توپوں کی گرج سے بلند اور بٹالینز کی کمان سے ماورا، ایک
ایسا رینک ہے جو محض ایک عہدہ نہیں بلکہ ایک مقام ہے فیلڈ مارشل۔ یہ منصب
ان ہی کے لیے مختص ہے جو نہ صرف جنگوں کے رخ موڑتے ہیں بلکہ امن کے ایوانوں
کو بھی بصیرت بخشتے ہیں۔ پاکستان کی عسکری تاریخ میں صرف دو شخصیات اس
اعزاز تک پہنچی ہیں، جو صرف فوجی ستارے نہیں بلکہ حکمت، قربانی اور قومی
خودمختاری کی علامت ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں دو ایسے سپہ سالار گزرے ہیں جنہیں پانچ ستاروں سے
نوازا گیا. فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر۔ ان کے
درمیان عشروں کا فاصلہ ہے، مگر دونوں نے ایک ایسے وقت میں قیادت سنبھالی جب
ریاست ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی تھی۔ ایک نے نوآبادیاتی ورثے سے جنم لینے
والی غیر یقینی صورتحال میں کمان سنبھالی، جبکہ دوسرے نے دہشت گردی، ہائبرڈ
وار اور عالمی تقسیم کے دور میں حکمت عملی کی باگ ڈور سنبھالی۔
ایوب خان 1907 میں ضلع ہری پور کے ایک سادہ گاؤں ریحانہ میں پیدا ہوئے۔ وہ
برطانوی فوج کے افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے اور قیامِ پاکستان
کے بعد پہلے مقامی کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔ 1958 میں انہوں نے ملک میں
مارشل لا نافذ کیا اور اگلے ہی برس خود کو فیلڈ مارشل کے رینک پر فائز کیا۔
ان کا دور بظاہر "ترقی کا عشرہ" کہلایا، جس میں اقتصادی ترقی، بنیادی
ڈھانچے کے منصوبے جیسے منگلا اور تربیلا ڈیم، اور خارجہ پالیسی میں امریکہ
و چین کے ساتھ قربت شامل تھی۔
تاہم 1965 کی جنگ کے بعد صورت حال نے پلٹا کھایا۔ اگرچہ جنگ نے وقتی طور پر
قومی جذبات کو ابھارا، لیکن اس کے اسٹریٹیجک نتائج ملی جلی نوعیت کے تھے۔
ان کے خلاف عوامی بے چینی، طلبہ تحریکیں اور سیاسی دباؤ اس حد تک بڑھا کہ
انہیں 1969 میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ یوں یہ ثابت ہوا کہ محض ترقیاتی منصوبے
عوامی قبولیت کی ضمانت نہیں ہوتے۔
دوسری جانب، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت خاموش مگر گہری اثر انگیزی
کی حامل ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے آرمی چیف ہیں جنہوں نے آئی ایس
آئی اور ملٹری انٹیلیجنس دونوں کی سربراہی کی۔ ان کی اسٹریٹیجک گہرائی،
داخلی سکیورٹی کی اصلاحات، اور ہائبرڈ وار کے خلاف اقدامات نے انہیں ایک
منفرد مقام عطا کیا۔
انہیں فیلڈ مارشل کا رینک مئی 2025 میں اُس وقت دیا گیا جب انہوں نے بھارت
کے آپریشن "سندور" کے خلاف شاندار عسکری حکمت عملی سے "عملیات بنیان
المرصوص" کی قیادت کی۔ یہ اقدام نہ صرف عسکری لحاظ سے کامیاب رہا بلکہ
سفارتی طور پر بھی پاکستان کی سالمیت کو محفوظ رکھا گیا اور جنگ کو وسیع
پیمانے پر پھیلنے سے روکا گیا۔
عاصم منیر کی قیادت میں فوجی ادارے میں اندرونی اصلاحات، سول-ملٹری تعلقات
کی بہتری، اور عوامی اعتماد کی بحالی دیکھنے میں آئی۔ ان کے طرزِ قیادت میں
قرآن فہمی، ادارہ جاتی احتساب، اور بین الاقوامی سفارتی توازن کی جھلک
نمایاں رہی۔ ان کی قیادت کو 93 فیصد عوامی تائید حاصل ہوئی، جو ان کی
مقبولیت اور کارکردگی کا واضح ثبوت ہے۔
اگر ہم دونوں فیلڈ مارشلز کا موازنہ کریں تو ایوب خان نے براہ راست سیاسی
اقتدار کو اختیار کیا جبکہ عاصم منیر نے ادارہ جاتی مضبوطی اور خاموش
اثراندازی کو ترجیح دی۔ ایوب نے ترقیاتی وژن دیا مگر سیاسی تناؤ پیدا ہوا؛
عاصم منیر نے دفاعی حکمت عملی کو اعلیٰ سطح پر لے جا کر قومی تحفظ کو
مستحکم کیا۔ ایک نے فوجی اثر کو سول دائرہ کار تک وسعت دی؛ دوسرے نے فوج کے
اندر اعتماد، قابلیت اور وقار کو فروغ دیا۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں، مگر اس کی بازگشت ضرور سنائی دیتی ہے۔ ایوب
خان کا دور بلاشبہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ عاصم منیر کا دور
پاکستان کے لیے اسٹریٹیجک تبدیلی کا دور ہے۔ دونوں قیادت کی مختلف جہات کی
نمائندگی کرتے ہیں—ایک نے طاقت سے لکھا، دوسرا تدبر سے۔ مگر دونوں یہ پیغام
دیتے ہیں کہ قیادت محض عہدے کا نام نہیں، بلکہ اثر کا ہے—فوجی، قومی، اور
اخلاقی۔
"جنگ میں ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، امن میں بصیرت کی۔ عظیم جرنیل وہ ہوتے ہیں
جو دونوں اوصاف کے حامل ہوں۔"
|