اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت قسط نمبر 8

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت
قسط نمبر 8
(راقم الحروف محمد برہان الحق جلالی ۔جہلم)
اعلی حضرت اصحاب علم و دانش کی نگاہ میں
حصہ اول
آپ کی فقاہت کا اعتراف تو عرب و عجم کو ہے العطايا النبوية في الفتاوى الرضوية ضخیم مجلدات پر سمیت ہر کتاب مشتمل آپ کا ایسا فقید المثال شاہکار ہے جسے بجا طور پر علوم و معارف گنجینہ اور فقہی انسائیکلو پیڈیا قرار دیا جا سکتا ہے اب تک اس کی صرف پانچ جلدیں چھپ سکی ہیں۔ اہل علم کی نظر سے جب یہ کتاب گذرتی ہے تو وہ امام احمد رضا کی فقہی بصیرت اور باریک بینی و ژرف نگاہی دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت امام الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ تعالی علیہ کو عرب و عجم کے اصحاب علم و دانش نے اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے جن میں چند ایک کے کچھ اقوال لکھنے کوشش کروں گا۔
صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین صاحب
صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مراد آباد علیہ الرحمہ والرضوان ارشاد فرماتے ہیں علم فقہ میں جو تیر و کمال حضرت ممدوحامام احمد رضا کو حاصل تھا اس کو عرب و عجم ، مشارق و مغارب کے علماء نے گردنیں جھکا کر تسلیم کیا ۔ تفصیل تو ان کے فتاوی دیکھنے پر موقوف ہے مگر جمال کے ساتھ دو لفظوں میں یوں سمجھئے کہ موجودہ صدی میں دنیا بھر کا ایک مفتی تھا جس کی طرف تمام عالم کے حوادث و وقائع استفتار کے لئے رجوع کئے جاتے تھے ۔ ایک قلم تھا جو دنیا بھر کوفہ کے فیصلے دے رہا تھا۔ وہی قلم بد ندھبوں کے جواب میں لکھتا تھا۔ اہل باطل کی تصانیف کا بالغ رو بھی کرتا تھا اور نہ مانہ بھر کے سوالوں کے جواب بھی دیا تھا۔ اعلیٰحضرت کے مخالفین کو بھی تسلیم ہے کہ فقہ میں ان کی نظیر آنکھوں نہیں دیکھا ۔
(حیات صدر الافاضل مرتبہ مولانا غلام معین الدین نعیمی پاکستان)
حضرت شیخ سید محمد اسمعیل۔
حضرت شیخ سید محمد اسمعیل محافظ کتب خانہ حرم شریعت مکہ مکرمہ کا بیان دریدہ حیرت سے پڑھنے کے لائق ہیں۔ فاضل بریلوی کی ایک تحقیق پر وہ اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں والله اقول والحق اقول انه بوراها ابو حنيفة النعمان لا قرت عينه ولجعا، مؤلفها من جملة الاصحاب. میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اور بالکل سچ کہتا ہوں کہ اگر اسے امام اعظم ابوحنیفہ الندان رضی اللہ عنہ دیکھتے تو بلا شبہ یہ مسئلہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ۔ اور یقینا اس کے مولف کو وہ اپنے اصحاب ( امام محمد امام ابو یوسف - امام زفر رضی اللہ عنہم میں شامل فرما لیتے ۔
شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال۔
اسی سے ملتا جلتا تاثر علامہ اقبال کا بھی ہے ۔ ڈاکٹر عابد احمد علی ایم ۔ اے ڈی فل (آکسفورڈ یونیوسٹی انگلینڈ مہتم بیت القرآن پنجاب پبلک لاہور رکھتے ہیں ۔ علیگڑھ میں سر راس مسعود کے بلانے پر اقبال اکثر جایا کرتے تھے ۱۹۳۰ ء سے ۱۹۳۵ء کا زمانہ وہ ہے جس میں تقریبا ہر سال گئے ہوں گے اس عرصے میں ایک بار استاد محترم پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف نے اقبال کو کھانے پر مدعو کیا اور وہاں محفل میں حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا ذکر چھڑ گیا تو اقبال نے مولانا کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی کہ وہ بیحد ذہین اور باریک بین عالم دین تھے۔ فقہی بصیرت میں ان کا مقام بہت بلند تھا۔ ان کے فتاویٰ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر اعلیٰ اجتہاد کی صلاحیتوں سے بہرہ ور اور ہندوستان کے کیسے نابغہ روز گار فقیہ تھےآپ عربی فارسی اردو کے ماہر اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔
ڈاکٹر پروفیسر محی الدین الوائی
متعدد زبانوں کے ماہر مشہور محقق ڈاکٹر پروفیسر محی الدین الوائی جامعہ ازہر مصر لکھتے ہیں۔
پرانا مشہور مقولہ ہے کہ شخص واحد میں دو چیزیں تحقیقات علمیہ اور نازک خیالی نہیں پائی جاتیں۔ لیکن مولانا احمد رضا خاں کی ذات اس تقلیدی نظریہ کےعکس پر بہترین دلیل ہے ۔ آپ عالم محقق ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین نازک خیال شاعر بھی تھے جس پر آپ کے عربی فارسی اردو کلام پر مشتمل دو اوین شاہد عادل ہیں۔
نعت گوئی ایک مشکل ترین صنف سخن ہے۔ جس میں منصب رسالت کی رعایت قدم قدم پر ضروری ہے کیونکہ اوپر بڑھنے میں شان الوہیت اور نیچے آنے میں شان رسالت میں گستاخی کا عظیم قطرہ شاعر کے سامنے ہمیشہ دو دھاری تلوار بن کر لٹکتا رہتا ہے ۔
عابد نظامی
مشہور ادیب و شاعر جناب عابد نظامی اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں ۔
غالبا ء کے نصف آخر کا ذکر ہے کہ مجھے ملتان کے ایک جلسہ یوم حسین کی ۱۹۵۹ تقریب میں شرکت کے لئے جانا پڑا۔ یہ جلسہ ٹاون ہال میں ہوا ۔ شرکائے جلسہ و انا ما را قادر مولانا محمد جعفر ندوی پھلواری اور کوثر نیازی مولانا باقر علی خان امیر جماعت اسلامی ملتان کی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔
رات کو یہ دلچسپ مذاکرہ چھڑ گیا کہ اردو کا سب سے بڑا نعت گو شاعر کون ہے؟ اردو کے بڑے بڑے مشاعروں کے اشعار مقابلے میں پیش ہونے لگے ۔ یہ مباحثہ کافی دیر تک جاری رہا ۔ بالآخر سب نے اس بات پر اتفاق کیا ۔ کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی سے اچھے نعتیہ اشعار (زیادہ تعداد میں اردو کے کسی شاعر نے نہیں کہے ہیں اس وقت تک مولانا کے نام سے تو ضرور واقف تھا۔ مگر کلام سے واقف نہ تھا بعد میں ان کا کلام در حدائق بخشش، دیکھا تو اس بات کی تصدیق ہو گئی ۔
(ص111 مقالات یوم رضا اول مطبوعہ لاہور بحوالہ یاد اعلحضرت مکتبہ قادریہ لاہور ۳۵)
ڈاکٹر حامد علی خاں ایم اے ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی لیکچرر شعبہ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
آپ کی عربی شاعری کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں۔علامہ احمد رضا خان نے مخصوص حالات و کیفیات سے متاثر ہو کر اپنے جذبات کی نظم میں ترجمان کی۔ البتہ جتنا بھی لکھا خوب لکھا۔ اور اغیار تک سے داد تحسین پائی
مولانا رحمن علی صاحب میر کونسل آف ریاست ریواں مدھیہ پردیش
آپ کا ایک رسالہ فن تخریج حدیث میں الروض البهيج في اداب التخریج ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مورخ مولانا رحمن علی صاحب میر کونسل آف ریاست ریواں مدھیہ پردیش لکھتے ہیں ۔
اگر پیش ازیں کتا بے درین فن نیافته شود پس مصنف را موجد تصنیف ہنرا می توان گفت .
(اگر فن تخریج حدیث میں ) اور کوئی کتاب نہ ہو تو مصنف کو اس تصنیف کا موجد کہا جا سکتا ہے ۔
( تذکرہ علماء ہند فارسی ص 17)
جاری ہے۔
 

MUHAMMAD BURHAN UL HAQ
About the Author: MUHAMMAD BURHAN UL HAQ Read More Articles by MUHAMMAD BURHAN UL HAQ: 165 Articles with 282002 views اعتراف ادب ایوارڈ 2022
گولڈ میڈل
فروغ ادب ایوارڈ 2021
اکادمی ادبیات للاطفال کے زیر اہتمام ایٹرنیشنل کانفرنس میں
2020 ادب اطفال ایوارڈ
2021ادب ا
.. View More