آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے (پروفیسررفعت مظہر) قلم درازیاں

آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے (پروفیسررفعت مظہر) قلم درازیاں
پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان، مجیدبریگیڈ، بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث ہیں جنہیں جہنم واصل کرنے کے لیے وطنِ عزیزکے جری جوان ہمہ وقت برسرِپیکار رہتے ہیں۔ پاک فوج کی لازوال قربانیوں کی طویل داستان کے علاوہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پولیس، رینجراور ایف سی کے اہلکاربھی مصروف رہتے ہیں۔ ظاہرہے کہ جوملک کی سلامتی کے خلاف ہتھیار اُٹھائے گااُس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے ہی نمٹاجائے گا۔ حیرت مگر یہ ہے کہ سیاسی جماعت کالبادہ اوڑھے ایک ٹولہ ہمہ وقت ملکی سلامتی کے دَرپئے ہوتاہے مگراُس کے ساتھ سلوک مشفقانہ، آخر کیوں؟۔ کیایہ شَرپسند گروہ جس کاایک وزیرِاعلیٰ یہ کہتاہے ”اگلی دفعہ پُرامن والی بات نہیں کریں گے، یہ عوام گریبان سے پکڑکر نکالے گی کہ تم ”شام“ کوبھول جاؤگے“۔ اُس نے یہ بھی کہاکہ پولیس، رینجرزاور فوج اپنے آفیسرز کاحکم ماننے سے انکار کردے۔ وہ مسلح جتھے لے کر اسلام آبادپر چڑھائی کرتاہے، غلیلوں، پتھروں اورآنسوگیس کے ایسے شیلوں سے اُس کے شَرپسند لیس ہوتے ہیں جو پاکستانی شیلوں سے 4گُنا زیادہ پاور رکھتے ہیں۔ اُس کے ہمراہ اُس صوبے کی پولیس اور ریسکیو1122کی گاڑیاں بھی تھیں۔ اِس کے علاوہ مسلح افغان دہشت گردبھی ہمراہ تھے۔ وہ دہشت گرد درختوں کو آگ لگاتے، گاڑیاں جلاتے، رینجرزکے 4، پولیس کے 2جوانوں کوشہید کرتے اور 119پولیس اہلکاروں کوزخمی کرتے ڈی چوک اسلام آباد پہنچتے ہیں جہاں بغیرکوئی گولی چلائے پولیس اور رینجرزکے جوان اُنہیں منتشر کردیتے ہیں۔ تب یہ انتشاری ٹولہ سوشل میڈیاپر شور مچادیتا ہے کہ فوج کی فائرنگ سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوگئیں حالانکہ اُن ہلاکتوں کے ثبوت اِس ٹولے کے پاس ہیں نہ الیکٹرونک میڈیاکے رپورٹراکے پاس اور نہ ہی کیمرے کی آنکھ نے لاشوں کو محفوظ کیا۔ البتہ یہ ضرورہوا کہ رینجراور پولیس کے 6شُہداء کاخونِ ناحق سوشل میڈیاکے پراپیگنڈے میں دَب کے رہ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگرہتھیار اُٹھانے والی دہشت گرد تنظیموں کونیست ونابود کرنے کے لیے ہتھیار اُٹھائے جاسکتے ہیں تو اِس ”لاڈلی“ سیاسی جماعت کے دہشت گردوں کے خلاف کیوں نہیں؟۔ جب سے 26نومبر کا دن گزرا ہے حکمرانوں کی یہی رَٹ کہ گولی نہیں چلی، پولیس اور رینجرز غیرمسلح تھے، اگرکوئی لاش گری توکوئی ثبوت دکھاؤ۔ آخریہ رویہ کیوں؟۔ اِس میں کوئی شَک نہیں کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام خواہ وہ سندھی ہوں، بلوچی، پشتون یاپنجابی، اِسی دھرتی ماں کے بیٹے ہیں اور اُن کی حفاظت اور اُن سے الفت ومحبت ہرپاکستانی کافرضِ عین لیکن شَرپسند اور دہشت گرد نہ تواِس دھرتی ماں کے بیٹے ہیں اور نہ ہی حسنِ سلوک کے مستحق۔ اِس لیے اُن کے ساتھ وہی سلوک روارکھنا چاہیے جودہشت گردوں کے ساتھ رکھاجاتا ہے۔
ہم نے انہی کالمومیں لکھاتھا کہ
پکڑکے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
ہم آج بھی اپنے اِس کہے پہ قائم ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسے شَرپسند کسی رعایت کے مستحق نہیں جن کاجیل میں بیٹھا لیڈرکبھی 9مئی جیسی ناکام بغاوت کرواتاہے اورکبھی 24نومبر کوایک صوبے کے وزیرِاعلیٰ کومرکزی دارالحکومت پرچڑھائی کاحکم دیتاہے۔ اُس کی جلسے جلوسوں کی صورت میں املاک کی تباہیوں کی داستان طویل ہے۔ اِس کے باوجودبھی حیرت ہے کہ عدلیہ کے حکم پراڈیالہ جیل میں بھی اُس کے ساتھ شاہانہ سلوک روارکھا جارہا ہے۔ لگ بھگ 2ماہ قبل تک وہ قوم کے خون پسینے سے اکٹھے کیے گئے 36لاکھ روپے ڈکارچکا تھااور اب بھی وہ جیل میں شاہانہ زندگی گزاررہا ہے۔۔۔۔ آخر کیوں؟۔
چنددن پہلے تحریکِ انصاف کے رَہنماء حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیارہوئے۔ قائدِحزبِ اختلاف عمرایوب نے کہاکہ وہ مذاکرات کے لیے تیارہیں خواہ انسانوں کے ساتھ ہوں یا فرشتوں کے ساتھ۔ تحریکِ انصاف کے موجودہ مجوزہ چیئرمین بیرسٹرگوہر نے کہاکہ مذاکرات کے لیے ہماری کوئی شرط نہیں، یہ غیرمشروط ہوں گے۔ پھر پارلیمنٹ میں اجلاس کے دوران دونوں طرف سے آگ اُگلنابند ہوئی اور یوں محسوس ہونے لگاکہ جیسے برف پگھل رہی ہو۔ اِس سلسلے میں سپیکرقومی اسمبلی سردار ایازصادق کاکردار لائقِ تحسین۔ اُنہوں نے کہاکہ مذاکرات کے لیے اُن کاگھر اور دفتر، دونوں حاضرہیں۔ وہ پورے ہاؤس کے کسٹوڈین ہیں اور اُن کے لیے سبھی برابر ہیں۔ پھرکچھ یوں ہوا کہ 19دسمبر کوجیل میں بیٹھے بانی کاحکم صادر ہواکہ 22دسمبر تک اُس کے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں بصورتِ دیگر وہ سول نافرمانی کی تحریک کاآغاز کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کوپاکستان میں ریمیٹنس سے انکارکا کہہ دیں گے۔ حکومت کا توخیر بانی کا کوئی ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں کرے گی اِس لیے اب دیکھتے ہیں کہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی ہے یانہیں۔
اب ذرا ”خوگرِحمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے“ کے مصداق کچھ پنجاب حکومت کے بارے میں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز اَنتھک محنت کررہی ہیں اور اُن کی کامیابیوں کے آثاربھی ہویدا ہیں لیکن اُن کی پنجاب حکومت کے وزیروں، مشیروں اورارکانِ اسمبلی پرعنایتِ خسروانہ کی سمجھ نہیں آئی۔ اُن کی تنخواہوں میں کئی گُنااضافہ کردیا گیاہے۔ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ 78ہزار روپے سے بڑھاکر 4لاکھ روپے ماہانہ، سپیکرکی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے بڑھاکر 9لاکھ 50ہزار روپے ماہانہ، ڈپٹی سپیکرکی ایک لاکھ 20ہزار سے بڑھاکر 7لاکھ 75ہزار روپے ماہانہ، پارلیمانی سیکرٹری کی 83ہزار روپے سے 4لاکھ 51ہزار روپے ماہانہ، سپیشل اسسٹنٹ اور ایڈوائزر کی ایک لاکھ روپے سے بڑھاکر 6لاکھ 65ہزار روپے ماہانہ اور صوبائی وزراء کی تنخواہ 9لاکھ 60ہزار روپے کردی گئی ہے۔ تنخواہوں میں یہ سالانہ اضافہ ایک ارب 32کروڑ 29لاکھ روپے ہوگا۔ وزیرِاطلاعات پنجاب محترمہ عظمیٰ بخاری سے جب یہی سوال کیاگیا تواُنہوں نے فرمایا ”کیا ایک لاکھ 70ہزار روپے میں وزراء کاگزارہ ہوسکتا ہے؟“۔ بجاارشاد! مگروہ یہ بھی بتا دیتیں کہ وزراء کوڈرائیور، گاڑی، پٹرول، رہائش، یوٹیلٹی بلز، ٹی اے ڈی اے اور فری ریلوے اور ایئرٹکٹس کے علاوہ بھی کئی سہولیات میسرہوتیں تو بہتر ہوتا۔ ویسے عرض ہے کہ پیٹ ہرکسی کے ساتھ لگاہے۔ تَن کے کپڑے اور رہائش بھی ہرکسی کی ضرورت ہے۔ پھرحکومت کی مقررکردہ کم ازکم تنخواہ 37ہزار روپے میں کیسے گزارہ ہوسکتا ہے؟۔ اِدھر بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیاگیا اور اُدھر ٹیکس بڑھاکر وہی اضافہ واپس لے لیاگیا۔ حکومت اشرافیہ سے توٹیکس لینے سے گھبراتی ہے مگر ”برق گرتی ہے تو بیچارے تنخواہ داروں پر“ (اقبالؒ سے معذرت کے ساتھ)۔ اطلاعاََ عرض ہے کہ جن ارکانِ اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں یہ محیرالعقول اضافہ کیاگیا ہے وہ اتنے امیرہیں کہ ایک ایک رُکنِ اسمبلی کروڑوں روپے صرف کرکے منتخب ہوتاہے اِس لیے اُسے روزی روٹی کی مطلق فکر نہیں ہوتی، پھریہ اضافہ کیوں؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 898 Articles with 655343 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More