حماس اسرائیل جنگ بندی، غزہ کے عوام کو سلام

یاسر عرفات کی وفات کے بعد، ابو مازن محمود عباس فلسطین کے صدر بنے۔ عالمی سطح پر انھیں فلسطین کا صدر اور نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ سن 2005 سے فلسطین کے صدر ہیں۔ انھوں نے فلسطین کی آزادی، فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کی خودمختاری کے مسئلے کو عالمی سطح پر اس لب ولہجہ اور حکمت عملی کے ساتھ نہیں اٹھایا، جس کے وہ متقاضی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو اٹھانے کے لیے جو قوت ایمانی اور جذبۂ صادق چاہیے، وہ ان میں مفقود ہے۔ "آپریشن طوفان الاقصی" بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ اگر وہ آپریشن نہیں کیا جاتا؛ تو مسجد اقصی کی موجودہ پوزیشن میں بہت کچھ تبدیلی آگئی ہوتی، قضیہ فلسطین آج بہت ہی پیچیدہ ہوگیا ہوتا، انضمامی پروگرام بڑی سرعت سے بڑھتا اور لوگ فلسطین کو بھول گئے ہوتے۔ آپریشن طوفان الاقصی کے بعد، نہ صرف مشرق و مغرب اور شمال وجنوب کے بے شمار ممالک کے عوام کے درمیان فلسطین اہم موضوع بنا، بلکہ بہت سے ممالک کے سیاستدانوں نے بھی فلسطین کے حوالے سے گفتگو شروع کردی، بلکہ متعدد ممالک نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم بھی کیا۔ بہت سے یورپی، امریکی، ایشيائی اور افریقی ممالک میں عوام نے فلسطین کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے کیے؛ تاکہ فلسطینیوں کو ان کا جائز حق مل سکے۔

صہیونی ریاست نے اس جنگ میں غزہ کو ملبے میں تبدیل کردیا۔ غزہ کے عوام نے اپنے جان ومال کی قربانیاں پیش کی۔ جنگ دوران ان کو دو وقت کے کھانے بھی وقت پر نصیب نہیں ہوئے۔ ان کو پینے کا پانی بھی آسانی سے میسر نہیں تھا۔ وہ شمالی غزہ سے جنوبی غزہ اور جنوبی غزہ سے شمالی غزہ کا چکر کاٹتے رہے۔ اس طویل مدت میں انھیں ایک دن کے لیے بھی سکون میسر نہیں ہوا۔ وہ سب پریشان رہے۔ یہ دہشت گردانہ حملہ صرف چند گھنٹے اور چند دنوں کے لیے نہیں تھا، بلکہ یہ ساڑھے پندرہ مہینے تک جاری رہا، مگر غزہ کے عام لوگوں نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اپنے قائدین کی مخالفت نہیں کی۔ انھوں نے اپنے لیڈر کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ اس جنگ بندی کے موقع پر غزہ کے ان بہادر اور صابر عوام کو سلام۔ ان کے دلیر قائدین و مجاہدین کو سلام کہ انھوں نے مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے اور فلسطین کے وجود کے لیے اپنے جانوں کی قربانیاں پیش کی، مگر صہیونی قابض ریاست کے خطرناک ایجنڈے کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد، حماس کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ، ڈاکٹر خلیل الحیہ نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا: "اس تاریخی لمحے میں،جو ہمارے عوام کی جد وجہد اور مسلسل صبر کا نتیجہ ہے، جو دہائیوں سے جاری ہے اور جس کے بعد، ایک نیا دور شروع ہوگا، ہم غزہ کے عظیم عوام کو فخراور عظمت کے تمام الفاظ پیش کرتے ہیں۔" انھوں نے کہا: "اے اہل غزہ، اے عظمت کے حامل لوگو، اے شہداء، زخمیوں، اسیران اور مفقودین کے اہل خانہ، جنھوں نے وعدہ سچ ثابت کیا، صبر کیا اور وہ تکالیف برداشت کیں جن کا کسی نے بھی پہلے سامنا نہیں کیا اور آپ نے وہ سب کچھ جھیلا جو کسی اور نے نہ جھیلا۔آپ صبر کے ہر موقع پر ثابت قدم رہے، جہاد کے میدان میں لڑےاور اللہ کے حکم سے عظیم ترین عزت حاصل کی۔ خوشی ہے کہ آپ کے عزم، جد وجہد، صبر، قربانیوں اور آپ کی بے شمار خدمات کا صلہ ملے گا۔ ہم اس عظیم لمحے میں،عظیم شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جن میں بچے، خواتین، بزرگ، علماء، مجاہدین، ڈاکٹرز،صحافی، دفاعی اہل کار، حکومت اور پولیس کے ارکان اور قبائلی افراد شامل ہیں۔"

اس جنگ میں غزہ کے عوام کو شدید نقصان پہنچا۔ صہیونی ریاست کی طرف سے شہری علاقوں میں بمباری اور زمینی حملوں کی وجہہ سےغزہ کے تقریبا چھیالیس ہزار چھ سو افراد کی شہادت ہوئی ہے۔ برطانوی محققین کی قیادت میں کام کرنے والے گروپ نے اندازہ لگایا ہے کہ ان میں 59 فی صد کے قریب بچے، خواتین اور بزرگ ہیں۔ برطانیہ سے شائع ہونے والامشہور طبی جریدہ: "دی لینسیٹ" کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جنگ میں شہیدہونے والے لوگوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے، وہ تقریبا چالیس فی صد کم ہے۔ تقریبا ایک لاکھ دس ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ مادی نقصان بھی بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ غزہ میں انفراسٹرکچر، جیسے مکانات، مدارس، اسکول، اسپتال، مسجدیں،شفاخانے، چرچ سڑکیں وغیرہ تباہ اور مسمار کیے جاچکے ہیں۔ بجلی اور پانی کے فراہمی کے نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ غزہ کے عوام اپنے گھروں کو چھوڑ کر، پناہ گزیں بن چکے ہیں اور خیموں میں زندگی گذار رہے ہیں۔ معاشی طور پر بھی غزہ کے عام لوگوں کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ان کے کار وبار، شوپ، کارخانے، فیکٹریاں وغیرہ تباہ ہوچکے ہیں۔ اس جنگ میں صہیونی ریاست کے حملے میں 224 سے زیادہ انسانیت کی خدمت انجام دینے والے کارکنان کی بھی موت ہوئی جن میں"انروا" کے ملازمین بھی شامل ہیں۔

اس جنگ میں وہ صحافی جو غز ہ کی پٹی میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے،ان کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ہے۔ "رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز "ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو صحافیوں کے دفاع کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹرفرانس کے شہر پیرس میں ہے۔ اس تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل تھیباؤٹ برٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "غزہ میں ایک سال اور تین ماہ سے جاری کھلی جارحیت کے دوران قابض اسرائیلی فوج نے دو سو سے زائد فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا ، جن میں سے کم از کم اکتالیس اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہوئے۔"خیال رہے کہ غزہ میں سرکاری میڈیا آفس کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پٹی میں نسل کشی کے آغاز سے اب تک شہید صحافیوں کی تعداد دو سو پانچ تک پہنچ چکی ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ "اسرائیل اور حماس کے درمیان پندرہ جنوری کو طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت صحافیوں کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کی اجازت دی جانی چاہیے۔" انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ سرحدیں کھولی جائیں اور قابض اسرائیلی فوج کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے۔روٹن نے کہا ہے کہ "جنگ بندی کے معاہدے کے بعد، مقامی اور بین الاقوامی نامہ نگاروں کا کام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ لہذا بین الاقوامی صحافیوں کو محصور پٹی تک فوری اور آزادانہ رسائی کی اجازت ہونی چاہیے۔"

اس جنگ میں صہیونی ریاست اسرائیل کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل نے چار سو پانچ افواج کے قتل کا اعتراف کیا ہے؛ جب کہ مبینہ طور حماس اور حزب اللہ کے راکٹ حملے میں، ان کے تقریبا چودہ سو شہری اور دو ہزار کے قریب فوجی اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔ حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کے راکٹوں سے اسرائیل کے کئی علاقوں میں انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچاہے۔ اسرائیل کی کچھ عمارتیں، سڑکیں اور کچھ بنیادی سہولتیں متاثر ہوئی ہیں۔ اس جنگ کی وجہہ سے اسرائیل میں کاروبار، سیاحت اور دیگر شعبے بڑی مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اسرائیلی معیشت بہت حد تک متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیل کی سکیورٹی صورت حال پیچیدہ ہوگئی ہے۔ حماس اور حزب اللہ کے حملوں کی وجہہ سے اسرائیل کے سرحدی علاقوں کے لوگ پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ وہ خوفزدہ ہیں۔ مبینہ طور پر بہت سے ممالک کے عوام اسرائیل کو ایک دہشت گرد اور نسل کشی کا مرتکب شمار کر رہے ہیں۔

حماس اور صہیونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کے معاہدہ پر اتفاق 15 / جنوری 2025 کو ہوا۔ اس جنگ بندی کے معاہدہ میں، قطر، امریکہ اور مصر نے ثالثی کا کردارادا کیا۔قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبد الرحمن بن جاسم الثانی نے اس معاہدہ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں فریقوں نے یرغمالوں اور قیدیوں کے تبادلے اور دیرپا امن کی بحالی کا معاہدہ کیا ہے،جس کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی ہوگی۔ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے 17/ جنوری کے اجلاس کے دوران ، قطری وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کیے گئے غزہ جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دی اور 18/جنوری کو اسرائیلی کابینہ نے اسے منظور کرلیا۔ کابینہ کے آٹھ ممبران نے اس معاہدہ کے خلاف ووٹ دیا، جن میں سر فہرست داخلی سلامتی کے وزیر،اتمار بین گویر اور سموٹریچ تھے۔ یہ معاہدہ بروز: اتورا، 19 / جنوری 2025 کو صبح ساڑھے آٹھ بجے سے نافذ ہوگا۔

اس معاہدے کے مطابق، پہلا مرحلہ چھ ہفتےیعنی بیالیس دنوں کا ہوگا، جس میں حماس 33 یرغمالوں کو رہا کرے گی جن میں خواتین، بچے اور بزرگ ہوں گے۔ صہیونی ریاست ہر ایک خاتون یرغمال فوجی کے بدلے پچاس اور باقی ہر ایک یرغمال قیدی کے بدلے تیس فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ صہیونی ریاست مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ قابض افواج غزہ سے واپس جائے گی اور غزہ کے لوگ اپنے گھر کو لوٹیں گے۔ اسرائیل یومیہ چھ سو امدادی سامان والے ٹرکوں کو غزہ پٹی میں داخلے کی اجازت دے گا۔ دوسرے مرحلے میں، صہیونی ریاست سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گی اور حماس اس کے بدلے میں، باقی یرغمال قیدیوں کو رہا کرے گی۔ تیسرے مرحلے میں، غزہ کی تعمیر نو کی بات ہوگی اور یرغمال اسرائیلی جو قید کے دوران فلسطین میں ہلاک ہوئے ہیں، ان کی باقیات واپس کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں یرغمال قیدیوں کی رہائی کی تفصیلی بات پہلے مرحلے کے سولہویں دن شروع ہوگی۔ اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں قیدیوں کی واپسی کے حوالے سے مذاکرات شروع کرنے میں 16 دن کا انتظار نہ کیا جائے، بلکہ حکومت فورا بات چیت شروع کرے۔

اب ایک نظر صہیونی ریاست کے کچھ پرانے دعوے پر ڈالتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے دعوی کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کرکے ہی جنگ بند کرے گی، مگر آج وہ اسی حماس سے معاہدہ کر رہی ہے اور حماس اپنے کچھ بڑے قائدین کی شہادت کے باوجود میدان میں موجود ہے۔ مزید اس نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ اپنے یرغمال لوگوں کو حماس کے قید سے آزاد کرانے تک جنگ جاری رکھے گی، مگر اس حوالے سے بھی وہ ناکام رہی کہ وہ اپنے یرغمال بنائے گئے قیدیوں میں سے دو چار کے سوا کسی کو آزاد نہیں کراسکی۔ صہیونی ریاست قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی۔

اسرائیلی انٹیلیجنس کی ہر طرف تعریف ہوتی تھی۔ حماس کے آپریش طوفان الاقصی کے بعد، لوگوں کو یہ سمجھ میں آگیا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس سے بھی زیادہ طاقتور کچھ لوگ ہیں، جو اپنی کاروائی اسرائیل کے خلاف انجام دیں گے اور اسرائیل کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اس حملے نے صہیونی ریاست کو نفسیاتی اور مادی طور پر بہت کمزور کیا ہے۔ ٹرمپ کے صدی کی ڈیل کے بعد، صہیونی ریاست نے انضمامی کاروائی بہت تیزی سے شروع کی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ صہیونی آباد کار سرحدی علاقے میں رہنے سے گھبرا رہے ہیں۔ وہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ایک اسرائیلی اخبار "اسرائیل ہیوم" کے مطابق: اسرائیلی حکومت لبنانی سرحد کے قریب واقع شہر سے اپنے لوگوں کو نکال کر، محفوظ مقامات پر منتقل کرنے پر مجبور ہوئی۔ صہیونی ریاست نے سرحد کے قریب شمالی شہر کریات شمونا سے اپنے شہریوں کو نکال کر، سرکاری خرچ پر چلنے والے کیمپوں میں منتقل کیا ہے۔

انسان کوشش کرتا ہے۔ انسان منصوبے بناتا ہے۔ مگر کوئی ضروری نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے منصوبے کے مطابق کامیاب ہوجائے۔ جنگ کے بارے میں مسلمہ اصول ہے: "ایک دن آپ کے مفاد میں اور ایک دن آپ کے خلاف"۔ کبھی جنگ میں آپ کی جیت ہوگی اور کبھی آپ کے دشمن کی جیت ہوگی ہے۔ اس سے آدمی کو گھبرنا نہیں چاہیے۔ وہ بھی ایک وقت تھا کہ حماس کے بہادرلوگوں نے ایک شالیط کے بدلے میں، ایک ہزار پینتالیس مظلوم فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل کی جیل سے آزاد کروایا تھا۔ ••••

 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 180 Articles with 230460 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.