امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دن (20 جنوری)
کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیا.
لیکن پاکستانی تجزیہ نگار کو کوئی تجزیہ کرنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے
دورِ صدارت میں پاکستان کے لیے کہے گئے ان الفاظ پر نگاہ ڈالنا بے حد ضروری
ہے جو انھوں نے یکم جنوری 2018 کو ادا کیے تھے۔
جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’امریکہ نے گذشتہ 15 برسوں میں انتہائی
بیوقوفانہ طور پر پاکستان کو امداد کی مد میں 33 ارب ڈالر دیے اور انھوں
(پاکستان) نے بدلے میں ہمارے رہنماؤں کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں
دیا۔ جن دہشتگردوں کا ہم افغانستان میں شکار کر رہے ہیں یہ (پاکستان) انھیں
محفوظ پناہ گاہیں دیتے ہیں۔
یہ الفاظ 2018 کے آغاز پر اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے
حوالے سے سوشل میڈیا پر لکھے گئے الفاظ ہیں جنھیں دیکھ کر شاید اُس وقت
لوگوں کو لگا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی تلخ ہیں اور انھیں
دوبارہ اپنی نہج پر آنے میں شاید طویل مدت درکار ہو۔
مگر غیر متوقع طور پر ایسا ہوا نہیں اور اگلے ہی برس یعنی سنہ 2019 میں وہ
پاکستان کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے
گوش گپیوں میں مصروف نظر آئے اور انھیں اپنا ’اچھا دوست‘ قرار دیا تھا۔
جبکہ 20 جنوری 2025 کو دوسری مرتبہ امریکی صدر کے عہدے کا حلف اُٹھانے والے
ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق یہ حقیقت تسلیم کرنا بھی
ضروری ہے کہ صدر جو بائیڈن کے دورِ اقتدار میں بھی پاکستان اور امریکہ کے
درمیان کوئی غیرمعمولی تعلقات نہیں رہے ہیں۔
اس کا سیدھا سا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے چار برس کے دورِ
صدارت میں جو بائیڈن نے کسی بھی پاکستانی رہنما سے ٹیلی فونک گفتگو تک نہیں
کی اور نہ ہی کسی اُن کے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے اس پوری مدت میں
پاکستان کا رُخ کیا۔
صدر بائیڈن کے ہی دورِ صدارت میں ایک بار پھر پاکستان کا لانگ رینج بیلسٹک
میزائل سسٹم پابندیوں کی زد میں آیا جس پر اسلام آباد کی جانب سے احتجاج
بھی کیا گیا اور مذمتی بیانات بھی جاری کیے گئے۔ اور اسی دوران امریکہ میں
صدارتی انتخاب کی مہم شروع ہو گئی اور دونوں صدارتی امیدواروں یعنی کملا
ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہمات کے دوران تقریباً ہر موضوع پر بات کی
لیکن پاکستان کے حوالے سے پالیسی دونوں ہی امیدواروں کی تقاریر اور مباحثوں
میں کہیں جگہ حاصل نہ کر پائی۔
اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت
میں بھی شاید پاکستان کے حوالے سے وہی پالیسی دیکھنے میں آئے جو اس سے قبل
جو بائیڈن کی انتظامیہ پاکستان کے لیے تھی۔
اس وقت زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی
ترجیحات میں شامل نہیں ہو گا۔‘ اس کی بڑی وجہ جو نظر آتی ہے ہے کہ
افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد امریکی انتظامیہ کی
ناصرف پاکستان بلکہ اس خطے میں ہی دلچسپی کم ہوتی نظر آرہی ہے۔
جب سے افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد واشنگٹن کی نگاہ میں پاکستان کی
اہمیت کم ہوئی ہے اور گذشتہ چار برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح
پر کوئی روابط میں اتنی گرمجوشی بھی دیکھنے میں نہیں رہی ۔ دیکھا جائے تو
امریکہ کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات افغانستان میں جنگ کے اختتام اور
وہاں طالبان کی آمد کے بعد اب ترجیحات میں شامل نہیں، اور یہی پالیسی آنے
والی ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بھی جاری و ساری رہے سکتی ہے.
حالانکہ الیکشن کے بعد سے ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی اور ترجیحات کے بارے میں
کُھل کر دنیا کی بات کرتے نظر آئے ہیں لیکن اس دوران انھوں نے کہیں بھی
پاکستان کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے
ساتھ تعلقات امریکہ کے لیے اب وہ ترجیح میں شامل نہیں ہیں۔
تاہم افغانستان سے فوج کے انخلا کے بعد امریکہ کی افغانستان اور پاکستان
میں دلچسپی واقعی کم ضرور ہوئی ہے لیکن ان خطے میں ایسے بہت سے ممالک ہیں
جنھیں نئی امریکی انتظامیہ ہرگز فراموش نہیں کر سکتی۔
مثلاَُُ پاکستان کے پڑوس میں موجود انڈیا اس خطے میں امریکہ کا قریب ترین
اتحادی ہے اور پاکستان کے دوسرے بڑے پڑوسی ملک چین کو نئی امریکہ انتظامیہ
میں شامل متعدد شخصیات ایک حلیف سمجھتی ہیں۔
جو اس وقت زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات
محدود ہونے کا ایک سبب واشنگٹن اور انڈیا کے درمیان بڑھتے ہوئے سٹریٹجک اور
اقتصادی تعلقات بھی ہیں۔ ’امریکہ نے انڈیا کا انتخاب (اس خطے میں) چین کے
مقابل کے طور پر کیا ہے۔
جبکہ پاکستان چین کو اپنا قریب ترین اتحادی سمجھتا ہے اور ملک میں سی پیک
(چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور) کے تحت اربوں ڈالر کے چینی منصوبے اس شراکت
داری کا منہہ بولتا ثبوت ہے۔
پاکستان کے چین سے قریبی تعلقات اور پاکستان پر چین کے انحصار کے سبب نئی
امریکی انتظامیہ میں کچھ نئے چہرے چین مخالف شخصیات پاکستان کو شک کی نگاہ
سے ہی دیکھیں گی۔ اور ہوسکتا یہ بھی ممکن ہو کہ امریکہ اور چین کے درمیان
مقابلے کی بنیاد پر نئی امریکی حکومت پاکستان کے حوالے سے سخت مؤقف اپنائے
کیونکہ یہ بات تو نظر آرہی ہے کہ پاکستان امریکہ کے لیے کوئی ایسا اقدام تو
نہیں اٹھائے گا جس سے اس کے چین کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہو اور اس سب
کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر فرق پڑے.
اس وقت امریکہ کے لیے سٹریٹجک ترجیح چین پر قابو پانا ہے اور کیونکہ
پاکستان کسی بھی چین مخالف اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتا اسی سبب پاکستان اور
امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
گزشتہ ادوار میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا انحصار افغانستان کے
حالات اور خطے میں انسدادِ دہشتگردی کی کارروائیوں پر ہمیشہ غالب رہا ہے.
لیکن اب ایسا کچھ بنتا نظر نہیں آرہا ہےکیونکہ اب ان دونوں ہی معاملات میں
امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت نہیں۔
لیکن پھر بھی ان تعلقات میں تبدیلی اس وقت ضرور ممکن ہے اگر پاکستان یا
افغانستان میں دہشتگردی کے خطرات سے متعلق صورتحال اور امریکی پالیسی میں
تبدیلی آ جائے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایسے ہی معمولی نوعیت
کے ہی رہیں گے جب تک اسلام آباد کچھ ایسے معاملات کا اشارہ نہ دے جس میں
واشنگٹن کو اس کی مدد کی ضرورت ہو۔
اگرچہ پیچھلے ادوار میں جایا جائے تو پاکستانی سیاست میں امریکا کے وقتاً
فوقتاً ملوث ہونے کئی مثالیں ملینگی. اس وقت پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر
نامے کے پیش نظر یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ کیا سابق وزیر اعظم عمران خان کی
قید اور سزا میں کمی یا رہائی کے لیے صدر ٹرمپ کوئی کردار نبھاہ سکتے ہیں
کیونکہ تحریک انصاف کی جانب سے اس امید کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ صدر
ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے یقینی طور پر پاکستان پر اثرورسوخ ڈالیں
گے۔
جبکہ کچھ مبصرین تحریک انصاف کے اس خیال کو محض اُن (تحریک انصاف) کا
’گمان‘ قرار دیا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ صدر ٹرمپ اور عمران
خان دونوں ہی پاپولسٹ لیڈر ہیں اور اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس اُن کے لیے
ہمدردی دیکھائے جائیگی ۔ دوسرا تحریک انصاف کا خیال ہے کہ انھوں نے بڑی
مضبوط لابنگ کی ہے اس لیے اُن کی لابنگ کا اثر پڑے گا۔ تحریک انصاف کا
تیسرا گمان یہ ہے کہ امریکہ پاکستان پرعمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال
سکتا ہے اور چوتھا یہ کہ عمران خان کے لیے صدر ٹرمپ کے دل میں ہمدردی موجود
ہے۔
ان گمانوں کی بنیاد پر ہی وہ کوشش تو کر رہے ہیں لیکن ابھی اب تک ایسا کوئی
اشارہ نہیں نظر آیا کہ جس سے لگے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس معاملے میں
کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے ۔ ہاں اگر کوئی بیان وغیرہ آجائے
تو اس پر کوئی شق نہیں جیسا کہ سابق وزیراعظم بھٹو کی پھانسی کے وقت
آنجہانی صدر جمی کارٹر کا آیا تھا۔
بعض گمان تاریخ میں غلط ثابت ہوئے ہیں. سابق وزیراعظم بھٹو کو پھانسی دینے
کے وقت امریکہ اس عمل کی مخالفت کرنے والے ممالک میں سرفہرست تھا تاہم جنرل
ضیا کے فیصلے میں تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف
جب قید میں تھے تو اس موقع پر صدر بل کلنٹن نے جنرل مشرف کو نواز شریف کی
رہائی کا کہا تو ان کو اُس وقت رہائی نہ ملی البتہ سعودی عرب کی مداخلت اور
یقین دہانی پر نواز شریف کو سعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی پاکستان پر کوئی پریشر ڈالنا چاہیں تو وہ درحقیقت کیا
کرسکتے ہیں؟
جب جمی کارٹر نے بھٹو کی پھانسی کی مخالفت کی تو اس وقت امریکہ کا کوئی
ایسا دباؤ مثلا کوئی امدادی پیکیج نہیں تھا جس کو وہ منسوخ کر سکتے، کوئی
ایسی پابندیاں نہیں تھیں جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھیں.
جبکہ 2007 میں بے نظیر کی پاکستان واپسی کے وقت امریکا کو پاکستان پر یہ
برتری حاصل تھی کہ پاکستان کو ڈیڑھ، دو ارب ڈالر سالانہ کی امداد دی جاتی
تھی جو اس وقت پاکستان کی معیشت اور مشرف حکومت کے برقرار رکھنے کے لیے
ضرورت تھی، اس لیے ایسا ممکن ہوا تاہم اِس وقت امریکہ کا پاکستان پر کوئی
دباؤ نہیں۔
اس وقت زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ یہ کہیں کہ میں آئی ایم
ایف میں امریکہ کا ووٹ پاکستان کے خلاف لیکر آؤنگا۔ حالانکہ ایسا کبھی
تاریخ میں ہوا نہیں مگر پھر بھی اگر عمران خان سے صدر ٹرمپ واقعی دوستی کا
حق ادا کرنے کی ٹھان لی تو ممکن ہے وہ ایسی بات کر دیں۔ یا وہ نواز شریف
والے معاملے میں بل کلنٹن والی بات خلیج کے سربراہوں سے دباؤ پڑوایں اس وقت
یہی نظر آتا ہے کہ کہ خلیج کے ملک ہی اس میں کوئی کردار اپنائیں بلواسطہ یا
بالا واسطہ. |