شعلے کی کہانی گبرّ کے لوٹنے سے شروع ہوکر ٹھاکر کی واپسی
پر ختم ہوتی ہے۔ ٹرمپ 8؍سال قبل امریکہ کے جیلر مقرر ہوئے 4؍ سال قبل ان کے
ہاتھ کٹ گئے اور اب وہ پھر سے لوٹ آئے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کی واپسی کے
بعد دیکھنا ہے کہ ان کا موجودہ دور کے گبرّ یعنی چین پر کیا اثر پڑےگا ۔ یہ
انتقام در انتقام کی کہانی کیا گُل کھلائےگی ۔ ٹرمپ نے پہلی بارکی انتخابی
مہم کا ہدف چین کو بنایا تھا اور 23؍ مرتبہ اس کا ذکر کرکے امریکی عوام کو
گبرّ سے ڈرایا تھا۔ انہوں چین پر قابو پانے کے لیے 2016ء سے 2020ء کے
درمیان ٹیریف میں کافی اضافہ کیا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ پچھلے 8؍
سال میں چین کی شرح نمو 50؍ فیصد بڑھ گئی اور اسی طرح امریکہ پر چینی قرض
میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا ۔ ٹرمپ کی معاشی پالیسی کو جاری رکھنے کے
باوجود بائیڈن بھی چین کی شرح نمو کو نہیں روک سکے۔ یعنی اب گبرّ پہلے سے
کہیں زیادہ طاقتور ہوگیا ہے۔ شروع میں تو ایسا لگا کہ اب ٹھاکر اس سے
ٹکرانے کے بجائے ہاتھ ملانا چاہتا ہے۔
حلف برداری میں شی جن پنگ کو دعوت اور غیر حاضری کے باوجود فون پر بات چیت
مفاہمت کے اشارے تھے ۔ اس کے برعکس ٹرمپ اپنے ویرو اور جئے یعنی ناٹو و
ہندوستان کو نظر انداز کررہے ہیں ۔ بعید نہیں کہ موجودہ گبرّ ویرو کی
محبوبہ روس کو ناچنے پر مجبور کرنےکے بجائے اس سے بیاہ رچائے اور ایران کو
بھی بارات میں بلالے ۔ایسا کسی اورکےتو نہیں مگر ٹرمپ کے دور میں ممکن ہے
۔شعلے کانیا سیکویل اس لیے بھی دلچسپ ہوگا کیونکہ ٹرمپ کی فطرت میں
ٹھاکروالا ٹھہراو نہیں بلکہ گبر جیسا لاابالی پن ہے۔ وہ ہنستے ہنستے کالیا
سمیت اپنے تین ہمنواوں کو گولیوں سے بھون کر قہقہہ لگائے تو سارا گروہ اس
کے ساتھ بے قصور لوگوں کی موت کے جشن میں شامل ہوسکتا ہے۔ مغرب کے بڑےحلیف
اور گبرّ کے گروہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے
دوران ان کا سفاک چہرہ ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے لیے پروفیسر جیفری شاس کی اس ویڈیو کو شیئر کردینا نہایت سہل
ہے کہ جس میں نیتن یاہو کو کالے کتے کی اولاد کہہ کر ان پر امریکہ کو ایک
لامتناہی جنگ میں گھسیٹنے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ اسرائیل کو لبنان سے فوج
نکالنے کے لیے مزید ایک ماہ کی مہلت دینے والے بائیڈن سے ہٹ کر ٹرمپ اسے
فوراً نکل جانے کی دھمکی دے سکتے ہیں لیکن پھراس کے بعد مصر کے ساتھ لبنان
کو نقل مکانی کی خاطر اپنی سرحد کھول دینا یعنی غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء
کی تجویز پیش کردینےکی متضاد حرکت ٹرمپ کے لیے عام سی بات ہے۔ وہ مصر و
لبنان سے 23؍ لاکھ فلسطینیوں کو وہ اپنے ملک میں بسانےکے لیے کہتے ہوئے
امریکہ سے نقل مکانی کرنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال سکتے ہیں۔ دوسروں
کومشورہ دےکر خود اس کے بالکل خلاف عمل پیرا ہونے کی منافقت ٹرمپ کے دائیں
ہاتھ کا کھیل ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کےتیکھے تیور کا جواب دیتے ہوئےچین اور کینیڈا نے بھی اتنا ہی
ٹیریف امریکہ پر ٹھونک دیا ۔ اس کے برعکس مودی سرکار کو جھکنے کے لیے کہا
گیا وہ سجدے میں گر پڑی۔ پہلے تو برکس کی کرنسی کےا ستعمال سے توبہ کرکے
اپنا وقار مٹی میں ملایا ۔ اس کے بعد امریکہ کے سامنے ناک رگڑ تے ہوئے
موجودہ بجٹ میں امریکہ سے آنے والی موٹر سائیکل پر کسٹم 50 فیصد سے کم
کرکے 30فیصد کردئیے ۔ اس طرح ساورکر کی روایت کو آگے بڑھاکر پیغام دیا کہ
مائی باپ رحم کرو ۔ ہم تمہارے وفادار تھے ، ہیں اور آگے بھی رہیں گے لیکن
ٹرمپ کا دل نہیں پسیجا اور انہوں نے بڑی بے دردی سےغیر قانونی ہندوستانیوں
کو امریکہ سے نکالنا شروع کردیا ۔یہ ر ویہ گواہ ہے کہ فی الحال ٹھاکر سے
گبرّ تو نہیں مگر ویرو خاصا خوفزدہ ہے ۔
ہندوستان میں فی الحال ان لوگوں کی سرکار ہے جو ٹرمپ کی جیت کے لیے پوجا
پاٹ کرتے تھے مگر اب اپنے ان گناہوں سے نجات کی خاطر کمبھ میں ڈبکی لگا رہے
ہیں ۔ ٹرمپ انتظامیہ نےواپس آنے والےتارکین وطن کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ
اختیارکیا ہے اس کی مذمت لازمی تھی مگر مودی سرکار میں جرأت کا فقدان ہے ۔
وطن واپسی کی خاطر پہلے مسافر جہازوں کا استعمال ہوتا تھا مگر اس بار فوجی
طیاروں کے ذریعے ملک بدر کیا جانا ایک علامتی عمل ہے۔ ٹرمپ غیر قانونی
تارکین وطن کو ’ایلین‘ اور ’مجرم‘ قرار دےکر ’امریکہ پر حملہ کرنے والے‘
کہتے ہیں۔اب فوجی طیاروں سے بھیج کر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ ایسے
’جرائم‘ کے خلاف انتہائی سخت ہیں۔ تارکین وطن کو طیاروں میں لادتےوقت
بیڑیاں باندھنا یا ہتھکڑیاں لگانا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
امریکہ سے ملک بدری کے لیے سی-17 فوجی طیارے کااستعمال عام مسافر طیاروں سے
کافی مہنگا پڑتاہے لیکن اس مذموم حرکت کے ذریعہ امریکہ ہندوستان کو
دھمکاکراپنا رعب جما رہا ہے۔ وزیر خارجہ کی گذشتہ ہفتے امریکہ کے دورے پر
اس کے لیے رضامندی کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ان کو اس کیمخالفت کرنی چاہیے
تھی اس کے لیے جو ریڈھ کی ہڈی درکار ہے وہ بھلاایس جے شنکر میں کہاں سے
آئے گی ؟ کولمبیا اور میکسیکو جیسے پڑوس کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے اپنے غیر
قانونی تارکین وطن کو لانے والی امریکی فوجی پروازوں کو قبول کرنے سے انکار
کر دیا اور صرف مسافر بردار طیاروں کے ذریعے آنے والے شہریوں کو قبول کرنے
پر رضامندہوئےلیکن حکومت ہند نے اس نوعیت کا کوئی بیان نہیں دیا۔
تارکین وطن کو واپس بھیجنے کی خاطر اگرفوجی طیاروں کے بجائے مسافر طیارے
استعمال کیے جا تے تو اس پر فی گھنٹہ 17،000 امریکی ڈالر خرچ ہوتے۔ اس کے
برعکس سی-17 جنگی طیارے کی فی گھنٹہ لاگتِ پرواز 28،500 ڈالر ہے۔ یہ فلائیٹ
وقت بھی زیادہ لیتی ہے۔ امریکہ سے ہندوستان پہنچنے میں اسے 24 گھنٹے لگنے
تھے تاہم اس نے ڈیڑھ گنا یعنی 36 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگایا اس طرح کرایہ
جو پہلے دو گنا تھا وہ اب ڈھائی گنا ہوگیا۔ایسے میں اگر صرف 24 گھنٹے کا ہی
تخمینہ لگائیں تو اس پر 684000 امریکی ڈالر کا خرچ آیا ہے اور اسے 104
مسافروں پر تقسیم کردیا جائےتو فی کس تقریباً 6577 امریکی ڈالرپڑتےہیں ۔ یہ
عام مسافر بردار فلائٹ سے 6 گنا زیادہ ہے۔ ویسے اگر خدا نخواستہ سات لاکھ
سے زیادہ لوگوں کو لانا پڑ جائے تو اس بے سود آمدو رفت کا قومی خزانےپر
بہت برا اثر پڑے گا اور امریکہ کے بلےّ بلےّ ہوجائیں گے ۔
یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ غیر قانونی ہندوستانی تارکین وطن کی امریکہ سے ملک
بدری کا اعلان اسی دن ہوا ہے، جس روز وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک ہفتے
بعد امریکہ کے سرکاری دورے کی اطلاع آئی ۔ اس لیے سارا جوش و خروش ماند
پڑگیا ۔ ٹرمپ کے دوسری باری باری میں مودی کا یہ پہلا دورہ بارہ فروری سے
ہونے کا امکان ہے۔ دورے کے موڈ کا اندازہ صدر ٹرمپ کے اس حالیہ بیان سے
لگایا جاسکتا ہے کہ "تاریخ میں پہلی بار، ہم غیر قانونی غیر ملکیوں کا پتہ
لگا رہے ہیں اور انہیں فوجی طیاروں میں لوڈ کر رہے ہیں اور واپس ان جگہوں
پر چھوڑ رہے ہیں جہاں سے وہ آئے تھے۔" ہندوستان کے حوالے سے امریکی صدر نے
کہا تھا کہ جب غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس لینے کی بات آتی ہے،
تو وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے ان کا ملک ، "جو
صحیح ہے وہ کرے گا۔"
بلومبرگ نیوز کے مطابق ہندوستان اور امریکہ نے اب تک تقریبا 18,000 ایسے
تارکین وطن کی شناخت کرلی ہے، جو غیر قانونی طور پر داخل ہوئے تھے۔نئے
امریکی وزیر خارجہ روبیو نے واشنگٹن دورے کے دوران اپنے ہندوستانی ہم منصب
جے شنکر کے ساتھ "بے قاعدہ امیگریشن" کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ اس پر وزیر
خارجہ نے کہا تھا کہ ہندوستان غیر قانونی نقل مکانی کی حمایت نہیں کرتا
۔آگے بڑھ کر وہ یہاں تک بول گئے کہ "غیر قانونی امیگریشن اکثر دیگر غیر
قانونی سرگرمیوں سے منسلک ہوتی ہے۔ یہ ہماری ساکھ کے لیے نہ تو مطلوب اور
نہ مفید ہے۔ اگر ہمارے شہریوں میں سے کوئی بھی غیر قانونی طور پر امریکہ
میں پایا جاتا ہے اور ہم ان کی شہریت کی تصدیق کرتے ہیں، تو ہم ان کی بھارت
میں قانونی واپسی کے لیے تیار ہیں۔" وزیر خارجہ کی یہ چاپلوسانہ بیان بازی
مصیبت زدگان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ان کو چائے سے گرم کیتلی
والے رویہ سے گریز کرنا چاہیے تھا ۔
تارکینِ وطن کی یہ واپسی اگر وزیر اعظم کے سبکدوش ہونے کے بعد رونما ہوتے
تو ان بھگت کہتے نریندر مودی کے ہوتے یہ ناممکن تھا۔ ان کی لال آنکھ ہی
ٹرمپ کو ڈرانے کے لیے کافی تھی مگر یہی دن دکھانے کے لیے مشیت نے انہیں
کامیاب کیا۔ خود ساختہ وشو گرو معروف ادارہ فوربس کے مطا بق طاقتورترین
ممالک کی فہرست میں بارہویں مقام پر ہے۔ اس سے اوپر اسرائیل اور دسویں پر
سعودی عرب ہے۔ امریکہ میں مودی جی کی قدر دانی اسی لحاظ سے ہوگی ۔ ویسے
ٹھاکر ٹرمپ سنگھ کے چار سالہ دورِ اقتدار کی یہ شروعات ہے ۔ آگے کیا کیا
ہنگامہ کرکے وہ رخصت ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔یہی مزاج رہا تو بعید
نہیں کہ وہ اپنی میعاد ِکار کی توسیع کے لیے آئین میں تبدیلی تک
کروالیں۔ایسا ہوگیا تو ہالی ووڈ کی شعلے ۲ کا شمار دنیا کی سب سےبڑی بلاک
بسٹر ہو گا۔
|