امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح مظلوم فلسطینیوں کو
خوشحال زندگی فراہم کرنے کا ڈھونگا خواب دکھاکر، مقدس سرزمین کو ہڑپنے کا
جو خواب دیکھا تھا اس کا اظہار ظالم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہہ کر سب کو حیران کردیا۔غزہ کے
مظلوم معصوم بے قصور مردو خواتین اور بچے جس خوشی اور فرطِ مسرت کے ساتھ
اپنی سرزمین کو جو کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہے جوق در جوق جارہے ہیں انکی
زبانوں پر اﷲ کی حمد و ثناء اور شکرانہ کے الفاظ جاری ہیں ، انہیں معلوم ہے
کہ انکے خوبصورت سجے سجائے گھروں کو ظالم اسرائیلیوں نے تباہ و تاراج کرکے
کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے اسکے باوجود وہ اپنی سرزمین پر خوشیوں کی سوغات
لے کر جارہے ہیں۔ انکی خو شیاں اس مقدس سرزمین پردوبارہ واپسی ہے۰۰۰ ایسی
خوشیوں کو پھر سے تہس نہس کرنے کے خواب دیکھنے والوں کو سونچنا چاہیے کہ وہ
کن لوگوں سے مقابلے کی سوچ رہے ہیں۔ یہ وہ مکین ہیں جنہیں اپنی جانوں کی
پرواہ نہیں ۰۰۰ انہیں صرف اس مقدس سرزمین چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی پرسکون
اسلامی ماحول میں کسی کے رحم و کرم پر پلے بغیر گزاریں۰۰۰ انہیں معلوم ہیکہ
انکا ساتھ دینے والا کوئی نہیں سوائے اﷲ رب العزت کے۰۰۰ انہیں معلوم ہے کہ
ڈونلڈ ٹرمپ ہو کہ کوئی اور انہیں خوشی فراہم نہیں کرسکتے۰۰۰ انہیں اندازہ
ہیکہ وہ دشمنوں کے سایہ میں پل بڑھ رہے ہیں ۰۰۰ اس کے باوجود وہ بے خوف
ہوکر زندگی گزارنے کیلئے اپنے اپنے گھروں کو جو کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے
ہیں واپس ہورہے ہیں جہاں انکے اپنوں کی مدفن گاہیں ہیں۰۰۰ اور ایسی جگہوں
کو چھوڑ کر وہ کہیں اور جینا پسند نہیں کرتے ۰۰۰ اگر انہیں زبردستی انکے
مقامات سے نکالاجائے گا تو پھر حالات مشرقِ وسطیٰ انتہائی سنگین نوعیت
اختیار کرسکتے ہیں اسی لئے امریکی صدر ٹرمپ کو ایسے خواب دیکھنے سے اجتناب
کرنا چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا ہے کہ نقل مکانی
کرنے والے فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے باہر آباد کیا جانا چاہیے اور
ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کی ’ملکیت‘ میں جنگ زدہ علاقے کو تعمیر کرنے کی
تجویز پیش کی۔ذرائع ابلاغ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر ٹرمپ نے اسرائیلی
وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ
’میرا نہیں خیال کہ لوگوں کو واپس جانا چاہیے۔ میرے خیال میں ہمیں کسی اور
مقام کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں کوئی ایسا مقام ہو جہاں لوگ خوش رہیں۔‘
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ، غزہ کی پٹی کی ملکیت حاصل کر لے گا اور
فلسطینیوں کے کسی اور مقام پر آباد ہونے کے بعد غزہ کو دوبارہ تعمیر کریں
گے اور اس علاقے کو ’مشرق وسطیٰ کے رویرا‘ میں تبدیل کر دیں گے جہاں
فلسطینیوں سمیت ’دنیا کے لوگ‘ رہیں گے۔تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے اس منصوبے سے
متعلق تفصیل نہیں بتائی کہ امریکہ کن اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے زمین
کی ملکیت حاصل کرے گا اور جنگ زدہ علاقے کو دوبارہ تعمیر کرے گا۔سعودی
وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خود
مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ ایک ’مضبوط، پختہ اور غیرمتزلزل
مؤقف‘ ہے۔سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیاہیکہ ’عالمی
برادری کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی طرف سے برداشت کیے جانے والے شدید
انسانی مصائب کے خاتمے کے لیے کام کرے، (فلسطینی) اپنی سرزمین پر قائم رہیں
گے اور یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔‘صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران
مزید کہا کہ فلسطینیوں کے پاس ’ملبے کے ڈھیر‘ غزہ کو چھوڑنے کے علاوہ اور
کوئی راستہ نہیں ہے۔صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ غزہ کی تعمیر نو کے دوران
امریکی فوج کو تعینات کرنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا اور وہ اس علاقے
کو ’طویل مدتی‘ امریکی ملکیت میں دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے سکیورٹی خلا کو پرُ
کرنے کے لیے امریکی فوج کی تعیناتی کے حوالے سے کہا کہ ’ہم وہی کریں گے جو
ضروری ہے۔‘ٹرمپ کی تجاویز جنگ بندی کی توسیع اور باقی یرغمالیوں کی رہائی
کے لیے ہونے والے مذاکرات کو متاثر کرسکتی ہیں جو رواں ہفتے متوقع ہیں۔جبکہ
اس سے قبل مصر، اردن اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے دیگر اتحادی ممالک ٹرمپ
کو متنبہ کر چکے ہیں کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بیدخل کرنے سے مشرق وسطیٰ کا
استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔گزشتہ ہفتے اردن کے شاہ عبداﷲ دوئم اور مصر کے
صدر عبدالفتاح السسی نے غزہ کے لوگوں کو کہیں اور آباد کرنے کے صدر ٹرمپ کے
مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔تاہم ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مصر، اردن اور دیگر
ممالک فلسطینیوں کواپنے ملک میں جگہ دینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔یہاں یہ بات
واضح رہے کہ ڈیموکریٹس اور صدر ٹرمپ کے ریپبلکن اتحادیوں نے بھی ان تجاویز
پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے صدر ٹرمپ کے حوالے
سے کہا کہ ’وہ مکمل طور پر توازن کھو چکے ہیں۔ وہ غزہ پر امریکہ کا قبضہ
چاہتے ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی ہلاک ہونگے اور آئندہ 20 سالوں
تک مشرق وسطیٰ میں آگ بھڑکتی رہے گی۔‘ ریپبلکن سینیٹر اور ٹرمپ کے اتحادی
لنڈسے گراہم نے کہا ’میرے خیال میں جنوبی کیرولینا کی اکثریت غزہ پر قبضے
کے لیے امریکی فوجیوں کو بھجوانے پر خوش نہیں ہونگے۔ میرے خیال میں مسائل
پیدا ہو سکتے ہیں۔‘ امریکیو ں کو اندازہ ہے کہ ماضی میں جس طرح عراق ،
افغان جنگ میں انہیں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا او رپھر جب وہ اپنے
اپنے گھروں کو لوٹے تو انہیں سوائے شکست خوردہ کہلائے جانے کے اور کوئی
چارہ نہیں تھا۔ ماضی سے سبق لینے کے بجائے امریکی صدر ٹرمپ اپنی فوج کو پھر
سے ایک مرتبہ پُرخطر راہوں پر ڈالنا چاہتے ہیں جسکی شاید امریکی کانگریس
اجازت نہ دے گی۰۰۰اس سلسلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر کہ وہ غزہ پر قبضہ کر
کے وہاں کے رہائشیوں کو کسی ’خوبصورت زمین‘ پر دوبارہ آباد کرنے کا ارادہ
رکھتے ہیں، اقوامِ متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور کا کہنا ہے کہ ’جو
انہیں کسی خوشگوار، اچھی جگہ بھیجنا چاہتے ہیں، وہ انھیں اسرائیل میں ان کے
اصل گھروں کو واپس جانے دیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی غزہ میں اپنے
گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ ویب سائٹ ایکس پر اقوامِ متحدہ میں فلسطینی
مشن کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں ریاض منصور کا کہنا ہے کہ، ’ہمار
وطن ہمارا ہے۔۔۔۔ وہ غزہ کی تعمیرِ نو کرنا چاہتے ہیں، اسکول، ہسپتال،
انفراسٹرکچر ۔ کیوں کہ ان کا یہیں سے تعلق ہے اور وہ یہیں رہنا پسند کرتے
ہیں۔ اور میرے خیال میں رہنماؤں کو فلسطینی عوام کی خواہشات کا احترام کرنا
چاہیے۔‘
دوسری جانب حماس کے ترجمان سمیع ابو ظہری نے امریکی صدر کے متنازع بیان پر
ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’بے تکا‘ اور ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا
ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تجویز خطے میں دوبارہ آگ بھڑکا سکتی
ہے۔‘ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں جنگ بندی
معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہیں۔
یہاں یہ بات واضح رہیکہ منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے
وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کے درمیان ملاقات کے بعد جب دونوں رہنما
صحافیوں سے بات کرنے آئے تو شاید ہی کسی کو امریکی صدر کی جانب سے ایسے
بیان کی امید تھی ہو۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ
غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔انھوں
نے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر ’اس پر حقیقی معنوں میں
کام‘ کر سکتا ہے جیسے کہ ایسے بموں کو ہٹانا جو پھٹے نہیں ہیں، غزہ کی
تعمیر نو اور اس کی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا۔نامہ نگار برنڈ ڈیبسمین
جونیئر بھی اس بریفنگ میں موجود تھے۔ ان کے مطابق وہاں موجود تمام میڈیا کے
نمائندے ٹرمپ کے بیان پر حیرت زدہ تھے۔زیادہ تر نمائندوں کو یہی امید تھی
کہ ٹرمپ اورنیتن یاہو کے مابین ہونے والی گفتگو کے بارے میں کچھ زیادہ
تفصیلات فراہم نہیں کی جائیں گی۔ لیکن اس بات کی امید تو بہت ہی کم لوگوں
نے کی تھی کہ وہ غزہ کی پٹی پر قبضے کی بات کرینگے۔آنے والے دنوں میں اس
بارے میں بہت سارے سوالات اٹھائے جائیں گے اور دیکھنا یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس
ان باتوں کی وضاحت کیسے دیتا ہے۔یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ ٹرمپ کے ان
بیانات نے بہت سارے لوگوں کے دماغوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہوگی۔ ان میں
وہ ہزاروں امریکی ووٹرز بھی شامل ہیں جنھوں نے جو بائیڈن کو غزہ پر انکے
موقف کی وجہ سے ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار
پال ایڈمز کا کہنا ہیکہ ٹرمپ امریکہ کی دہائیوں سے جاری مشرقِ وسطیٰ پالیسی
بدلنے جارہے ہیں۔ پال ایڈمز لکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان ان کے
اپنے معیار سے بھی کافی سر چکرا دینے والا تھا۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ
غزہ کے بارے میں ان کی تجویز کو بہت حمایت حاصل ہے تاہم مشرقِ وسطیٰ میں اس
کے آثار نظر نہیں آتے۔صدر ٹرمپ نے فلسطینی علاقے مغربی کنارے کے مستقبل کے
بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہاں اسرائیل کی خودمختاری کی توثیق
کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اگلے چار ہفتوں میں اس بارے میں اعلان
کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا دو ریاستی حل سے کوئی تعلق نہیں۔کیا
اس میں سے کچھ بھی واقعتاً ہوگا؟ ٹرمپ کے ہوتے اس بارے میں کچھ بھی حتمی
طور پر کہنا ممکن نہیں۔انھوں نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی مشرقِ وسطیٰ
میں امریکی خارجہ پالیسی کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ
وہ دوبارہ ایسا ہی کچھ کرنے لگے ہیں۔وہ گاؤں جو اسرائیل نے 200 مرتبہ تباہ
کیا مگر آج بھی آباد ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے سینئر فیلو برائن کٹولس کا کہنا ہے کہ ان کے خیال
میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر امریکی قبضے کا بیان بنا سوچے سمجھے دیا ہے اور
امریکی صدر کا اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا
کوئی منصوبہ ہے بھی تو یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا آج کے مشرق ِوسطیٰ کی
حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اس بارے میں فلسطینیوں یا اس کے ہمسایہ ممالک
جیسے کہ مصر اور اردن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔کٹولس کا کہنا ہے کہ
ایسے بیانات دے کر ٹرمپ توجہ کا مرکز بننا چاہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی ٹرمپ نے ایسے ہی بیانات دیے تھے جس کا مقصد
بحث شروع کرنا تھا۔’مسئلہ یہ ہے کہ ان باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس سے
ہمیں ان کے مضحکہ خیز بیانات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کچھ وقت اور
توانائی مل جاتی ہے، لیکن اس سے فلسطینیوں یا اسرائیلیوں کے لیے کوئی نئی
حقیقت نہیں بنتی۔‘ اسی اثنٰی سعودی عرب نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا
اعادہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم
نہیں کرے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامن نتن
یاہو کے درمیان منگل کے روز ہونے والی ملاقات کے بعد سعودی عرب کی وزارتِ
خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کا فلسطینی ریاست کے
قیام سے متعلق موقف اٹل ہے۔
عرب وزرائے خارجہ نے غزہ مکینوں کے جبری انخلاء کا منصوبہ مسترد کردیا
ٹرمپ کے ’’غزہ پر قبضہ‘‘ کے بیان سے قبل عرب وزرائے خارجہ نے فلسطینی عوام
کو غزہ سے اردن اور مصر میں جبری طور پر منتقل کرنے کے امریکی صدر کے
منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ وزرائے خارجہ نے متفقہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے
کہا ہے ‘فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بیدخل کرنا کسی بھی طرح کے حالات میں
قابل قبول نہیں۔’واضح رہیکہ امریکی صدر اپنے حلف کے پہلے ہی ہفتے کے دوران
یہ منصوبہ پیش کر چکے ہیں کہ غزہ کو فلسطینیوں سے صاف کیا جائے اور 10 لاکھ
کی تعداد میں اردن اور مصر میں منتقل کر دیا جائے۔صدر ٹرمپ نے اپنے اس
منصوبے میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ منتقلی عارضی بھی ہو سکتی ہے اور مستقل
بھی۔ وہ اس بارے میں ایک سے زائد بار پوری سختی سے اپنا مؤقف بیان کر چکے
ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ مصر اور اردن ایسا کریں گے۔ہفتہ کے روز عرب
وزرائے خارجہ کا اجلاس قاہرہ میں ہوا جس میں مصری وزیر خارجہ اور دیگر حکام
کے علاوہ اردن، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، فلسطینی اتھارٹی اور عرب
لیگ کے رہنماؤں نے شرکت کی اور بعدازاں ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔بیان میں
کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہوگی۔ علاقے
میں ٹکراؤ بڑھے گا اور امن کے امکانات میں کمی ہوگی۔بیان میں یہ بھی کہا
گیا ہے ‘ہم سختی سے اس طرح کی کسی بھی کوشش جو فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ
حقوق پر سمجھوتہ کرنے کے لیے ہو مسترد کرتے ہیں۔ چاہے وہ آبادکاری کی
سرگرمیوں کے حوالے سے ہو یا فلسطینی زمین سے انخلا سے متعلق ہو یا فلسطینی
سرزمین کے کسی الحاق کی شکل میں ہو ہم ہر اس صورت میں جس میں مالکان سے
زمین خالی کرائی جائے بلا جواز سمجھتے ہیں اور مسترد کرتے ہیں۔
ٹرمپ حکومت کا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف
تحقیقات کا آغاز
امریکہ میں مظلوم فلسطینیوں کی تائید کرنے والے تعلیمی اداروں میں مقیم غیر
ملکی طلبہ کے خلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کارروائیوں کا آغاز کرچکی
ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی محکمہ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کی حکومت ملک کی پانچ یونیورسٹیوں میں یہود مخالفت کے حوالے سے نئی
تحقیقات شروع کر رہی ہے۔ ان جامعات میں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی اور
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے بھی شامل ہیں۔ذرائع ابلاغ ’ایسوسی ایٹڈ
پریس‘ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی وعدوں میں شامل تھا کہ وہ تعلیمی
اداروں میں یہود مخالفت کے خلاف سخت اقدامات کرینگے اور بائیڈن انتظامیہ کے
مقابلے میں زیادہ سخت سزائیں دینگے۔اسی کے تحت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے
گزشتہ ہفتے ہی ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے ذریعہ تعلیمی اداروں
میں یہود مخالف تعصب سے نمٹنے کے لیے جارحانہ اقدامات کا کہا گیا تھا۔ ان
اقدامات میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں شرکت کرنے والے غیر ملکی طلبہ
کی ملک بدری کا اقدام بھی شامل ہے۔محکمہ تعلیم کے مطابق نیویارک کی کولمبیا
یونیوسٹی اور برکلے میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ساتھ ساتھ
یونیورسٹی آف منی سوٹا، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور پورٹ لینڈ یونیورسٹی
میں بھی یہود مخالفت کی تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے۔بتایا جاتاہیکہ ان
جامعات کی جانب سے تاحال کوئی موقف سامنے نہیں ہے ۔محکمہ تعلیم کا یہ اقدام
ایسے وقت سامنے آیا ہے جبکہ محکمہ انصاف نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ تعلیمی
ادارں میں یہود مخالفت کے خاتمہ کے لئے نئی ٹاسک فورس بنارہی ہے۔ امریکی
محکمہ تعلیم کے قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری برائے شہری حقوق گریگ ٹرینر نے
اپنے ایک بیان میں کہا ہیکہ محکمہ تعلیم نے یونیورسٹیز، کالجوں اور بارہویں
جماعت تک کے تعلیمی اداروں کو نوٹسز جاری کئے ہیں۔ ان کے بقول موجودہ حکومت
تعلیمی ادارں میں یہودی طلبہ کی مسلسل ادارہ جاتی تفریق کو برادشت نہیں کرے
گی۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے شروع کی گئی تحقیقات کے حوالے سے مزید کسی قسم
کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی بتایا گیا ہیکہ تعلیمی اداروے
کے خلاف کارروائی کیلئے اس کا انتخاب کس طرح کیا گیا ہے۔
ٹرمپ کی یہودیت نوازی ، اسرائیل کو ایک ارب ڈالر کے ہتھیار
ابھی غزہ کے مظلوم اپنے کھنڈرات میں تبدیل گھروں کی صفائی ستھرائی کا آغاز
بھی نہیں کرپائے کہ امریکہ نے اپنے چہیتے ظالم اسرائیل کو ایک ارب ڈالر کے
ہتھیار دینے کیلئے کارروائی کا آغاز کردیا ہے ۔ بتایا جاتا ہیکہ امریکہ کی
ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کی ہتھیاروں کی اگلی ضرورتوں کے پیش نظر اسرائیل
کوہتھیاروں کی فروخت کی منظوری کے لیے کانگریس سے رجوع کر لیا ہے۔ اس امر
کی اطلاع ‘ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق
اسرائیل کو فوری اسلحہ کھیپ کی مالیت ایک ارب ڈالر ہو گی۔امریکی اخبار’وال
اسٹریٹ جرنل‘ کے مطابق ہتھیاروں کی اس کھیپ میں 4700 کی تعداد میں 1000
پاؤنڈ وزن کے حامل بم بھی شامل ہیں جن کی مالیت 700 ملین ڈالر ہے۔ علاوہ
ازیں کیتٹ پلر کے کے ساختہ فوجی بلڈوزروں سے مالیت 300 ملین ڈالر سے
اسرائیلی ضرورت پوری کی جائے گی۔ واضح رہیکہ یہ بلڈوزر اسرائیلی فوج عام
طور پر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے گھروں کی مسماری کے لیے
استعمال کرتی ہے۔ جبکہ 1000 پاؤنڈ کے وزن کے حامل بم غزہ ، رفح اور لبنانی
سرحد پرتباہی مچانے کے لیے پچھلے پندرہ ماہ کے لیے بہت کار آمد رہے
ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ نے بر سر اقتدار آنے کے پہلے ہی ہفتے کے دوران اسرائیل
کو وہ 2000 پاؤنڈ وزن کے بم بھی دینے کا پھر سے فیصلہ کر لیا ہے ، جن کی
ترسیل جوبائیڈن انتظامیہ غزہ جنگ کے آخری مہینوں میں روک دی تھی ۔ تاہم
اسرائیل کے پاس پہلے سے موجود ان امریکی بموں کا وافر سٹاک کام آتا رہا۔صدر
ٹرمپ نے اپنے ایئر فورس ون طیارے میں سفر کے دوران گذشتہ دنوں صحافیوں سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ’ ہم ان کے لیے وہ بم دوبارہ سے بھیج رہے ہیں۔
ٹرمپ نے کہاکہ آج سے ان بمبوں کی ترسیل کر دی ہے، اب ان کے پاس یہ بم موجود
ہوں گے۔ انہوں نیان بموں کے لیے ادائیگی کی تھی اور انہیں ان کا انتظار رہا
ہے۔یہ بم ان کے پاس ذخیرہ رہے ہیں۔ ‘ خیال رہے 2000 پاؤنڈ وزن کے حامل یہ
بم موٹی سے موٹی کنکریٹ سے بنی چھتوں اور دیوروں کے علاوہاور دھات سے
دیواروں یا چھتوں کو بھی پھاڑ کر تباہی کر سکتے ہیں۔
ٌٌٌ***
|