اچھی ایڈورٹائزمنٹ

آج کل جس اخبار کو دیکھو، سرکاری اشتہارات ہی اشتہارات۔ پہلا صفحہ مریم نواز کا کسان کارڈ، دوسرا صفحہ مریم نواز کا مزدور کارڈ، تیسرا صفحہ مریم نواز کا گھر کارڈ اور اگلا صفحہ مریم نواز کا کوئی دوسرا کارڈ۔ ہرصفحہ کسی نا کسی کارڈ اور مریم نواز کی تصویر سے مزیں۔پتہ نہیں موجودہ حکومت نے کتنے کارڈ یا پتے پھینک دئیے ہیں۔ ہر پتہ ایک نوید ہے ، بہتر مستقبل کی ، بہتر حالات کی ، اگر یہ سب منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں۔ اگر یہ پتے فقط پتے نہیں، یہ سارا عمل پتے بازی نہیں تو یقیناً یہ پتے اس صوبے کا مستقبل ہیں تو یہ مستقبل بہت روشن ہے۔ کہتے ہیں کی اگر کسی کام کی ابتدا اس یقین کے ساتھ کی جائے کہ یہ ہو جائے گا، تو وہ جیسے بھی حالات ہوں ،ہو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت جس انداز میں کام کر رہی ہے، اس سے اس کی نیت میں کوئی شک نہیں نظر آتا ، مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اتنا وسیع بجٹ کہاں سے آئے گا۔یقیناً یہ سوچنے کی بات ہے لیکن اس سارے کھیل میں کوئی ایک آدھ کام سست بھی رہے تب بھی یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔پنجاب کی وزیر شور شرابا کہتی ہیں کہ مریم نواز اس وقت 86 منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔یہ ایک بڑا کام ہے ، اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اس کے ثمرات بھی جلد نظر آنے لگیں گیاور عوام کو بھرپور استفادہ ہو گا۔میں عام طور پر اس وزیر کو جس کے ذمے اطلاعات اور نشریات ہوتی ہیں، وزیر شور شرابا اس لئے کہتا ہوں کہ یہ سارے وزیر بڑی روانی سے بولتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان کے منہ سے سچ نکل رہا ہے کہ جھوٹ۔ وزارت بہت ذمہ داری مانگتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ زیادہ پڑھا لکھا شخص کچھ بزدل بھی ہوتا ہے اور کچھ وہمی بھی۔ وہ اس سوچ میں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح، بہت وقت ضائع کر دیتا ہے۔ شاید اس لئے زیادہ شور مچانے والے نسبتاً کم پڑھے لکھے بندے کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے۔جو بہت کچھ کہہ بھی لیتا ہے اور ایسی کوئی بات نہیں کہتا جو زیادہ قابل اعتراض ہو۔

مریم نواز کی اشتہاری مہم جس منظم انداز سے چلائی جا رہی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے ، مریم نواز کی میڈیا ٹیم شاندار کارکردگی دکھا رہی ہے۔ ایک اچھی اشتہاری مہم کا اپنا تاثر ہوتا ہے ۔ اچھا اشتہار لوگوں کی توجہ کھینچتا ہے ۔عوام اس کے تاثر کو قبول کرتی ہے اور مثبت رد عمل کا اظہار کرتی ہے۔ ایڈورٹائزمنٹ کسی بھی چیز کی مقبولیت کو بہتر کرنے میں زبردست رول ادا کرتی ہے۔ا یک اچھا اشتہار کسی بھی چیز کی قسمت اور کایا بدل دیتا ہے۔ 1999 کی بات ہے چائنہ کی ایک صابن بنانے والی فیکٹری نے اخبار میں ایک اشتہار دیاکہ اس کا بنایا ہوا صابن نہ صرف جسم کی صفائی بہترین کرتا ہے بلکہ اس میں ایسے اجزا بھی شامل ہیں کہ اس کا کچھ دن کا مسلسل استعمال انسان کے وزن کو بھی کم کرتا ہے۔ اشتہار اس خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ وزن کم کرنے والی خوبی اس اشتہار میں بڑی نمایاں نظر آتی تھی، سارا زور بھی صابن کی اسی خوبی پر ہی دیا گیا تھا۔ اپنا زیادہ وزن ہر شخص کو ،چبھتا ہے اور کم وزن کا ہونا ہر شخص کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے۔ اس اشتہار کے عمدہ تاثر کے سبب لوگ وزن کم کرنے کے چکر میں اس صابن پر ٹوٹ پڑے۔چین اور اس سے ملحقہ ملکوں میں اس کی مانگ حد سے زیادہ نظر آنے لگی۔چین میں اس صابن نے ریکارڈ سیل کی۔جاپان میں یہ مقبول ہوا توجاپان کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے اس صابن کے اجزا کو مضر صحت قرار دے کر جاپان میں اس کی امپورٹ اور فروخت پر پابندی لگا دی۔مگر اس کے باوجود جاپان کے لوگوں میں اس صابن کے حصول اور اس کے استعمال کا جذبہ کم نہ ہو سکا ۔یہ اس کمپنی کی ایڈور ٹائزمنٹ کا کمال تھا کہ کوئی شخص جو جاپان سے چین یا ہانگ کانگ جاتا تو واپسی پر اس صابن کی بڑی تعداد اپنے ساتھ لے کر آتا۔

دنیا کی تاریخ میں کسٹم حکام نے کسی بھی چیز کو اتنی بڑی تعداد میں ضبط نہیں کیا جتنا اس صابن کی ضبطی جاپان کے حکام نے کی۔صرف دو ماہ جون اور جولائی 1999 میں ہانگ کانگ اور چائنہ سے آنے والے دس ہزار سے زیادہ افراد سے یہ صابن کسٹم حکام نے ضبط کرکے قبضے میں لیا جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔یہ سبھی صابن کمپنی کے اشتہار ہی کا کمال تھا جس نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ تمام پابندیوں کے باوجود اس صابن خریدتے اور استعمال کرتے رہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں حکومتی اشتہار جو اس کے مضمرات کے بارے بتا رہا تھا بالکل بے اثر رہا۔یہ اچھا اشتہار ہی ہے جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔مریم نواز کی میڈیا ٹیم بھی بڑی خوبصورتی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے اور ایک بہت اچھا تاثر دینے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ایسی خوبصورت مہم کے مقابلے میں کوئی دوسرا منفی پراپیگنڈہ پنپ نہیں سکتا۔

صابن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک خوبصورت بات یاد آئی۔ جاپان کی ایک فرم کو صابن بنانے کی مشین کے دو آرڈر موصول ہوئے۔ ایک متحدہ عرب امارات سے تھا اور دوسرا پاکستان سے۔ کچھ عرصے میں مشینیں تیار ہوگئیں تو ان کو متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں نئے مالکوں کے سپرد کر دیا گیا۔ فیکٹریوں نے اپنی اپنی جگہ پروڈکشن شروع کر دی۔چند دن بعد مارکیٹ سے شکایت آئی کہ ہر کارٹن میں کچھ ریپر ایسے پائے جاتے ہیں کہ جن میں صابن نہیں ہوتا اور وہ خالی پیک ہو جاتے ہیں۔ دونوں کمپنیوں نے اپنی جاپان کی مینوفیکچرنگ فرم کو اس بات کی شکایت کی۔جاپانی فرم نے اس کا آسان حل یہ بتایا کہ وہ ایک ایسی مشین کارٹن پیکنگ سے پہلے اس بیلٹ پر نصب کر دیں گے کہ جو پیک شدہ صابن کو چیک کرے گی اور جو خالی ریپر وہاں سے گزرے گا ،اس کا وزن کم ہونے کے سبب مشین اسے الگ کر دے گی۔ اس نئی مشین کی قیمت صرف پچیس ہزار ڈالر بتائی گئی۔متحدہ عرب امارات کی کمپنی نے وقتی طور پر اپنی پروڈکشن روک دی اور نئی مشین کا انتظار کرنے لگے۔ پاکستانی کمپنی نے پچیس ہزار ڈالر قیمت سن کر اس کا جواب ہی نہیں دیا۔متحدہ امارات والے پریشان تھے کہ پاکستانی کیا کر رہے ہیں۔ نئی مشین نہ ملی تو اپنی پروڈکشن کیسے جاری رکھ رہے ہوں گے۔ان کا ایک نمائندہ پاکستانی فیکٹری جائزہ لینے آیا تو یہاں پر پروڈکشن پوری طرح جاری تھی۔ وہ بیلٹ جس کے بیچ میں نئی مشین نصب ہونی تھی ، پوری طرح کام کر رہی تھی۔ ایک عدد پیڈسٹل فین اس بیلٹ کے سامنے پوری رفتار سے چل رہا تھا اور جو خالی ریپر اس کے سامنے آتا ، اڑ کر آگے پڑے باکس میں گر جاتا۔ اس سارے عمل کے لئے فیکٹری کو فقط 3500 روپے ایک پیڈسٹل خریدنے کے لئے خرچ کرنے پڑے۔ بعد میں فیکٹری نے ایک چھوٹا سا پنکھا مستقل طور پر اس بیلٹ پر نصب کر دیااور یوں پچیس ہزار ڈالر کا کام ایک چھوٹا پنکھا جس کی قیمت دو یا ڈھائی ہزار تھی، پوری طرح کرنے لگا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 587 Articles with 536117 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More