اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ "آپ
دنیا میں ایک اجنبی یا راہ رو کی طرح رہیں اور خودکو قبر والوں میں شمار
کریں۔" (سنن الترمذی: 2333) استاذ محترم علامہ قمر الدین صاحب رحمہ اللہ
انتقال فرماگئے۔ لگتا ہے کہ ہر وقت یہ حدیث آپ کی نظروں کے سامنے رہتی تھی۔
ان کو دوسروں کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ وہ دوسروں کے معاملات
میں دخل اندازی سے بچتے تھے۔ آپ بے موقع گفتگو سے اجتناب کرتے تھے۔ اللہ نے
آپ کو متقی وپرہیز گار بنایا تھا۔ اللہ نے آپ میں صالحیت اور نیکی رکھی تھی۔
آپ نے صبر و شکر کے ساتھ زندگی گذاری۔ انھوں نے ہمیشہ اخلاقی اقدار اور
اصولوں پر عمل کیا۔ آپ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ان کا کام
اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہوتاتھا۔ آپ کو دنیوی شہرت اور دولت سے
کوئی محبت نہیں تھی۔ آپ کی زندگی قرآن وسنت کے مطابق تھی۔ آپ نے سیدھی
سادھی زندگی بسر کی۔ آپ عوام وخواص کے لیے ایک نمونہ تھے۔
علامہ قمر الدین رحمہ اللہ نے دار العلوم جیسے عظیم علمی ادارے میں، تقریبا
58 سال تک تدریسی خدمات انجام دی؛ جب کہ آپ کی تدریس کا مکمل دورانیہ
تقریبا 66 سال پر محیط ہے۔ علامہ کی پوری زندگی تعلیم وتدریس اور علم دین
کی اشاعت کے لیے وقف رہی۔ انھوں نے ایک لمبی مدت تک قرآن کی تفسیر اور دین
اسلام کے دوسرے اہم ترین ماخد: حدیث شریف کا درس دیا۔ آپ کا تعلق صرف تعلیم
وتعلم اور وعظ ونصیحت سے تھا۔ آپ نے دوران درس اپنے شاگردوں کو صحیح طور پر
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات منتقل کرنے کا کام کیا۔ آپ کی آواز
اور بولنے کا انداز بالکل صاف تھا۔ آپ بڑے عمدہ اسلوب میں کسی بھی مضمون کی
تشریح کرتے تھے۔ آپ ضرورت کے مطابق کلام کرتے تھے۔ آپ جو کچھ پڑھاتے تھے،
طلبہ اسے آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔ آپ نے اپنے طلبہ کو اپنی زندگی میں
سچائی، اخلاقی اصول، اسلامی زندگی کو برتنے رہنمائی کرتے تھے۔ جب کوئی طالب
علم کوئی سوال کرتا، تو آپ صبر وتحمل سے سنتے اور اس کا جواب دیتے۔ دوران
درس طلبہ کو اکابر واسلاف کی تحقیق اور ان کے سبق آموز قصے بھی سناتے تھے۔
علامہ کسی طالب علم سے تلخ کلامی سے پیش آتے نہیں ۔ وہ طلبہ کے ساتھ محبت
اور ہمدردی سے پیش آتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ عفو و درگذر کو اپناشعار بنایا۔
وہ جب طلبہ کو مسجد میں دعا کے وقت اٹھتے دیکھتے، یا بغیر سنت کی ادائیگی
کے طلبہ کو مسجد سے جاتے دیکھتے؛ تو بر وقت طلبہ کو ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتے۔
ان کو سنت کی اہمیت بتاتے۔ آپ کی کوئی صلبی اولاد نہیں تھی، مگر آپ کے
شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان کا پڑھنا پڑھانا اور دینی خدمات انجام
دیناآپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ تفسیر و حدیث کی تدریس کی برکت سے، اللہ نے
آپ کو بڑی عزت وتوقیر سے نوازا تھا۔ طلبہ آپ سے بڑی محبت کرتے تھے۔
علامہ قمر الدین رحمہ اللہ کی پیدائش دو فروی 1938 کو قصبہ: بڑہل گنج، ضلع:
گورکھپور، یوپی میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد جاجی بشیر الدین سے جانے جاتے
تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت مولانا صفی اللہ صاحب قاسمی –رحمہ اللہ– سے
حاصل کی۔ انھوں نے عربی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ احیاء العلوم، مبارکپورمیں،
ایک سال قیام کرکےحاصل کی۔ اس کے بعد، دار العلوم، مئو میں تعلیم حاصل کی۔
اس ادارے میں آپ نے ملا حسن، متنبی، مختصر المعانی، ہدایہ اولین وغیرہ تک
کی تعلیم حاصل کی۔ پھر انھوں نے سن 1954 ء میں دار العلوم، دیوبند میں
داخلہ لیا۔ سن 1957 ء میں وہ دار العلوم، دیوبند سے فارغ ہوئے۔ فراغت کے
بعد، وہ مزید ایک سال دار العلوم دیوبند میں رہے اور فنون کی تکمیل کی۔
انھوں نے دار العلوم دیوبند میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی،
علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادی، مولانا بشیر
خان صاحب بلندشہری، مولانا فخر الحسن صاحب مرادآبادی، مولانا عبد الاحد
صاحب دیوبندی، مولانا سید حسن صاحب دیوبندی، مولانا ظہور احمد صاحب دیوبندی
اور مولانا جلیل احمد کیرانوی (رحمہم اللہ) جیسے عظیم اسلامی اسکالرز سے
حدیث کی کتابیں پڑھی۔ دار العلوم میں طالبعلمی کے زمانے میں آپ علامہ
بلیاوی کے خادم خاص تھے، جس نے آپ کی علمی صلاحیت مزید نکھارا۔
علامہ قمر الدین علیہ الرحمہ اپنے اساتذہ میں علامہ محمد ابرہیم بلیاوی
رحمہ اللہ سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ درس کے دوران بڑے ادب واحترام سے آپ ان
کا ذکر کرتے تھے۔ علامہ بلیاوی کے مشورے سے، تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کے بعد،
انھوں مدرسہ عبد الرب، دہلی سے تدریسی سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس مدرسہ
میں مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ نے
مدرسہ عبد الرب میں صحیح البخاری بھی پڑھائی۔ تدریس کے ساتھ ساتھ ایک مسجد
میں آپ قرآن کریم کی تفسیر بھی بیان کرتے تھے۔ تقریبا آٹھ سال تک آپ اس
مدرسہ میں تدریسی خدمات میں مشغول رہے۔ پھر سن 1966 ء میں، دار العلوم
دیوبند میں آپ کی تقرری ہوئی۔ بہت ہی جلد آپ علیا کے استاذ بن گئے۔ آپ کئی
سالوں تک ناظم دار الاقامہ رہے۔ پھر سن 1994 میں آپ ناظم تعلیمات بنائے
گئے۔ ہم نے دار العلوم دیوبند، سن 2003 میں، آپ سے حدیث کی دو کتابیں: صحیح
مسلم اور سنن النسائی پڑھی۔ آپ نے اول الذکر کتاب حضرت علامہ بلیاوی سے؛ جب
کہ آخر الذکر کتاب حضرت مولانا بشیر احمد خان بلندشہری سے پڑھی تھی۔ جس وقت
ہم دار العلوم میں پڑھتے تھے،اس وقت علامہ کے زیر درس صحیح مسلم، سنن
النسائی اور تفسیر بیضاوی جیسی اہم کتابیں تھیں۔ آپ وفات سے قبل تفسیر ابن
کثیر اور صحیح البخاری جلد ثانی پڑھا رہے تھے۔ حضرت الاستاذ مولانا عبد
الحق صاحب اعظمی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد، بخاری جلد ثانی کی تدریس کی ذمہ
داری آپ کو سونپی گئی، جو آپ صلاحیت وقابلیت اور علمی رسوخ پر منتظمین کے
اعتماد کی دلیل ہے۔
علامہ نے پہلے اپنا اصلاحی تعلق حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمہ اللہ
سے قائم کیا۔ ان کی وفات کے بعد، انھوں نے اپنا اصلاحی تعلق حضرت مولانا
محمد ابرار الحق ہردوئی رحمہ اللہ سے قائم کیا۔ حضرت ہردوئی آپ کا بہت
احترام کرتے تھے۔ انھوں نے آپ کو خلافت سے نوازا۔ آپ کی علمی اور اصلاحی
مجلس عام طور پر عصر کی نماز کے بعد، مسجد طیب میں ہوتی تھی۔ آپ کی مجلس
میں طلبہ شریک ہوکر استفادہ کرتے تھے۔ آپ میں دعوت واصلاح کا بڑا جذبہ تھا۔
آپ امت کی رہنمائی اور وعظ ونصیحت کے لیے ملک وبیرون ملک کا سفر بھی کرتے
تھے۔ کئی سالوں تک، آپ نے رمضان کے اخیر عشرے میں، آمبور کی مسجد ہاشم میں
وعظ ونصیحت اور اعتکاف کیا۔ وہ اپنے خطبات وبیانات میں عام طور پر تعمیل
سنت، تزکیہ نفس، اخلاق حسنہ وغیرہ کی رہنمائی کرتے۔ آپ کے ان وعظ و خطبات
کا مجموعہ کئی جلدوں میں "جواہرات قمر" کے نام سے چھپ چکا ہے جو آنے والی
نسل کے لیے ایک قابل قدر سرمایہ ہے۔
اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی نے
سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں میں سب سے بہتر کون
ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس کی عمر لمبی ہو اور
اس کے اعمال اچھے ہوں۔" (سنن الترمذی: 2329) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی
آدمی کو اللہ نے لمبی عمر سے نوازا ہو اور وہ شخص اپنی زندگی کو اعمال
صالحہ میں بسر کرتا ہو، تو وہ بہترین لوگوں میں ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت
الاستاذ کو لمبی عمر دی۔ آپ بوقت وفات تقریبا 86 سال کے تھے۔ آپ کی پوری
زندگی قرآن وحدیث پڑھنے پڑھانے اور وعظ ونصیحت میں بسر ہوئی، الحمد للہ۔
کچھ عرصے سے آپ کی صحت خراب تھی۔ مگر درس وتدریس سے آپ منسلک رہے۔ آپ مظفر
نگر کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔ جب صحت زیادہ تشویشناک ہوگئی، تو
ڈاکٹر نے آپ کو گھر واپس کردیا تھا۔ پھرآپ 22 / دسمبر 2024 کو صبح بوقت
فجر، اس دار فانی کوچ کرگئے۔ آپ کی جنازے کی نماز دار العلوم کے احاطے میں
ادا کی گئی اور قبرستان قاسمی میں دفن کيے گئے۔ اللہ حضرت الاستاذ کی بال
بال مغفرت فرمائے ! آمین! |