پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں
متعدد اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملے ہیں۔ تاریخی طور پر دونوں ممالک کے مابین
تعلقات پیچیدہ رہے ہیں، خصوصاً 1971 کے بعد جب بنگلہ دیش نے اپنی آزادی
حاصل کی۔ اس کے بعد، مختلف سیاسی، ثقافتی، اور اقتصادی مسائل نے دونوں کی
جانب سے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں
تبدیلیاں آئی ہیں اور اس کے نتیجے میں تعلقات میں بہتری کے امکانات بڑھ گئے
ہیں۔
حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد، دونوں ممالک کے مابین خوشگوار
تعلقات کی بحالی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ حسینہ واجد کے دور حکومت میں
بعض اوقات تعلقات میں سرد مہری آ گئی تھی، خصوصاً 2014 کے بعد جب جماعت
اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دی گئی اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس پر
اعتراض کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد، ڈھاکہ نے اسلام آباد کے ساتھ تجارتی اور
ثقافتی تعلقات محدود کر دیے تھے۔ لیکن 2024 میں اس حکومت کے خاتمے اور نئے
سیاسی سیٹ اپ کی آمد کے ساتھ، ایک نیا موقع سامنے آیا ہے جس میں دونوں
ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کے امکانات ہیں۔
ڈاکٹر محمد یونس کے چیف ایڈوائزر کے طور پر تعینات ہونے کے بعد، دونوں
ممالک کے مابین روابط کو مزید مستحکم کرنے کی کوششیں تیز ہوئیں۔ وزیراعظم
شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی سامان بھیجنے کی پیشکش
کی۔ یہ اقدام نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تھا، بلکہ دونوں
ممالک کے مابین اعتماد اور تعاون کو بڑھانے کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ اس کے
بعد، پاکستانی ہائی کمشنر نے بنگلہ دیش کے حکام سے ملاقات کی اور امدادی
سامان کی تفصیلات فراہم کیں۔ دونوں ممالک نے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتہ
کی بنیاد پر تعلقات کو مزید وسیع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
اس کے ساتھ ساتھ، دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات میں بھی اضافہ ہو رہا
ہے۔ حالیہ برسوں میں ایک پاکستانی کارگو جہاز بنگلہ دیش کی بندرگاہ پر
پہنچا اور وہاں تجارتی سامان کا تبادلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک
نے اپنے تجارتی تعلقات میں مزید بہتری لانے کے لیے مختلف اقدامات کی منصوبہ
بندی کی ہے، جن میں ویزا پالیسی میں نرمی اور مال برداری کے راستوں کو
کھولنا شامل ہے۔
اگرچہ گزشتہ برسوں میں تعلقات میں تلخی رہی، مگر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے
کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، خصوصاً اقتصادی اور سٹریٹیجک
حوالے سے۔ دونوں ممالک کے درمیان جغرافیائی قربت، ثقافتی تعلقات اور تجارتی
روابط کو بہتر بنانے کے لیے کئی مواقع موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، عالمی سطح
پر دونوں ممالک کے مفادات میں ہم آہنگی نے ان کے تعلقات میں بہتری کے لیے
مزید راہیں کھول دی ہیں۔
1971 کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ماضی میں بنگلہ
دیش نے پاکستان سے کئی اہم مطالبات کیے، جن میں بہاریوں کی شہریت کے مسئلے
اور 1971 کے جنگی جرائم پر معافی کا مطالبہ شامل ہے۔ تاہم، حسینہ واجد کے
دور حکومت میں ان مطالبات کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا تھا۔ اب جب کہ اس
حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ نئے سیاسی سیٹ اپ میں ان
مطالبات کو ایک معقول اور متوازن انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ان سب حالات میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ
تعلقات میں سچائی، احترام اور برابری کی بنیاد پر بات چیت کی ضرورت ہے۔
1971 کے بعد کے واقعات کا حقیقت پسندانہ جائزہ دونوں ممالک کے تعلقات کو
بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں حکومتیں مخلصانہ طور پر
اس بات چیت کی طرف قدم بڑھائیں، تو یہ تعلقات میں مزید نرمی پیدا کرنے میں
مدد دے گا۔
تعلقات میں بہتری کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کو اقتصادی
لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔ جنوبی ایشیا میں دونوں ممالک
کی معیشتیں اہم ہیں اور ان کے مابین تجارتی تعلقات کا استحکام پورے خطے کے
لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنے اقتصادی نمو کے دوران جس
طرح ترقی کی ہے، پاکستان کے لیے بھی یہ ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ بنگلہ
دیش کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکے۔ اسی طرح پاکستان کی مارکیٹیں اور سرمایہ
کاری کے مواقع بنگلہ دیش کے لیے اہم ہو سکتے ہیں۔
دونوں ممالک کے مابین سیاحت اور ثقافت کے شعبے میں بھی تعاون کے امکانات
ہیں۔ دونوں ممالک کی تاریخ اور ثقافت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، اور اگر
دونوں ممالک اپنے ثقافتی تعلقات کو فروغ دیں، تو اس سے عوامی سطح پر روابط
مضبوط ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، تعلیمی اور تحقیقی شعبے میں تعاون بڑھا کر
دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔
اگرچہ 1971 کے واقعات کے حوالے سے اختلافات اب بھی موجود ہیں، مگر یہ ضروری
ہے کہ دونوں ممالک ان اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے مابین
ایک مضبوط اور پائیدار تعلق قائم ہو سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے
زخموں کو بھرنے میں وقت لگے گا، مگر اگر دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ
کھلے دل سے بات کریں، تو ان مسائل کا حل ممکن ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا دونوں ممالک کے مابین
تعلقات میں مزید بہتری آتی ہے یا پھر ماضی کے مسائل ان تعلقات کی راہ میں
رکاوٹ بنتے ہیں۔ تاہم، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ
تعلقات کو مستحکم کرنا جنوبی ایشیا کے امن، استحکام اور ترقی کے لیے
انتہائی اہم ہے۔
|