یحیی سنوار: ایک مثالی قائد اور بیباک سپہ سالار

یحییٰ ابراہیم السنوار ایک مثالی قائد اور بیباک سپہ سالار تھے۔ وہ اپنے وطن فلسطین، قدس اور مسجد اقصی کی آزادی کے لیے پریشان تھے۔ وہ ظالم کے سامنے ایک آہنی دیوار تھے۔ وہ دشمن کی طاقت کے سامنے کبھی سرنگوں نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنی طاقت کے بقدر دشمن کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا۔ وہ دشمن کے خلاف عصر حاضر میں مزاحمت کی علامت تھے۔ سنوار اپنے دشمن کو جواب دینے میں مہارت رکھتے تھے۔ دشمن نے انھیں مختلف طرح سے بزدل ثابت کرنے کی کوشش کی، مگر لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ وہ بزدل نہیں تھے۔ وہ جب اپنے لوگوں کو مزاحمت کی دعوت دیتے تھے، تو وہ خود مزاحمت کے لیے پہلی صف میں موجود ہوتے۔ وہ صف اول سے اپنے ماتحتوں کی قیادت کرتے تھے۔ وہ قابض افواج سے بیباکی سے لڑتے تھے۔ وہ ایک شیر کی طرح تھے۔ وہ قابض صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے۔ صہیونی ریاست ان سے خوفزدہ تھی۔ وہ ان کے مطلوب افراد میں سرفہرست تھے۔

جب حالیہ جنگ اپنے شباب پر تھی، اس وقت ان کو عرب ثالثوں کی جانب سے مصر جانے کی پیشکش ہوئی کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ غزہ سے سلامتی کے ساتھ مصر چلے جائیں۔ مگر انھوں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ انھوں نے غزہ کی پٹی میں، میدان جنگ میں رہنے کو ترجیح دی۔ انھوں نے قابض دشمن کے سامنے مزاحمت کرنے کو پسند کیا۔ انھیں اپنی جان سے کہیں زیادہ عزیز مسجد اقصی کی آزادی، قدس کی آزادی اور اپنے وطن فلسطین کی آزادی تھی۔ وہ ایک بہترین خطیب تھے۔ انھوں نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا: "اگر ہم موت سے ڈرتے ہیں، تو اپنے بستر پر مرنے سے ڈرتے ہیں، جیسے اونٹ مرتا ہے۔ ہم سڑک حادثے، فالج یا دل کے دورے سے مرنے سے ڈرتے ہیں؛ لیکن ہم اپنے دین، وطن اور مقدسات کی خاطر مرنے سے نہیں ڈرتے۔ ہمارا خون اور ہماری جانیں کسی معصوم چھوٹے شہید کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے جس کی جان جاچکی ہے۔" دنیا نے دیکھ لیا کہ انھوں نے اپنے دین، وطن اور مقدسات کی خاطر دلیری اور بہادری سے دشمن سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ انھوں نے جو اپنی زبان سے کہا، اس پر عمل کرکے دکھایا۔

سنوار مثالی قائد کی طرح سولہ اکتوبر 2024 کو جنوبی غزہ پٹی کے رفح شہر میں قابض اسرائیلی افواج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ ان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود بھی خود سپردگی نہیں کی، بلکہ دشمن سے لڑتے رہے۔ انھوں نے مقدسات اسلامیہ اور اپنے وطن کی خود مختاری کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ وہ دلیری سے قابض افواج کے سامنے آخر دم تک ڈٹے رہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کو فلسطین کی آزادی اور خود مختاری کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کے دشمنوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی کچھ بڑی طاقتوں نے ان کی شہادت پر جشن منایا۔ ان بڑی طاقتوں نے سمجھا ہوگا کہ اسماعیل ہنیہ اور یحیی سنوار کی شہادت کے بعد، اب حماس بے دست وپا ہے؛ چناں چہ انھوں نے مطالبہ کیا کہ حماس والے یرغمال بنائے گئے قیدیوں کو رہا کردیں۔ مگر کسی نے صہیونی ریاست کو بمباری روکنے اور جنگ ختم کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ حماس نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ حماس کے اراکین نے اس وقت یہ واضح کیا کہ جب تک قابض اسرائیل غزہ پر حملے بند نہیں کرتا اور اپنی افواج کو واپس نہیں بلاتا، اس وقت تک قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جائے گی۔

قابض صہیونی ریاست نے سنوار کے بارے میں دعوی کیا تھا کہ وہ سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے پریشان ہیں۔ وہ یرغمال بنائے گئے قیدیوں اور عام شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ان کے لشکر میدان جنگ میں لڑائی میں مصروف ہیں۔ مگر قابض افواج نے ان کی شہادت کے وقت کی جو ویڈیو جاری کی، اس نے صہیونی حکومت کے دعوے کا پردہ فاش کردیا اور اس ویڈیو نے ثابت کیا کہ سنوار بڑے بہادر اور دلیر انسان تھے۔ وہ کسی سرنگ میں نہیں چھپے تھے۔ انھوں نے عام شہریوں کو اپنی حفاظت کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ وہ ایک جری اور شجاع انسان کی طرح پوری تیاری کے ساتھ زمین کے اوپر تھے۔ وہ اے کے 47 سے مسلح ہوکر، اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہلی صف سے صہیونی افواج سے مقابلہ کر رہے تھے۔ اپنے لشکر کے درمیان، میدان جنگ میں ان کی موجودگی، ان کے عزم و حوصلے اور مثالی قیادت کو ظاہر کرتی۔ انھوں نے اپنی قوم کو ناامید نہیں کیا۔ انھوں نے جو کارنامے پیش کیے، ان پر آنے والی نسل فخر کرے گی۔ وہ اپنی شہادت کے ساتھ، پوری دنیا کو بتا گئے کہ قائد کیسا ہوتا اور قیادت کیسے کی جاتی ہے۔

امریکی اخبار کے مطابق سنوار کا کہنا تھا کہ اگر میں شہید ہوگیا؛ تو اسرائیل مختلف پیشکش کرے گا؛ لیکن حماس کو ہار نہیں ماننی چاہیے۔ حماس کے اراکین نے ان کی بات پر عمل کیا اور ہار نہیں مانے۔ القسام کے اراکین میدان جنگ میں ثابت قدم ہیں۔ در حقیقت یحیی سنوار نے القسام کے اراکین کو ایسی تربیت دی کہ وہ ان کی شہادت کے بعد بھی ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ انھوں نے صہیونی ریاست سے دب کر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ حماس کے مشن کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ وہ صہیونی قابض افواج کا مقابلہ کرتے رہے۔ اسرائیلی قابض افواج کے ساتھ جو اسرائیلی صحافی جڑے ہوئے ہیں، انھوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ حماس کے لڑاکے ان علاقوں میں واپس آجاتے ہیں، جن علاقوں سے قابض افواج یہ سمجھ کر نکلتی ہے کہ اب حماس کے لڑاکے سے وہ علاقہ صاف ہوچکا ہے۔ صہیونی حکومت نے جس طرح حماس کو ختم کرنے کا دعوی کیا تھا، وہ اس حوالے سے کامیاب نہیں ہوسکتی۔

یحیی سنوار کئی دنوں تک بھوکے رہے، لیکن وہ مزاحمت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ وہ میدان جنگ میں رہے۔ ان کی شہادت کے بعد، ان کی لاش کو قابض افواج اسرائیل لے گئی۔ اسرائیلی ڈاکٹروں نے ڈی این اے اور دیگر معلومات سے یہ تصدیق کی کہ وہ یحیی سنوار ہیں۔ ان کی مبینہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا کہ صیہونی فوج کا بہادری سے مقابلہ کرنے والے یحییٰ سنوار نے تین روز سے کوئی چیز نہیں کھائی تھی۔ وہ بھوکے پیاسے دشمن سے لڑتے رہے۔

سیاسی سرگرمیاں اور قید وبند:
شہید سنوار نے اپنے سیاسی زندگی کا آغاز، سن 1980 کے قریب الاخوان المسلمون کے رکن کے طور پر کی۔ انھوں نے صہیونی حکومت کے خلاف سن 1982 سے سن 1988 تک کئی عوامی مظاہرے کی قیادت کی۔ سن 1982 میں صہیونی ریاست نے ان کو گرفتار کیا۔ اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی۔ وہ چھ مہینے جیل میں رہے۔ پھر سن 1985 میں وہ گرفتار کیے گئے۔ پھر فروری 1988 میں صہیونی حکومت نے ان کو گرفتار کیا۔ اس وقت ان کو چار بار عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔سن 1988 سے سن 2011 تک، تقریبا 22 سال وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔ اس بائیس سالہ مدت میں تقریبا چار سال تک انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ مگر قید وبند نے ان کی ہمت اور حوصلے کو پست نہیں کیا۔ جیل میں بھی انھوں نے خاموشی اختیار نہیں کی، بلکہ صہیونی حکومت کے خلاف ڈٹے رہے۔ انھوں نے جیل میں رہتے ہوئے صہیونی مظالم کے خلاف کئی بار بھوک ہڑتال کی قیادت کی۔ انھوں نے جیل میں عبرانی زبان سیکھی اور پابندی سے اسرائیلی اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے۔ انھوں نے جیل میں ایک بار تفتیش کار سے کہا تھا: "تم جانتے ہو کہ ایک دن تم سے تفتیش کی جائے گی اور میں یہاں تفتیش کار اور حکمراں کے طور پر کھڑا رہوں گا۔"

حماس کے قیام کے فورا بعد، صہیونی ریاست نے حماس میں اپنے ایجنٹوں کو شامل کردیا۔ وہ ایجنٹ حماس کی سرگرمیوں اور منصوبوں کی خبر اسرائیلی خفیہ ایجنسی کو رپورٹ کرتے تھے۔ یحیی سنوار نے اس کا احساس کیا اور حماس کی اعلی قیادت کو اس کی اطلاع دی اور حماس میں ایک انٹیلیجنس یونٹ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اعلی قیادت نے سنوار کی تجویز سے اتفاق کیا اور اس یونٹ کے قیام کی ذمہ داری سنوار کو دی گئی۔ سنوار نے حماس کی داخلی سکیورٹی یونٹ"المجد" (منظمۃ الجہاد والدعوۃ) قائم کی۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ حماس کی کامیابی میں المجد نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

سنوار کی صہیونی جیل سے رہائی:
سن 2006 میں حماس کے اراکین نے رفح شہر کی سرحدی چوکی پرحملہ کیا۔ وہ ایک فوجی "جلعاد شالیط" کر گرفتار کرنے میں کامیاب رہے۔ مگر انھوں نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی، بلکہ وہ اس فوجی کی گرفتاری کے حوالے سے بالکل خاموش رہے۔ صہیونی ریاست نے اس کی بہت تلاش کی۔ جب تلاش کرنے میں ناکام ہوگئی،تو اسے مردہ قرار دے دیا۔ پھر اکتوبر 2009 میں حماس نے دعوی کیا کہ شالیط زندہ ہے اور وہ اس کے قبضے میں ہے۔ اسرائیلی حکومت نے مطالبہ کیا کہ اگر شالیط زندہ ہے اور حماس کے قبضے میں ہے؛ تو وہ ثبوت پیش کرے۔ پھر دونوں طرف سے مذاکرہ کے بعد، شالیط کی ایک مختصر سی ویڈیو بناکر، اسرائیل کے حوالے کی گئی۔ اس ویڈیو کے بدلے میں، اسرائیل کو انیس فلسطینی خواتین کو اسرائیلی جیل سے رہا کرنا پڑا۔ پھر اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہوا۔ حماس اور قابض ریاست کے درمیان، سن 2011 میں ایک معاہدہ طے ہوا۔ اس معاہدے کے تحت صہیونی ریاست نے شالیط کے بدلے میں، ایک ہزار چھبیس فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا۔ اس میں ایک یحیی سنوار بھی تھے۔

وہ سن 2012 میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن منتخب ہوئے۔ سن 2013 میں انھیں فوجی معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی۔سنوار ستمبر 2015 میں عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے گئے۔ انھیں فروری 2017 میں غزہ کی پٹی میں، حماس کے چیف کے طور پر منتخب کیا گیا۔ پھر شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد، اگست 2024 میں حماس کے سیاسی بیورو کے چیف منتخب ہوئے۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے، صہیونی افواج کے خلاف دلیری سے لڑتے ہوئے سولہ اکتوبر 2024 کو رفح کے علاقے تل السلطان میں شہید ہوئے۔

یحیی ابراہیم حسن السنوار ابو ابراہیم کے آباء واجداد مدینۃ المجدل، عسقلان کے رہنے والے تھے۔ جب سن 1948 ء میں صہیونیوں نے اپنے ظلم وستم کی انتہا کردی اور شہر کو قبضہ کرلیا؛ تو انھوں نے وہاں سے ہجرت کی اور خان یونس کے پناہ گزیں کیمپ میں پناہ لی۔ سنوار کی پیدائش 29/ اکتوبر 1962 کو اسی خان یونس کے پناہ گزیں کیمپ میں ہوئی۔ اس وقت غزہ شہر مصری انتظامیہ کے کنٹرول میں تھا۔ سنوار نے قرآن کریم حفظ کیا۔ پھر خان یونس سکنڈری اسکول سے ثانویہ کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد، وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ جب وہ اسلامی یونیورسٹی میں تھے؛ تو طلبہ کونسل کے صدر کے عہدہ پر بھی رہے۔ انھوں نے اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان وادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

شہید سنوار نہ صرف سیف وسنان؛ بلکہ قلم ولسان میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ جیل میں قید وبند کے دوران سات سال کی مدت میں، "اوپن یونیورسٹی آف اسرائیل" کے تقریبا پندرہ کورسیز میں داخلے لیے اور پڑھائی کی۔ ان میں سے اکثر کورسیز تاریخ سے متعلق تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کی۔ وہ جیل میں رہتے ہوئے، ایک ناول: "الشوک والقرنفل" تصنیف کی۔اس ناول میں انھوں نے فلسطینیوں کے درد کو بیان کیا ہے۔ اس ناول کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں: "یہ نہ میری ذاتی کہانی ہے اور نہ ہی کسی خاص شخص کی کہانی ہے، اس کے باوجود اس کے سارے واقعات حقیقی ہیں۔ ان میں سے ہر واقعہ یا واقعات کا مجموعہ اِس فلسطینی یا اُس فلسطینی سے متعلق ہے۔ اس تصنیف میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ایک ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔" آپ نے شاباک (اسرائیل کی داخلی سکیورٹی ایجنسی) کے چیف کی عبرانی خود نوشت سوانح عمری کا عربی زبان میں ترجمہ بھی کیا؛ تاکہ ان کے نظریات اور چال سے لوگوں کو واقف کراسکیں۔ سن 2011 میں، قید سے رہائی کے بعد، تقریبا 49 سال کی عمر میں انھوں نے شادی کی۔ اللہ نے ان کو دو بیٹے: ابراہیم اور عبد للہ اور ایک بیٹی سے نوازا۔ اللہ پاک شہید یحیی سنوار کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین! ∎∎∎∎

 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 180 Articles with 230465 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.