سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے جاتے جاتے جس سلسلے کے آغاز کیا تھا اس
کو موجودہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے اور بھی جری انداز میں آگے بڑھایا ۔
جسٹس چندر چوڑ نے آخری ہفتے میں مدرسہ بورڈ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور
بلڈوزر ناانصافی پر معاوضے سے متعلق بے لاگ فیصلے کیے جسٹس سنجیو کھنہ نے
آنے سے قبل آئین میں سوشلزم و سیکولرزم اور اب عبادت گاہوں کا قانون و
سنبھل کی شاہی مسجد کے فیصلوں سے امید کا ایک چراغ جلا دیا ہے ۔ اپنی ۶؍
ماہ کی قلیل مدت میں اگروہ چندر چوڑ کے سروے والے پٹارے کو بندکردیں تو
زعفرانیوں کو بڑا جھٹکا لگے گا ۔ موصوف اس جسٹس ایچ آر کھنہ کے بھتیجے ہیں
جنھوں ایمرجنسی کے دوران فرد کی آزادی کے حق میں فیصلہ کرکے اندرا گاندھی
کو ناراض کیا اور اپنے چیف جسٹس کے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر نہیں جھکے،
41؍ سال بعد عدالتِ عظمیٰ نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔انہوں نے الیکشن لڑنے
کی پیشکش کوتو ٹھکرا یا مگر اندرا گاندھی کے خلاف بنائے گئے کمیشن کی تفتیش
سے بھی معذرت کرلی ۔ لاء کمیشن کے چیرمین بنائے گئے تو تنخواہ نہیں لی
۔ایسے چچا سے ترغیب لے کر جج بننے والے جسٹس سنجیو کھنہ سے انصاف کی توقع
بجا ہے بشرطیکہ وہ رنجن گوگوئی کی مانند کسی معاملے میں پھنسنے سے بچ جائیں
۔
اس معاملے میں عدلیہ کے مقابلےتو آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت
کا موقف زیادہ معقول لگتا ہے۔ انہوں نے جون 2022میں واضح کیا تھا کہ
ایودھیا تحریک میں سنگھ کی شرکت ایک استثناء تھی اور مستقبل میں سنگھ اس
طرح کی کسی تحریک میں شامل نہیں ہوگا۔ سنگھ کے سربراہ نے کہا تھا ’ اب گیان
واپی مسجد کا معاملہ چل رہا ہے۔ ہم تاریخ کو نہیں بدل سکتے۔ وہ تاریخ نہ ہم
نے بنائی ہے اور نہ آج کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے بنائی ہے۔ یہ اس وقت ہوا
جب اسلام حملہ آوروں کے ساتھ ہندوستان میں آیا۔ حملے کے دوران آزادی کے
متوا لوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے مندروں کو تباہ کر دیا گیا۔ ایسے ہزاروں
مندر ہیں‘‘۔مسلمانوں حکمرانوں پر تو یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے مگر ہندو
راجاوں کے یہاں یہ عام تھا کہ وہ جب اپنے حریف کو شکست دیتے تو اس کے عوام
پر دہشت بیٹھانے کے لیے ان کے مندر تباہ کرتے ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ فی
الحال بی جے پی کی ڈبل انجن سرکاریں مسلمانوں کو خوفزدہ و مایوس کرنے کی
خاطر اپنے آبا واجداد کی وہی فرسودہ حکمت عملی استعمال کررہی ہے۔
بھاگوت نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندو مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے
آباواجداد ہندو تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ بھی کیا گیا ہندوؤں
کے حوصلے کو توڑنے کے لیے کیا گیا۔ ایک طبقہ اب مندروں کی پھر سے تعمیر
کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے مگر اس طرزِ فکر کو مسترد کرتے ہوئےوہ کہتے
ہیں ’’روزانہ کوئی نیا مسئلہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہم لڑائی کو کیوں بڑھائیں؟
گیان واپی کے بارے میں ہمارا عقیدہ روایت سے چل رہا ہے۔ ہم جو کرتے آرہے
ہیں وہ ٹھیک ہے۔ لیکن ہر مسجد میں شیولنگ کیوں دیکھنا؟ وہ بھی ایک پوجا ہے۔
ٹھیک ہےباہر سے آئی ہے، لیکن جنہوں نےاپنایاہےوہ مسلمان باہر سے تعلق نہیں
رکھتے۔ اگرچہ پوجاان کی ادھر کی ہے،اس میں اگر وہ رہنا چاہتے ہیں تو اچھی
بات ہے۔ ہمارے یہاں کسی پوجا کی مخالفت نہیں ہے۔بھاگوت نے واضح کیا تھا کہ
آر ایس ایس گیان واپی مسئلہ پر کوئی تحریک شروع کرنے کے حق میں نہیں ہے ۔
ایودھیا پر سپریم کورٹ کے 9 نومبر 2019 کے فیصلے کے بعد، بھاگوت نے مشورہ
دیا تھا کہ سنگھ متھرا اور کاشی سے دور رہ کر ‘کردار کی تعمیر’ پر توجہ
مرکوز رکھے گا۔انہوں نے فیصلے والے دن میڈیا سے کہا تھا کہ ’ ایک رام جنم
بھومی تحریک چل رہی تھی، جس میں ہم اپنی فطرت کے خلاف کچھ تاریخی وجوہات کی
بنا پر اس وقت کے حالات میں شامل ہوئے۔ ہم نے کام کو پورا کیا۔ اب ہمیں
کوئی تحریک نہیں چلانی ہے‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی
غیر معمولی صورتحال تھی جس میں آر ایس ایس کو خلاف فطرت رام مندر کی تحریک
میں شرکت کے لیے مجبور ہونا پڑا؟ 1990میں بی جے پی کی بیرونی حمایت سے وی
پی سنگھ حکومت کررہے تھے ۔ انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کونافذ کرنے کا
جیسے ہی فیصلہ کیا سنگھ پریوار کے ہوش اڑ گئے ۔ اس کے جواب میں پہلے تو اس
نے اپنی طلباء تنظیم کی مدد سے پر تشدد مظاہرے کرائے اور اس میں ایک لڑکے
کو جلا کر اسے خود سوزی کا نام دے دیا ۔ اس کے بعد لال کرشن اڈانی رام رتھ
یاترا پر نکل پڑے ۔
وی ایچ پی نے جب 1984میں رام مندر کی تحریک شروع کی تو اس کے سربراہ ڈالمیا
نے اس وقت کے سر سنگھ چالک بالا صاحب دیورس سے کہا تھا کہ ہم ایسی ہنگامہ
خیز تحریک چلائیں گے کہ ایک سال کے اندر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر
ہوجائے ۔ اس پر دیورس نے پوچھا تھا کیاتم جانتے ہو ملک میں کتنے رام مندر
ہیں ؟ تقریباًچار لاکھ تم ایک بنادو گے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ اس مسئلہ
کو ٹھنڈی آنچ پر ایسے چلاو کہ دھیرے دھیرے اقتدار کی کنجی ہمارے ہاتھ میں
آجائے۔ایسے میں جانناضروری ہے کہ 1528 میں میر باقی کی تعمیر کردہ بابری
مسجد کو سنگھ پریوار نے اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنایالیکن صحیح بات تو یہ
ہے کہ وی ایچ پی سے سو سال قبل 1885 میں ایودھیا کے ایک سادھو رگھوبر داس
نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں ایک درخواست داخل کرکے بابری مسجد کے باہر
ایک چھتری بنانے کی اجازت مانگی تھی مگر برطانوی عدالت نے اسے مسترد کر دیا
تھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے عدل و انصاف کے معاملے میں انگریز سامراج آزادی کے
بعد والی حکومتوں سے بہتر تھے کیونکہ اس کے سامنے انتخاب جیتنے کی مجبوری
نہیں تھی۔ آزادی کے بعد ایودھیا کے کچھ سادھوؤں کا حوصلہ بلند ہوا تو
انہوں نے22 دسمبر 1949 کی شب میں بابری مسجد کے منبر پررام کی ایک چھوٹی
مورتی رکھ دی اور اگلی صبح یہ افواہ پھیلاکر مسجد کے باہربھجن کیرتن شروع
کردیا کہ رام اپنے پیدائشی مقام پر ’ظاہر‘ ہو گئے ہیں۔ مقامی کلکٹر کے کے
نائر نے بابری مسجد پر تالہ لگوا دیا۔ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اتر
پردیش کے کانگریسی وزیر اعلی جی بی پنت کومسجد سے مورتی ہٹانے کی ہدایت کی
تو جواب ملا فساد برپا ہو جائے گا۔ فیض آباد کے کانگریسی رکن پارلیمان بابا
راگھو داس نے بھی مسجد سے مورتی ہٹانے کی سخت مخالفت کی ۔ کے کے نائر کو اس
خدمت کے عوض جن سنگھ کے پہلا رکن پارلیمان بننے کا اعزاز ملا۔
1950 میں گوپال ویشارد نے فیض آباد ضلع عدالت میں رام کی مورتی کو پوجنے کا
حق مانگا تو مل گیا پھر کیا تھا اسی سال سادھو پرم ہنس رام چندر داس نے
روزانہ پوجا کی اجازت مانگی۔1959 میں پہلی بار’نرموہی اکھاڑہ‘ نے پورے
بابری مسجد کمپاؤنڈ پر دعوے کی پٹیشن داخل کی۔اس کے جواب میں 1961 کے اندر
اتر پردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ نے بابری مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کی
پٹیشن ڈالی۔ اس کے بعد جاکر 1984میں وی ایچ پی نے رام مندر تحریک کا آغاز
کیا تو بالا صاحب دیورس نے جو جواب دیا وہ اوپر گزر چکا ہے لیکن بی جے پی
نے اسے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔1986 میں کانگریس کے راجیو گاندھی نے فیض
آباد کی ایک ذیلی عدالت سے مسجد کا تالہ کھلوا کر سادھووں کے ساتھ عام ہندو
عقیدتمندوں کو بھی پوجا کی چھوٹ دے دی ۔1989 میں الہ آبادہائی کورٹ کے اندر
ایک مقدمہ دائر کرکےاس زمین کو رام کی ملکیت قرار دینے کا مطالبہ کیا
گیا۔یہاں تک تو سب کچھ ٹھنڈی آنچ پر تھا مگر 25 ستمبر1990 کو بی جے پی کے
قائد ایل کے اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ مندر سے ایودھیا تک ایک رتھ یاترا
کی مہم شروع کرکے ملک گیر ہنگامہ برپا کردیا جو بالآخر 6دسمبر 1992 بابری
مسجد کی شہادت پر منتج ہوا۔
یہاں پر اہم ترین سوال یہ ہے لال کرشن اڈوانی نے رام مندر تحریک کو اچانک
گرم آنچ پرکیوں رکھ دیا؟ اور آریس ایس سمیت پورا سنگھ پریوار اس کام میں
کیوں جٹ گیا ؟ یہ دراصل منڈل کا کمال تھا جس کے خلاف کمنڈل کو میدان میں
آنا پڑا۔ آگے چل کر یہ لڑائی ٹھنڈے بستے میں چلی گئی۔ مودی جی سب کا ساتھ
سب کا وکاس کہہ کر آئے مگر جب بات بنتی نظر نہ آئی تو مندر مسجد کھیلنے
لگے۔ اس لیے کمنڈل کے خلاف راہل گاندھی پھر سے منڈل والوں کو لے آئے ۔ بی
جے پی کے پاس اب کمنڈل کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے ۔ یہ وجود قائم رکھنے
کا سوال علاج ہے ۔ عدالت صرف مرہم پٹی کر سکتی مگر اس بیماری کا کافی و
شافی علاج تو سیاسی ہی ہے۔ یہ لوگ ایک بار اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گے تو
شور شرابہ ہوگا مگر انتظامیہ کی حمایت سے محرومی ان کا دماغ درست کردے گی ۔
اس وقت عبادتگاہوں کے قانون کی مدد سے کام چلانا پڑے گا ۔ بی جے پی نامی
طوطے کی جان اقتدار میں ہے۔ یہ لوگ انتظامیہ کی مدد سے یہ شیردکھائی دیتے
ہیں اور اس کے بغیر بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔
|