وزیر اعظم نریندر مودی ابھی تک ہندوستان میں’ بولیٹ ٹرین‘
تو نہیں دوڑا سکے مگر اس بیچ انہوں نے یہ کیا کہ’تیر کمان ‘والی جو پرانی
ریل گاڑی ہوا کرتی تھی اس کے انجن کا مکھوٹا بدل دیا۔ اب واندے بھارت جیسی
ٹرین جب پلیٹ فارم پر آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بولیٹ ٹرین آگئی۔ یہ ہے
مودی جی کے آئی ٹی سیل کی حکمتِ عملی کہ لالی پاوڈر لگا کر پرانا مال نئی
پیکنگ میں ڈالواور بیچ دو۔ ان نئی گاڑیوں کے ڈبے بھی نہایت خوشنما بنائے
گئے ہیں تاکہ مسافر وں کی زیادہ سے زیادہ جیب خالی کی جاسکے اور انہیں
احساس بھی نہ ہو اور وہ وہی پرانا نغمہ گنگناتا رہے’ لوٹ لیا دل تو نے میرا
راہ میں چلتے چلتے ، نینا مار گئی رے میں تو ہار گئی رے‘۔اس حقیقت کا احساس
انسان کو اس وقت ہوتا ہے جبکہ خوشنما انجن اور ڈبے والی ٹرین لیٹ ہوجاتی ہے
کیونکہ اوپر سے تو سب کچھ بدل گیا مگر پیروں تلے پٹری نہیں بدلی اور گاڑی
کو چلنا تو اسی ریل پر پڑتا ہے۔ مودی کے دور میں ایک نام نہاد ’نیا بھارت‘
وجود میں آگیا ہے ۔ اس میں اوپر اوپر بہت کچھ بدلا ہوا نظر آتا ہے مگر
اندر جھانک کر دیکھو توروح کانپ جاتی ہے۔ سرکار دربار کو بھی اس کا احساس
ہے اس لیے جب ٹرمپ جیسے لوگ آتے ہیں تو کہیں دیوار بناکر اور کہیں پردہ
باندھ کر حقیقت کو چھپایا جاتا ہے ۔
اس بار صوبائی انتخابات میں مہاراشٹر کے اندرکمل چھاپ خرگوش قلاچیاں مار
رہا تھا اور جھارکھنڈ میں تیر انداز کچھوا دھیمی رفتار سے رواں دواں تھا۔
دونوں کی دوڑ کے لیے ایک ہی وقت میں سیٹی بجی اور وہ ساتھ ہی کامیاب و
کامران ہوکر اپنی منزل پر پہنچے ۔ اس کے باوجود جھارکھنڈ میں وزیر اعلیٰ کی
حلف برداری ہوگئی مگر مہاراشٹر پیچھے چھوٹ گیا ۔ جھارکھنڈ میں وزارت کی
توسیع بھی ہوگئی اور مختلف وزیر اپنے اپنے شعبے میں کام کرنے لگے مگر
مہاراشٹر پھر پچھڑ گیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو وزیر اعلیٰ کی کرسی کو
لے کر کھینچا تانی کا دور چلا ۔ کئی دنوں تک سابق وزیر اعلیٰ کے روٹھنے اور
منانے کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اس دوران وہ کبھی روہانسے تو کبھی ہنستے نظر
آتے تھے ۔ کبھی بیمار ہوجاتے تھے اور پھر بھلے چنگے دکھائی دیتے تھے ۔ خیر
بالی ووڈ فلموں کی طرح ممبئی سیاست کا ڈرامہ آخری لمحات تک جاری رہا لیکن
بالآخر رسوا ہوکر ایکناتھ شندے نے ہتھیار ڈال ہی دئیے ۔ وہ اگر اپنے
انجامِ بد کا اندازہ کرلیتے تو ان کے حق میں بہتر تھا فی الحال ایکناتھ
شندے کا حال آخری مغل بہادر شاہ ظفر جیسا ہے کہ جنہوں کہا تھا ؎
دل ہم نے دیا تھا تجھے امید وفا پر
تم ہم سے نہیں کرتے وفا کچھ نہیں کرتے
سابق وزیر اعلیٰ کو جب احساس ہوگیا کہ اب تاجپوشی ناممکن ہے تو وہ بھاگتے
چور کی لنگوٹی کی مصداق وزارت داخلہ پر مُصر ہوگئے ۔ یہ معقول مطالبہ تھا
کیونکہ موجودہ وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس جب ان کے نائب تھے تو یہ وزارت ان
کے پاس تھی اب چونکہ وہ ان کی جگہ لے رہے ہیں اس لیے ان کا وزارت پر حق
بنتا ہے ۔ ایکناتھ شندے یہ بھول گئے کہ اس سے قبل جب دیویندر فڈنویس وزیر
اعلیٰ تھے تب بھی یہ وزارت انہیں کے پاس تھی ۔ انہوں شندے کے وزیر اعلیٰ بن
جانے کے بعد اس کے قریب پھٹکنے نہیں دیا کیونکہ پولیس کا کنٹرول اپنے پاس
رکھنا چاہتے تھے ایسے میں اب اس اختیار کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ بی جے پی
کے وزرائے اعلیٰ میں اپنے ساتھیوں پر عدم اعتماد اور خود اعتمادی کی کمی ا
نہیں وزارت داخلہ سے دور نہیں ہونے دیتی۔یوگی سے فڈنویس تک سبھی اس حمام
میں یکساں ہیں۔ خدا خدا کرکے اب وزارت کی توسیع تو ہوگئی مگر تقسیم نہیں
ہوپارہی ہے۔ اجیت پوار وزارتِ خزانہ پر خوش ہیں لیکن ایکناتھ شندے کا وزیر
داخلہ بننے پر اصرار تاخیرکی وجہ بن رہا ہے ۔
ریل گاڑی کی رفتار پر ڈبوں کا تو خیر کوئی اختیار ہی نہیں مگرانجن کا ہوتا
ہےلیکن اس سے بھی اہم ڈرائیور کا کردار ہوتا ہے۔ مہاراشٹر کے اندر فی الحال
تین ڈرائیور ہیں اور ان کے درمیان سرپھٹول اس گاڑی کو لیٹ کررہی ہے۔ اس کی
قیمت سواریاں یعنی رائے دہندگان چکا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دیویندر فڈنویس
کے ذریعہ اپنے حریفوں کو ٹھکانے لگانے کاپرانا کھیل بھی چل پڑا ہے ۔ ماضی
میں ایکناتھ کھڑسے ، پنکجا منڈے اور ونود تاوڑے کو بڑی خوبی سے ٹھکانے لگا
چکے ہیں۔ اس بار ودربھ کے نہایت قدآور پسماندہ رہنما سدھیر ویڈٹیوار کا
پتاّ کاٹ کر انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ زبردست اکثریت کے باوجود برہمن
ہمیشہ خوف و اندیشہ کا شکار رہتا ہے ۔ 2009سے 2012 تک سدھیر ویڈٹیوار بی جے
پی مہاراشٹر کے صدر تھے ۔ اس کے بعد دیویندر فڈنویس کوصدارت دی گئی اورمودی
لہر میں بی جے پی صوبائی انتخاب جیت گئی تو وہ وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔اس وقت
سے اب تک فڈنویس نےسدھیر کو کسی طرح برداشت کیا مگر پچھلی بار جنگل اور
مچھلی پالن کا شعبہ دے دیا گیا یعنی بیاباں میں جاکر جھک مارو۔ اس بار تو
ان کو وزارت سے محروم کرکے واقعی مچھلی بازار کا راستہ دکھا دیا گیا ۔ یہ
کینہ پروری بھی تاخیر کی ایک وجہ ہے۔
مہاراشٹر کے حالیہ انتخاب میں جس طرح مسلمانوں نے بھر بھر کے مہاراشٹر وکاس
اگھاڑی کو ووٹ دیا اسی طرح پسماندہ طبقات نے مہایوتی پر اپنا ووٹ نچھاور
کردیا ۔ اس کام میں جو کردار مسلم مذہبی و سماجی رہنماوں نے ادا کیا وہی
کام چھگن بھجبل نے پسماندہ سماج میں کیا ۔ حکمتِ عملی یہ تھی پسماندہ طبقات
میں مراٹھا ریزرویشن کا خوف پیدا کرکے انہیں اپنے خیمے میں جمع کرلیا جائے۔
اس کے لیے جرانگے پاٹل سے کہا گیا کہ وہ مراٹھا سماج کے لیے پسماندہ کوٹے
میں ریزرویشن پر اصرار کرے اور بھجبل کو تعینات کیا گیا کہ وہ پچھڑے سماج
کو گولبند کر کے مہایوتی کے خیمے میں لائے ۔ یہ کام بڑی حسن و خوبی سے ہوا
لیکن کامیابی کے ملتے ہی بی جے پی نے چھگن بھجبل کی پیٹھ میں چھرا گھونپ
دیا ۔ ایکناتھ شندے کی طرح چھگن بھجبل ایک زمانے میں بال ٹھاکرے کے دستِ
راست تھے ۔ اس کے بعد کانگریس سے ہوتے ہوئے وہ این سی پی میں پہنچے ۔ ان کی
پارٹی جب بھی اقتدار میں آئی وہ نہ صرف وزیر بلکہ نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے
لیکن اس قدر بڑی کامیابی دلانے بعد ان کو سزا دے کر مراٹھوں کی منہ بھرائی
کی جارہی ہے۔چھگن بھجبل کی بے وزیری پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
چھگن بھجبل کی حالت زار دیکھ کر پسماندہ طبقات خود کو اسی طرح فریب خوردہ
محسوس کررہے ہیں جیسے ایم وی اے کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمان محسوس
کرتے ۔عام رائے دہندگان بلکہ ان کے رہنماوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ
مطلب کی دنیا ہے یہاں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی
کی شکست کا ایک سبب دلت سماج کے اندر ریزرویشن کو لاحق خطرہ واندیشہ تھا ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ بار بار اس کی یقین دہانی کرتے تھے مگر وہ جیسے
ہی چار سوپار سنتے انہیں اپنا بیڑہ غرق ہوتا نظر آتا۔اس بار مہاراشٹر کے
انتخاب میں دلت سماج کے اندر اعتماد بحالی کی خدمت مرکزی وزیر رام داس
اٹھاولے کو سونپی گئی۔ اسی مقصد کے لیے انہیں مرکزی وزارت میں شامل کیا گیا
ہے ورنہ ان سے زیادہ تیز طرار راج ٹھاکرے کو کوئی پوچھ کر نہیں دیتا ۔
انتخابی کامیابی کے حوالے سے بھی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہےلیکن چونکہ بی
جے پی کے اندر کوئی معتبر دلت چہرا نہیں ہے اس لیے رام داس اٹھاولے جیسے
غیر معتبر چہرے سے کام چلایا جارہا ہے۔
وزیر اعلیٰ کی تاجپوشی میں رام داس اٹھاولے کو بلایا گیا کیونکہ پیشوائی
میں دلت کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ وزارت کی توسیع کے وقت انہیں حق دینے کا
موقع تھا اس لیے دعوتنامہ تک بھیجنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ سرکاری عیش و
عشرت کے لیے اس طرح کی توہین کو عام طور پر جڑ کٹے سیاسی رہنما برداشت
کرلیتے ہیں۔ عام طور پر رام داس اٹھاولے اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کرتے
مگر یہ تضحیک آمیز سلوک ان کے لیے بھی ناقابلِ برداشت ہوگیا اور انہوں نے
پریس کانفرنس میں کہا کہ انتخابی مہم کے دوران پارٹی کے کارکنان نے گاوں
گاوں شہر شہر جاجاکر دلتوں کو اطمینان دلایا کہ ان کے ریزرویشن کو کوئی
خطرہ نہیں ہے ۔ اٹھاولے کے مطابق مہایوتی کی بڑی کامیابی میں ان کا بھی بہت
بڑا حصہ ہے مگر مطلب کے نکل جانے کے بعد انہیں بھی یکسر بھلا دیا گیاہے۔ وہ
کہتے ہیں کہ انہیں کم ازکم ایک وزارت کی امید تھی ۔ اس کے بغیر کارکنان کو
سمجھانا مشکل ہے اس لیے وہ توقع کرتے ہیں خالی میں سے ایک وزارت آر پی
آئی (اے) کو دی جائے گی لیکن جس بیچارے کوبلایا تک نہیں جاتا اس کو آگے
چل کر بھی ذلت ورسوائی کے سوا کیا ملے گا؟ ر ام داس اٹھاولے کی حالتِ زار
پر غالب کا وہ مشہور شعر صادق آرہا ہے؎
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
|