حمید اختر ۔آگے چلیں گے دم لے کر

حمید اختر نے اپنی کتاب ’ آشنائیاں کیا کیا‘ کے آغاز میں شان الحق حقی کا یہ شعر درج کیا تھا :

آیا نہیں پلٹ کے کوئی بھی گیا ہوا
میں خود ہی جاؤں گا اب انہیں ڈھونڈتا ہوا

اپنے یاران گم گشتہ کی تلاش میں حمید اختر لاہور کے شوکت خانم اسپتال میں سولہ اکتوبر دو ہزار گیارہ کی رات ساڑھے نو بجے یہ دنیا چھوڑ گئے۔

لاہور کی آخری اور توانا ’ترقی پسند‘ شمع بجھ گئی۔

چند ماہ کے وقفے سے اہل لاہور کو پہلے اے حمید اور پھر اب حمید اختر کی رحلت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہے ۔گزشتہ کئی برس سے وہ ایکسپریس اخبار میں’ پرسش احوال ‘کے عنوان سے کالم لکھ رہے تھے۔ اپنے کالم میں وہ جہاں روز مرہ کے سماجی اور سیاسی مسائل کو موضوع بحث بنایا کرتے تھے، وہاں کبھی کبھی ان کا قلم یاد ماضی کو کریدنے میں بھی مصروف ہوجایا کرتا تھا اور وہ فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، احمد راہی، اے حمید جیسے تخلیق کاروں کے بارے میں انواع اقسام کی معلومات کے ڈھیر لگاتے چلے جاتے تھے۔اپنے انہی کالمز میں وہ فلاحی کاموں کے لیے بھی اپنے پڑھنے والوں سے تعاون کی درخواست کرتے تھے، فروری 2011 کے ایک کالم سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

”چند روز قبل ہم نے پشاور کے نواح کے رہائشی ناصر کے دو سالہ بیٹے عباس کے بون میرو کے لاکھوں روپوں کے اخراجات کے بارے میں اپنے قارئین سے اپیل کی تھی۔ہمیں خوشی ہے کہ اس کا انتظام ہوگیا ہے ، تمام ٹیسٹ ہوچکے ہیں اور دوایک روز میں علاج شروع ہوجائے گا“

ان کے کالمز پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پشاور کے ناصر جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کی دعائیں انہوں نے لی ہوں گی!

حمید اختر4 جون 1924 میں ضلع لدھیانہ کی ریاست فرید کوٹ میں پیدا ہوئے تھے ، لدھیانہ میں ان کی دوستی ساحر لدھیانوی اور ابن انشاءسے ہوئی۔1946 میں ساحر لدھیانوی انہیں اپنے ہمراہ بمبئی لے گئے ، حمید اختر نے بمبئی کی فلمی دنیا میں بھی قسمت آزمائی کی تھی۔1948 میں بننے والی فلم ’آزادی کی راہ پر‘ میں انہوں نے پرتھوری راج کپور، جے راج اور جگدیش سیٹھی کے ہمراہ ایک کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے مکالمے لکھنے کا کام ساحر لدھیانوی کے ذمے تھا۔ اسی اثناءمیں انہیں فلموں میں کام کرنے کی پیشکش ملنے لگی لیکن حمید اختر نے بمبئی میں مزید قیام نہیں کیا ، برصغیر کی تقسیم کے ہنگامے شروع ہوچکے تھے، وہ پہلے نکودر کیمپ اپنے اہل خانہ کو لینے پہنچے اور انتہائی نامساعد حالات کا شکار رہنے کے بعد بلاآخر لاہور پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ نکودر سے لاہور پہنچنے میں انہیں تین ماہ کا عرصہ لگ گیا ، لاہور میں ان کے مارے جانے کی خبر عام ہوچکی تھی ، وہ سیدھے مکتبہ اردو پہنچے ، مکتبہ کے مالک چودھری نذیر احمد کے پاس حمید اختر کی جوانمرگی پر رضیہ سجاد ظہیراور کرشن چندر کے تعزیتی خطوط پہنچ چکے تھے۔بقول ا حمد سلیم’ ’ نکودر کیمپ حمید اختر کی روح کے نہاں خانے ہی میں نہیں بلکہ ان کی تحریروں میں بھی امر ہوچکا تھا۔‘ ‘

حمید اختر ، ساحر لدھیانوی پر ’اتھارٹی ‘ سمجھے جاتے تھے ، جس قدر وہ ساحر کو جانتے تھے، شاید ہی کوئی دوسرا یہ دعوی کرسکا ہو۔اپنی کتاب ’آشنائیاں کیا کیا‘ میں انہوں نے ساحر لدھیانوی کا بے مثال خاکہ تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں جن مشاہیر ادب کے خاکے شامل ہیں ان میں سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، سید سبط حسن، کرشن چندر، ابن انشائ، اخلاق احمد دہلوی اور ابراہیم جلیس شامل ہیں ۔

کال کوٹھری، لامکاں،احوال دوستاں ، آشنائیاں کیا کیا (احوال دوستاں کا اضافی نسخہ) ، ان کی چند یادگار کتابیں ہیں ۔روداد انجمن کے نام سے ان کی کتاب منظر عام پر آئی جو 1946 سے 1947 تک انجمن ترقی پسند مصنفین ممبئی شاخ کے ہفتہ وار جلسوں کی کاروائی پر مبنی ہے، حمید اختر یہ کاروائی سیکریٹری کی حیثیت سے قلم بندکرتے رہے تھے اور یہ بمبئی کے ہفتہ وار رسالے نظام میں دو برس تک شائع ہوتی رہی تھی۔ بمبئی کے ان سنہرے دنوں اور حمید اختر کو یاد کرتے ہوئے ہندوستانی ادیب رفعت سروش اپنی خودنوشت ’بمبئی کی بزم آرائیاں ‘ (نورنگ کتاب گھر، دہلی، 1986) میں لکھتے ہیں:

”ہفتہ وار نظام کا دفتر ہم چند ادیبوں کا اڈا بن گیا تھا۔ نظام کسی پارٹی کا آرگن نہ ہوتے ہوئے بھی انجمن ترقی پسند مصنفین کا آرگن بن گیا تھا اور اس کی ہفتہ وار میٹنگوں کی تفصیلی رپورٹیں باقاعدگی سے اس میں چھپتی تھیں۔ یہ پرچہ کئی سال تک بڑے کروفر سے چلا۔ اگر آج اس کے فائل کسی کے پاس ہوں تو اس زمانے کی ادبی تاریخ مرتب کرنے میںبڑی مدد مل سکتی ہے۔نظام کے دفتر میں روز شام کو آنے والوں میں ا
براہیم جلیس، ساحر لدھیانوی ، حمید اختر شامل تھے۔ساحر لاہور چھوڑ کر بمبئی آگئے تھے اور ان کے ساتھ ان کے جگری دوست حمید اختر بھی تھے۔حمید اختر نے انجمن کے سیکریٹری کا کام سنبھالا ہوا تھا اور باقاعدہ سچی سچی اور دلچسپ رپورٹ لکھتے تھے۔حمید اختر کی رپورٹنگ میں واقعہ نگاری کا عنصر آجاتا تھا ، اس لیے نہ صرف بمبئی بلکہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں ان رپورٹوں کو دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔“

رفعت سروش کی یہ خواہش کہ انجمن ترقی اردو کی حمید اختر کی تحریر کردہ رپوٹس کبھی شائع ہوسکیں ، کئی برس بعد اس وقت پوری ہوئی جب مذکورہ رپورٹس کتابی شکل میں ’روداد انجمن‘ کے عنوان شائع ہوئیں۔ اس کی تفصیل بھی دلچسپ ہے۔ ہفتہ وار ’ نظام‘ کے مالکان تقسیم ہند کے ہنگاموں کے بعد لا ہور منتقل ہوگئے تھے اور اس دوران نظام کی فائلیں اپنے ہمراہ نہ لاسکے۔ حمید اختر نے ان فائلوں کی تلاش میں خاصا سر مارا لیکن پھر مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ 1995 میں اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران پشاور کے معروف ادیب و شاعر خاطر غزنوی مرحوم نے حمید اختر کو یہ مژدہ سنایا کہ نظام کی دو فائلیں ان کے کتب خانے میں محفوظ ہیں، غزنوی صاحب نے مذکورہ فائلیں 1998 میں حمید اختر کو سونپ دیں اور یوں ’ترقی پسندانہ‘ تاریخ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔

2010 میں لاہور کے ناشر بک ہوم نے ان کی سوانح عمری شائع کی جسے معروف ادیب احمد سلیم نے تحریر کیا ہے ۔

جیل میں قید کی روداد پر مبنی کال کوٹھری نامی ان کی کتاب 1953 میں شائع ہوئی تھی، تاحال اس کے کئی نسخے شائع ہوچکے ہیں۔ کتابی شکل میں اپنی پہلی اشاعت سے قبل یہ داستان امروز میں سرگزشت اسیر کے عنوان سے قسط وار شائع ہوتی رہی تھی۔ ایک ایڈیشن میں حمید اختر نے بھی اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ آخر اس کتاب کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے، اس کا جواب بھی انہوں نے خود ہی پیش کیا، ان کے مطابق پاکستان میں جیلوں کی حالت زار میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ، یہی وجہ ہے کہ ’کال کوٹھری ‘کی مانگ آج بھی اتنی ہی ہے جتنی اس کی پہلی اشاعت کے وقت تھی۔جیلوں میں قیدیوں سے جس طرح کا بہیمانہ سلوک ہوتا ہے اس کا احوال کئی اسیروں نے قلم بند کیا ہے لیکن کتاب مذکورہ کا انداز بیان سب سے جدا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکریٹری مقرر کیے گئے تھے ، یہ وہ زمانہ تھا جب مملکت خداداد پاکستان اس بات کا تعین کرچکی تھی کہ اسے دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے کس کاساتھ دینا ہے، لہذا بیک جنبش قلم، تمام ترقی پسندمصنفین مشکوک قرار پائے۔

دائیں اور بائیں بازو کی بحث میں بہتیرے خوشحال ادیبوں کے معاشی بازو ہی کٹ کر رہ گئے!

کال کوٹھری اس قید کی روداد ہے جب حمیداختر کو ’سیفٹی ایکٹ‘ کی دفعہ تین کے تحت گرفتار کرکے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔

کال کوٹھری سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

” جمعدارنے تالہ کھولا ، میں دروازے سے گزرتا ہوا احاطے میں داخل ہوا، ایک مٹکا پانی، ایک مٹی کا لوٹا، ایک پیالہ اور کجھور کی ایک چٹائی میرے حوالے کرکے جمعدار نے دروازہ بند کردیا اور باہر سے تالہ لگا دیا۔ احاطہ میں ایک چھوٹا کمرہ تھا۔ لطف یہ ہے کہ کمرے میں سلاخوں والے جنگلہ کا دروازہ تھا مگر احاطہ کا دروازہ لکڑی کے دو پٹ کا دروازہ تھا جس میں سے کچھ دکھائی بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اس چار دیواری میں چٹائی بچھا کر، مٹی کے لوٹے کو سامنے رکھ کر جب میں لیٹا تو پہلی بار اس تنہائی کے احساس نے مجھے ڈس لیا اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن انہیں پیتے ہوئے جیسے میں نے اپنے آپ سے مذاق کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہا ، حمید اختر! اگر کھجوریں بھی ہوتیں تو شاید تم پیغمبر ہوجاتے۔“

حمید اختر کی کتاب ’آشنائیاں کیا کیا ‘ اردو ادب سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات سے متعلق لاتعداد دلچسپ واقعات کا مرقع ہے۔ 1988 میں احوال دوستاں شائع ہوئی اور جلد ہی اس کا ایک بھی نسخہ فروخت کے لیے باقی نہ رہا ، چند برس بعد ’آشنائیاں کیا کیا ‘منظر عام پر آئی جس میں سید سجاد ظہیر، اخلاق احمد دہلوی اور ابراہیم جلیس کے خاکے شامل کیے گئے تھے۔

’آشنائیاں کیا کیا ‘ میں حمید اختر، اخلاق احمد دہلوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

” مارچ کا مہینہ لاہور میں آمد بہار کا پیغام لاتا ہے، چیت کی ہوائیں درختوں سے لپٹ کر موسم سرما کے خاتمے کا اعلان کرتی ہیں۔ ایسے موسم میں مارچ 1992 کے وسط میں تین آدمی لاہور کے بہت سے قبرستانوں میں سے ایک قبرستان میں دفنانے کے لیے ایک میت لے کر پہنچے،گورکن نے ان کی طرف غور سے دیکھا، دیکھنے میں وہ اچھے بھلے شریف آدمی نظر آرہے تھے مگر اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس شہر میں کوئی جنازہ اتنا چھوٹا اور کوئی آدمی اتنا بے وقعت ہوسکتا ہے کہ اس کے آخری سفر کے لیے صرف تین آدمی اس کی میت لے کر قبرستان پہنچیں۔

” آپ کسی کو قتل کرکے لاش دفنانے تو نہیں لائے“ ۔ گورکن نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا

جب اسے یقین دلایا گیا کہ جنازے کے اس مختصر جلوس میں متوفی کے صاحبزادے جو ایک اعلٰی سرکاری افسر ہیں، شامل ہیں تو اس نے رسمی خانہ پری کی اور مقرر فیس وصول کرکے لاش کو دفنانے کے انتظامات کردیے۔

لاہور کی خاک نے کھلتے ہوئے پھولوں اور بہار کی خوشیوں سے لبریز اس دن جس میت کو اپنی آغوش میں سمیٹا وہ تہتر برس پہلے دلی میں پیدا ہونے والے سر تا پا دہلوی اخلاق احمد تھے۔ “

ابراہیم جلس کے خاکے میں لکھتے ہیں کہ وہ انتہائی باغ و بہار شخصیت تھے، کتنی ہی سنجیدہ محفل ہو اس کے آتے ہی اس کا رنگ بدل جاتا تھا۔ کسی محفل میں ایک صاحب کوئی بہت ہی خطرناک قصہ بیان کررہے تھےاور کہہ رہے تھے کہ وہ منظر دیکھ کر ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

” تو پھر کیسے بٹھائے رونگٹے آپ نے “ ۔ جلیس نے پوچھا اور قصہ بیان کرنے والے کی بات ختم ہوگئی۔

ابن انشاء، اے حمید اور حمید، دونوں ہی کے بے تکلف دوست تھے۔اے حمید صاحب نے تو ابن انشاءپر ایک کتاب بھی لکھی ہے جو 1979 میں لاہور سے شائع ہوئی تھی ۔ ’آشنائیاں کیا کیا ‘میں حمید اختر نے انشاءجی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ایک دانشور بیوہ خاتون کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے اور اسے بری طرح دل دے بیٹھے تھے۔یہ سلسلہ دو برس چلا اور اس کے بعد ایک دلچسپ واردات ہوگئی۔یہ واردات کیا تھی، آئیے حمید اختر کے الفاظ میں پڑھتے ہیں :

” میں سبط حسن کو لے کر ان خاتون کے گھر پہنچا، سخت سردی کا موسم تھا، ہم ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے، خاتون لباس تبدیل کرنے اندر گئی ہوئی تھی، وہاں خفیہ پولیس کا ایک اعلی افسر بیٹھا تھا جو عمر میں اس خاتون سے چھوٹا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، میں اس افسر کو جانتا تھا، وہ سرخ و سفید رنگت والا ایک خوبصورت شخص تھا۔ میرے بیٹھتے ہی اس افسر نے مجھ سے سوال کیا:
” یہ ابن انشاءکون ہے اور یہ نام کیا ہے ؟ “

میں نے مختصرا ابن انشاءکا تعارف کرایا اور نام کے فارمولے کا بھی تذکرہ کیاکہ اس کا نام شیر محمد ہے مگرچونکہ اس کے والد کا نام منشی خان ہے جو انشاءسے مشتقق ہے، لہذا اس نے یہ فیشن ایبل نام رکھ لیا۔

یہ صاحب (افسر)دو منٹ تک خاموش رہے ۔پھر انہوں نے اپنی بھوری مونچھوں کو تاؤ دیا اور خود کلامی کے انداز میں گویا ہوئے:

” اچھا شیر محمد ولد منشی خان، میں تجھے تجھ سے بھی سمجھ لوں گا۔“

میں نے (حمید اختر) اس کی تفصیل ابن اشاءکو بتائی تو پہلے تو اس نے ہنس کر ٹال دیا، پھر بہت پریشان ہوا ، کہنے لگا: ” یار یہ رقیب سرخ رو تو چھ مہینے کے لیے نظر بند بھی کرسکتا ہے۔“
اس کے بعد اس گھر میں ابن انشاءکی آمدورفت ختم ہوگئی۔

غرض ’آشنائیاں کیا کیا ‘ اردو ادب کی آبروکہلائے جانے والی شخصیات سے متعلق رنگا رنگ واقعات سے بھرپور ایک پورے عہد کو اپنے اندر سموئے ہوئی ہے اور ایک بلاشبہ ایک ایسی کتاب کہلائے جانے کی مستحق ہے جو ہمیشہ اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

اے حمیدنے اپنے دوست حمید اختر کا خاکہ تحریر کیا تھا، یہ اے حمید کی کتاب ’گلستان ادب کی سنہری یادیں ‘ میں شامل ہے ، وہ لکھتے ہیں:

” حمید اختر ان دنوں امروز اخبار میں کام کرتا تھا، اس کے بڑے بھائی نے سنت نگر میں مکان الاٹ کروالیا تھا، ہم اکثر وہاں چلے جایا کرتے تھے۔مکان کی پہلی منزل میں بازار کے رخ ایک چھوٹا سا دیوان خانہ تھا۔ہم وہاں بیٹھ کر چائے پیتے۔حمید اختر کی گفتگو کا انداز سادہ، بے لاگ اور شگفتہ ہوتا۔ آواز پرجوش اور زندگی سے بھرپور ہوتی۔ اس کے افکار، اس کی ساری شخصیت، ایک خاص نظریے کے رنگ میں رنگے ہوتے تھے۔وہ اپنے فکر اور عمل میں یک جان تھا۔ زمانہ سازی اور مصلحت کوشی اسے بالکل نہیں آتی تھی۔“

پاکستان بننے کے بعد بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، لاہور میں سیلاب آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سنت نگر کی گلیاں سات سات فٹ پانی میں ڈوب گئیں۔ کسی نے آواز لگائی کہ حمید اختر کے اہل خانہ سیلاب میں پھنس گئے ہیں، سید سبط حسن نے یہ سنتے ہی پانی میں چھلانگ لگائی اور اپنے نفیس پائپ اور کلف لگی سفید براق قمیض کے ہمراہ تیرتے ہوئے اس طرف چلے!
اے حمید لکھتے ہیں کہ حمید اختر کے لیے سبط حسن کی محبت میں کھوٹ نہیں تھا !

اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ جناب اے حمید نے بھی تمام عمر قلم کی مزدوری کی اور بدقسمتی سے آخری دنوں میں وہ بھی بیماری اور اپنے معاشی حالات، دونوں سے جنگ کرتے نظر آئے ۔ حمید اختر 2010 میں ایک روز اپنے دوست اے حمید سے ان کی بیماری کے دوران ملاقات کر نے گئے اور ان کی دگرگوں معاشی حالت دیکھ کر خاصے پریشان رہے، اپریل 2011 میں اے حمید انتقال کرگئے۔ اس سانحے پر حمید اختر اپنے کالم میں لکھتے ہیں:

” اے حمید ہمارے ان دوستوں میں شاید آخری تھا جن کے ساتھ ہم نے اس نئے ملک میں نئی زندگی کا آغاز کیا تھا۔1948-49 کا زمانہ ہم کیسے بھول سکتے ہیں جب احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری، قتیل شفائی، احمد راہی، اے حمید، صفدر میر،عبداللہ ملک اور بہت سے دوسرے لکھنے والوں سے ہمارا روز مرہ کا ساتھ رہتا تھا۔احمد راہی ہوں، صفدر میر ہوں، حمید اختر ہوں یا اے حمید، ان میں سے کسی نے بھی شاید ہی کوئی پلاٹ الاٹ کرانے کی کوشش کی ہو۔گزشتہ تین برس سے وہ (اے حمید)گوشہ نشین تھا، وہ ایک نہایت بھولا بھالا انسان تھا، ایک اخبار میں برسوں کالم لکھا مگر معاوضہ کبھی پورا نہ پایا۔شروع میں اسے اپنے کالم کے تین سو اور بعد میں پانچ سو روپے ملتے تھے۔ساتھ آٹھ برس پہلے جب ہم نے ایکسپریس جوائن کیا تو اس وقت کے ایڈیٹر سے اے حمید کو ملنے والے کم معاوضے کی بات کی، ایڈیٹر صاحب نے ہمیں فورا اس سے ملنے او ر ہفتہ وار کالم لکھنے کا کہا اور ایک کالم کے پانچ گنا زیادہ معاوضے کی پیشکش کی ،ہم اے حمید کے گھر پہنچے اور اسے اس پیشکش سے آگاہ کیا مگر مروت کے اس مجسمے نے معذرت کرتے ہوئے کہا، یار حمید اختر تمہارا بہت بہت شکریہ ، مگر میں برسوں سے جس اخبار سے منسلک ہوں اس سے علیحدہ ہونا کچھ درست نہیں لگتا۔“

ایکسپریس اخبار کا کالم حمید اختر کو ان کے قارئین سے رابطے میں رکھتا تھا۔ ان کالمز کے ذریعے وہ اپنے پڑھنے والوں کو اپنی یادوں میں شریک رکھتے تھے۔ 17 ستمبر2011 کے کالم میں لکھتے ہیں:

” پاکستان نیا نیا بنا تھا، کراچی میں ہم نے اسٹیٹ بینک کی تقریب میں اس وجہ سے شرکت کی کہ وہاں خطاب کے لیے قائد اعظم نے آنا تھا، وہ اسٹیج پر آئے تو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے، افسانہ نگار انور نے خدشہ ظاہر کیا کہ قائد اعظم ڈیڑھ دو مہینوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ اس بات کے بعد ہم لاہور آگئے۔لاہور میں ہمارا اڈہ ، ابن انشاءکا پگوڈا نامی گھرہوا کرتا تھا، ان محفلوں میں حفیظ قندھاری نامی ایک فوٹو گرافر بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ اخباری تصویر بنانے میں کافی مہارت رکھتا تھا مگر اس کی زیادہ تصویریں نیگیٹو تک ہی محدود ہوا کرتی تھیں۔ دوست اسے عام طو پر نیگیٹو فوٹو گرافر کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ ان محفلوں میں ہم قائد اعظم کی بیماری کا بھی ذکر کیا کرتے تھے، قائد اعظم کی بیماری کا سن کر حفیظ نہ صرف بے تحاشا غصے میں آیا بلکہ ہمیں بہت برا بھلا بھی کہتا رہا۔چند دنوں بعد گیارہ ستمبر کو قائد اعظم وفات پا گئے۔ہم سو رہے تھے کہ حفیظ قند ھاری غصے اور صدمے سے گھبرایا وہاں پہنچا اور اس نے زور زو رسے بولنا شروع کردیا۔وہ تقریبا گالیاں دے رہا تھا اور ہماری کالی زبان پر لعنت بھیج رہا تھا جیسے کہ قائد اعظم کی وفات کے ہم ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں ۔ ایبٹ روڈ کی اس سینما والی سڑک پر صبح صبح ایک ہجوم اکھٹا ہوگیا، لوگوں نے بڑی مشکل سے حفیظ قندھاری کو وہاں سے چلتا کرکے ہمیں رہائی دلائی۔اس بے چارے کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہمیں قائد اعظم کی رحلت کاشاید اس سے زیادہ صدمہ تھا۔ “

’اپنے کالم امرتسر میں چھ گھنٹے میں حمید اختر لکھتے ہیں:

” گولڈن ٹیمپل دیکھنے گئے تو اس مقدس مقام کے دروازے سے کوئی پچیس گز پہلے ایک بہت بوڑھے سکھ نے جس کے ہاتھ میں کڑاہ پرشاد کا ڈونا تھا، مجھے اور احمد سلیم کو پکڑ کر سرگوشی کے انداز میں پوچھا ’ کتھوں آئے او ؟ ‘، جب ہم نے لاہور کا نام لیا تو اس نے کڑاہ پرشاد کا ڈوناوہیں ہجوم کے درمیان زمین پر رکھ دیا ، ہم سے بغلگیر ہوا اور روتے ہوئے بولا ’ اوے میں سید مٹھا بازار دا آں، ظالمو، میرے نال دو اکھر (الفاظ) تاں بول لﺅ۔‘

حمید اختر1996 میں کینسر کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے اور ایک طویل عرصے سے ان کا علاج جاری تھا، اپنے کالمز میں وہ اس بارے میں کبھی کبھی لکھ دیا کرتے تھے ، اپنا آخری کالم انہوں نے 20 ستمبر 2011 کو لکھا ، عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ کالم کا عنوان ’ جنم بھومی کی طرف‘ رکھا، یہ کالم اخبار سے ان کی آٹھ سالہ رفاقت کا اختتام ثابت ہوا،اپنے اس کالم میں یہ خوددار انسان قدرے مایوس نظر آیا:

” اپنی صحت کی طرف سے ہم خاصے مایوس ہوچکے ہیں اس لیے شایداب کالم نویسی ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔یہ درست ہے کہ ہم نے آٹھ سال اس اخبار کی خدمت کی ہے اور کراچی سے باہر آنے کے بعد اس کی اشاعت بڑھانے میں پوری پوری مدد بھی کی مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اب بغیر کام کیے معاوضہ وصول کرتے رہیں۔اب تک ہم نے قارئین کے اصرار پر اور کچھ اپنے علاج کی مجبوری کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری رکھا مگر اب یہ بیماری اتنی لمبی ہوگئی ہے کہ اب اسے جاری رکھنا شاید ممکن نہ ہو، بہرحال اس کا فیصلہ یہ مہینہ گزرنے کے بعد ہوگا ۔“

لیکن ہوا یہ کہ ستمبر کا مہینہ بھی گزرا اور حمید اختر بھی گزر گئے!

اس وقت جب یہ سطور سپرد قلم کی جارہی ہیں، منصب اقتدار پر فائز اعلی شخصیات نے وہ تعزیتی بیان جاری کردیا ہے جسے انہوں نے دو روز قبل ادیب منشا یاد کے انتقال کے وقت بھی جاری کیا تھا ، وہ جسے ایسے تمام موقعوں پر بلاتاخیر جاری کردیا جاتا ہے، اور جو قیام پاکستان کے وقت سے سرکار کی فائلوں میں سب سے نمایاں جگہ رکھتا ہے ۔ فی الفور یہ بیان جاری کیے جانے سے پہلے اگر ہمارے اہل قلم کو درپیش معاشی مصائب کا جائزہ لیے جانے کی بھی روایت ہوتی تو بہتیرے دم توڑتے خودار و نادار ادباءو شعراءکی زندگی بچا ئی جاسکتی ہے۔ اگر یہ توجہ بروقت دی جاتی تو لاکھوں افراد کے محبوب مصنف اے حمید، 2010 میں لاہور کی جان لیوا گرمیوں میں اپنے کمرے میں بغیر ائیر کنڈ شنر کے، محض اس لیے اذیت میں نہ پڑے رہتے کہ ان کے پاس بجلی کا بل دینے کے پیسے نہیں تھے!
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300395 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.