پکتیکا صوبہ، افغانستان میں حالیہ طور پر کی جانے والی
فضائی اور زمینی حملوں کی ایک سیریز نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو نشانہ
بنایا ہے، جو طویل عرصے سے اس خطے میں امن و سکون کے لیے چیلنج رہی ہیں۔ یہ
کارروائیاں انتہائی مہارت کے ساتھ کی گئیں اور دہشت گرد گروپوں کی آپریشنل
صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا، خاص طور پر ان گروپوں کو جو خوارج کے نظریات سے
جڑے ہوئے ہیں۔ فضائی اور زمینی فورسز کے امتزاج نے یہ کارروائیاں نہ صرف
انتہائی درستگی کے ساتھ انجام دیں بلکہ شہری اثاثوں کو بچانے پر بھی خاص
توجہ دی۔ ان حملوں کے نتائج افغانستان کی سرحدوں سے باہر بھی گہرے اثرات
مرتب کرتے ہیں، جو افغانستان اور پاکستان کے درمیان خطے کی سیکیورٹی کی
نوعیت کو متاثر کرتے ہیں۔
ہدف بنائے گئے مقامات اور اہم شخصیات
ان حملوں میں اہم ترین ہدف شیر زمان، عرف مختلس یار تھا، جو خودکش بمباروں
کی تربیت دینے والا ایک بدنام شخص تھا۔ اس کے کیمپ نہ صرف افغانستان بلکہ
پاکستان میں بھی دہشت گردی کی سرگرمیوں کا ایک اہم ذریعہ بنے ہوئے تھے۔ شیر
زمان کے کمپاؤنڈ کو نشانہ بنا کر اس کا صفایا کر دیا گیا، جو اس خطے میں
انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں کے لیے ایک مضبوط پیغام تھا۔ مقامی ذرائع
کے مطابق، شیر زمان کے کمپاؤنڈ میں 200 سے زائد دہشت گرد موجود تھے، اور اس
کامیاب حملے کے نتیجے میں کم از کم 50 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
دوسرا اہم ہدف کمانڈر ابو حمزہ تھا، جو افغان اور پاکستانی بچوں کو
انتہاپسندانہ نظریات میں مبتلا کرنے میں ملوث تھا۔ اس کے نیٹ ورک کو تباہ
کرتے ہوئے اس کیمپ کو نشانہ بنایا گیا، جس میں تقریباً 150 ریکروٹس تھے۔ اس
انفراسٹرکچر کے خاتمے سے دہشت گردوں کی بھرتی کے سلسلے کو سنگین نقصان
پہنچا ہے، جس سے خطے میں نوجوانوں کی انتہاپسندانہ تربیت پر شدید اثرات
مرتب ہوں گے۔
اختر محمد عرف خلیل کے کیمپ اور شوائب اقبال کے میڈیا سینٹر کو بھی تباہ
کیا گیا۔ یہ دونوں مراکز دہشت گرد گروپوں کی لاجسٹک اور نظریاتی سرگرمیوں
کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے تھے۔ ان مراکز کے تباہ ہونے سے دہشت گردوں کی
عملی صلاحیت کو شدید دھچکا پہنچا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف تربیتی کیمپ بلکہ
پروپیگنڈا پلیٹ فارمز بھی ختم ہو گئے ہیں۔
ان کارروائیوں کا ایک خاص پہلو ان کی درستگی تھی۔ فوجی حکام نے اس بات پر
زور دیا کہ ان حملوں کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور تربیتی مراکز تک محدود
رکھا گیا، جبکہ شہری عمارتوں جیسے مساجد اور مدرسوں کو بچایا گیا۔ کل 30 سے
زائد اہم دہشت گرد ٹھکانے تباہ کیے گئے، اور شہری نقصان کی شرح صرف 5 فیصد
سے کم رہی، جو جدید جنگی ٹیکنالوجی کی کامیابیت کو ظاہر کرتا ہے کہ کیسے
شہری نقصان کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ اس احتیاط سے شہریوں کی حفاظت کی
اہمیت کو اجاگر کیا گیا، جیسے ایک سینئر افسر نے کہا، "یہ حملے نہ صرف دشمن
کو تباہ کرنے کے لیے کیے گئے تھے بلکہ اس میں بے گناہ جانوں کی حفاظت کو
بھی یقینی بنایا گیا۔"
ان حملوں کے اثرات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہیں، بلکہ پاکستان اور پورے
جنوبی ایشیا کے سیکیورٹی ماحول پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ افغانستان
کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی حیثیت ایک طویل عرصے سے چیلنج رہی ہے۔
تاہم، حالیہ حملوں نے افغانستان کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے، نہ صرف دہشت
گردوں کی صلاحیتوں کو کمزور کرکے بلکہ دنیا کو یہ پیغام دے کر کہ افغانستان
اب دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے قابل ہے۔ اس کارروائی نے
پاکستان کو بھی یہ واضح پیغام دیا کہ "افغانستان اب صرف تماشائی نہیں ہے،
بلکہ اپنی سلامتی کے لیے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔"
یہ کارروائیاں افغانستان کے عالمی تعلقات پر بھی اثر ڈال سکتی ہیں۔ جیسے
افغانستان اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید بہتر انداز میں انجام دے رہا
ہے اور شہری نقصانات کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، اس سے اس کی
ساکھ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو عالمی سطح پر افغان حکومت کے لیے مزید حمایت
اور تعاون کا باعث بن سکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، ان کامیاب کارروائیوں کے
بعد افغانستان کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان، جو طویل عرصے سے اپنے اندر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے،
افغانستان کے سرحدی علاقے سے متحرک دہشت گرد گروپوں کے اثرات سے شدید متاثر
ہے۔ پکتیکا میں حالیہ کارروائیوں نے پاکستان کے لیے ایک موقع فراہم کیا ہے
کہ وہ ان گروپوں کو کمزور کرے جو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کی
سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ ابو حمزہ کے کیمپ کو تباہ کرنا پاکستان کے
لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ شخص پاکستانی نوجوانوں کو انتہاپسندانہ
سرگرمیوں میں ملوث کر رہا تھا۔ پاکستان کے وزارت داخلہ کے مطابق، ان حملوں
کے بعد سرحد پار دہشت گردوں کی دراندازی میں تقریباً 30 فیصد کمی واقع ہوئی
ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان بڑھتی ہوئی تعاون کی
اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ مشترکہ سرحد اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرات
کو دیکھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے اور فوجی تعاون کے
بڑھنے کے امکانات ہیں، جو اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ کے لیے
اہم ہے۔
وسیع ایشیائی تناظر
پکتیکا میں یہ کارروائیاں پورے ایشیا کی اسٹریٹجک نوعیت کو متاثر کرتی ہیں۔
افغانستان اور پاکستان دونوں جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی میں اہم کردار ادا
کرتے ہیں، اور یہ آپریشن اس بات کا مضبوط پیغام ہے کہ افغانستان اور
پاکستان عالمی جہادی نیٹ ورکس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے
ہیں۔
بھارت کے لیے، افغانستان میں یہ کامیاب کارروائیاں دہشت گردی کے خلاف ایک
مثبت قدم کے طور پر دیکھی جائیں گی، کیونکہ یہاں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں
بھارت کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہیں۔ چین، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو
(BRI) کے تحت اس خطے میں استحکام کی خواہش رکھتا ہے، اس کارروائی کو
افغانستان میں حکومتی انتظامیہ اور سیکیورٹی کی بہتری کا اشارہ سمجھے گا۔
امریکہ، جو طویل عرصے سے افغانستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملوث رہا
ہے، ان کارروائیوں کو افغان فوج کی صلاحیت اور طاقت کا مظاہرہ سمجھے گا،
حالانکہ امریکہ خطے میں اپنے براہ راست ملوث ہونے کو کم کرنے کی کوشش کر
رہا ہے۔ امریکہ افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے سفارتی اور فوجی مدد
فراہم کرتا رہے گا تاکہ جنوبی ایشیا میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
پکتیکا میں ہونے والی یہ کارروائیاں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی فتح
ہیں بلکہ خطے کی سیکیورٹی کے ماحول میں بھی ایک اہم تبدیلی کا آغاز کرتی
ہیں۔ اہم شخصیات کو نشانہ بناتے ہوئے اور دہشت گردوں کے انفراسٹرکچر کو
تباہ کر کے، افغانستان اور پاکستان نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ "ہم اب دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں محض تماشائی نہیں بلکہ فعال کھلاڑی ہیں۔" جیسے کہ ایک
قدیم کہاوت ہے، "میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے"، یہی اتحادی دہشت گردی کے
خلاف مشترکہ جنگ کو ایک نیا موڑ دے سکتے ہیں، جو خطے کے تمام ممالک کے لیے
ایک محفوظ اور مستحکم مستقبل کی راہ ہموار کرے گا۔
|