبول جماعت ہے اور نہ کسی کی قربانی اب ان کو اکثریت دے سکے گی۔ق لیگ کا اتحاد اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کسی بھی حال میں حکومت کے مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ عوام کے سر سے جمہوریت کا بھوت اتر جائے۔اور حکومت بھی اپنے دور کے پورے وقت کے مزے پورے لے لے۔اس دفعہ الیکشن میں تحریک انصاف مسلم لیگ(ن) سمیت تمام مسلم لیگز ،جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا اتحاد بازی مارے گا۔ن لیگ نے ایم کیو ایم کو پنجاب تک رسائی دینی ہے۔اور عمران خان کی بات کے مطابق شریف برادران اپنی دولت پاکستان لے آئیں تو اتحاد ہو سکتا ہے۔پر ن لیگ نے عمل شروع کردیا ہے جبکہ پی پی کو اس کے کئی اہم رہنما اندرونی طور پر چھوڑ چکے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہے پارٹی میں۔جس کا نتیجہ بہت جلد پی پی کے سامنے آنے والا ہے۔

عدلیہ اپنے فیصلوں پر زور اس لیئے نہیں دے رہی کہ پھندے تیار ہیں جو اس وقت گلے میں ڈالے جائیں گے جب اقتدار نگران حکومت کے سپرد کیا جائے گا۔پی پی کے30 سے 50 فیصد امیدوار نااہل ہو جائیں گے۔پی پی کے پاس ایک آپشن ہے خود کو سیاست میں رکھنے کے لیئے کہ وہ صوبوں کے قیام کا اعلان کردے اور بہاولپور صوبہ کو بحال کردے۔خزانہ خالی ہے۔گورنر سٹیٹ بنک استعفیٰ دے چکے ہیں جس کے بیک گراؤنڈ میں بھی کوئی سیاسی ایشو کار فرما ہے جو وقت آنے پر سامنے آ جائے گا۔تاہم یہ مسلہء ہو یا جمشید دستی کا بیان ہو یا ذوالفقار مرزا کا؟ یا بحالی ہو ظفر قریشی کی یہ سب باتیں حکومت کے لیئے لمحہ فکریہ ہیں ۔اب حکومت یا آصف علی زرداری کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

ایک دلچسپ اور اہم بات ہے کہ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم جو ہر دور میں اپنی حرکتوں کی وجہ سے (جن کا علم ایجنسیوں کو بھی ہے اور تمام عملے کو بھی کہ وہاں کیا ہوتا تھا اور کیا ہوتا ہے؟) منحوس ہوچکے ہیں میں نے اپنی زندگی میں یہاں جس کو بھی آتے دیکھا ہے کہ اس کو لاکھوں لوگ چھوڑنے کے لیئے آئے ،مگر اس کوعزت کے ساتھ واپس جاتے نہیں دیکھا۔لہذا حکومت اس بات پر توجہ کرے کہ کہیں کامیاب ترین دور گزارنے کے بعد زلت اور رسوائی ان کی راہ تو نہیں تک رہی؟پاک افواج کی قربانیوں کو سلام۔پاکستان زندہ باد۔محمود غزنوی ،محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی کی منتظر عوام۔
umar khan
About the Author: umar khan Read More Articles by umar khan: 17 Articles with 13155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.