مجاہدِ آزادی شہید اشفاق اللہ خانؒ کی یاد میں

22اکتوبر 2011 کو متحدہ ہندوستان کے عظیم مجاہد آزادی کا 111 واں یومِ پیدائش ہے انہیں خراجِ محبت پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ نئی نسل کو ان کے ان کارناموں سے روشناس کرایا جائے جس کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے۔۔۔۔۔کیسے وہ لوگ تھے جو اس راہ گزر سے گزرے

میری یہ ناقص تحریرشہید وطن محمد اشفاق اللہ خان ؒ کی یاد میں پیشِ ہے جن کی خدمات کو فراموش کرتی یہاں کی اکثریت چاہتی ہے کہ اس ملک کے لیے دی گئی ملت اسلامیہ کی قربانیوں کا ذکر بھی تاریخ سے ختم کردیا جائے یہی وجہ ہے کہ ملک کا تعلیمی ڈھانچہ اس طرح ترتیب دیا جارہا کہ اس میں مسلمانوں کی خدمات کو یکسر فراموش کردینے کی پوری گنجائش ہے۔ گریجویشن کی تعلیم تک بھی ایسے مجاہدین کا ذکر شاذ ونادر ہی کیا جاتا ہے،جن کے ذکر کے بغیر اس ملک کی تاریخ اور ملک کے لوگوں کی داستان شجاعت ادھوری رہے گی۔جس کے بارے میں 1947 میں مولانا آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے مسلمانان ہند کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”یہ ملک ہمارا ہے ہم اس کے لئے ہیں اس کی تقدیر کے ہر فیصلے ہمارے بغیر ادھورے رہیں گے۔آج وہی کچھ مسلمان تو نہیں ہاں البتہ حکومتی مشنریاں مسلمانوں کا نام و نشان ہر جگہ سے مٹادینا چاہتی ہیں ۔اس مجاہد آزادی کے ساتھ بھی جس کا نام اشفاق اللہ خان ؒ ہے جس نے ملک عزیز کی تاریخ میں مسلمانان ہند کا نام اپنے خون سے لکھا۔لیکن آزاد ہندوستان کے ذہنی طور پر غلام تاریخ داں وہی سلوک اس مجاہد آزادی کے ساتھ بھی روا رکھے ہوئے ہیں جیسا وہ سلطنت ِ غلامان کے عظیم سلاطین ، مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگ زیب اور سپوتِ ملک و ملت حضرت فتح محمد ٹیپو سلطان ؒکے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔لیکن کیا تاریخ پر دھول ڈالنے والے کو عقل مند کہا جاسکتا ہے،یا انکی یہ مذموم کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے اپنے خون سے تاریخ عالم میں اپنا نام درج کرایا ہو یا اپنے خون سے انقلاب برپا کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہو وہ مانند آسمانی ستاروں کے تاقیامت جگمگاتے رہیں گے اور دنیا کے لوگوں کو حریت و آزادی کی تحریک دیتے رہیں گے۔

مسلم دشمنی میں یہاں کی فرقہ پرست ذہنیت عظیم مجاہدینِ آزادی چاہے وہ 1857 کے مجاہدین ہوں یاسلطنت مغلیہ کے آخری فرمان روا بہادرشاہ ظفر ، حضرت بیگم محل، علی برداران اورنہ جانے کتنے ہیں جنہوں نے اخلاص کی نادر و نایاب مثالیں پیش کی ہیں جس کی مثالیں تواریخ عالم میں خال خال ہی ملتی ہیں۔ انہوں نے اس وطن کی آزادی کے لےے خود کو فنا کردیا ،جس کی آبیاری انہوں نے ہمیشہ اپنے خون سے کی تھی ۔خود تو گمنامی میں کھو گئے لیکن اپنے ملک کو انگریز جیسے بد ترین سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا۔ تاریخی کتب کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ 1857 کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد دلی نے وہ قتل و غارت گیری کامنظر دیکھا کہ اس کی زمین نادرشاہی دور کو بھول گئی اکیلے دلی شہرمیں ہی تقریبا ً 12000 مسلمانوں کو پھانسی دی گئی ۔پھانسی کے پھندے کم پڑنے لگے تو شہر کے پیڑوں کو صولیوں میں تبدیل کردیا گیا۔ جو لوگ انگریزی حکومت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گئے وہ الگ ۔

اپنی جان کی قربانی دے کر اس ملک کی جھولی میں آزادی کی نعمت ڈالنے والے اہلِ ایماں کی صف کے ایسے ہی ایک عظیم سپاہی اشفاق اللہ خان ہیں۔ اردو کے قارئین کی خدمت میں انکے یہ کارنامے مختصراً پیش ہیں کہ انہیں بھی ادراک ہو کہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے اسلاف کارنامہ سب سے بڑھ کر ہے وہ شکست خوردگی کا شکار نہ ہوں بلکہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو تاریخ کو صفحات میں ڈھونڈیں اور لوگوں کو فخریہ بتائیں کہ انکے اسلاف کی قربانیوں کے بغیر ملک کبھی آزاد نہیں ہوتا ۔

اشفاق اللہ خانؒ کی پیدائش شاہجہاں پور (اترپردیش) کے معزز گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام شفیق اللہ خان اور والدہ کا نام مظہرالنساءبیگم تھا۔ اشفاق اللہ خان ؒکے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اشفاق اللہ خان اپنے چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ انکے بڑے بھائی ریاست اللہ خان رام پرساد بسمل کے ہم جماعت تھے وہ اشفاق اللہ خان کو اکثر رام پرساد بسمل کی شاعری اور انقلابی کاروائیوں کے قصے سنایا کرتے تھے جس سے اشفاق اللہ خان کے دل میں بسمل سے ملنے کی خواہش پنپنے لگی۔ اشفاق اللہ خان انقلابی فکرو کردار کے ساتھ ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے تھے۔ اپنے کلام میں وہ ”وارثی“ اور ” حسرت“ کا تخلص استعمال کرتے تھے۔

اشفاق اللہ خان بچپن ہی سے مجاہدینِ آزادی سے کافی متاثر تھے ان میں عمر کے ساتھ جذبہ حب الوطنی پروان چڑھتا گیا۔ عمر کے 20ویں سال میں قدم رکھتے رکھتے اشفاق اللہ خان اپنے ملک کو انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزاد کرانے ، اور اس کے لیے جان دینے کا تہیہ کر چکے تھے۔ جس کے لیے جلد ہی آپ اپنے شہر اور اس دور کے ایک بڑے انقلابی ” رام پرساد بسمل “ سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

بسمل سے رابطہ میں آتے ہی آپ عملی جدوجہدِ آزادی میں سرگرم ہوگئے۔ جن دنوں مولانا محمد علی جوہرؒ خلافت تحریک چلا رہے تھے جس نے آگے چل کر تحریک ِ عدم تعاون کی شکل اختیا ر کرلی تھی۔ تب بسمل اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ ملکر آپ اس تحریک کے بارے میں عوام کو واقف کرانے اور آزادی کی جدوجہدکے لیے انہیں بیدار کرنے میں مصروف ہوگئے۔اس دور میں آزادی کی جدوجہد تو درکنا ر آزادی کا خواب دیکھنا بھی برطانوی حکومت کے ظلم کو دعوت دینا تھا۔ اشفاق اللہ خان بھی حکومت کی نظروں میں آنے سے نہیں بچ سکے اور یہ مرد مجاہد جس کے سینے میں شاہین کا جگر تھا حکومت کے باغیوں میں شامل ہوگیا۔

1922 میں تحریک عدم تعاون کے دوران” چوری چورا“کا پر تشدد واقعہ پیش آیا جسکے بعد گاندھی جی نے خلافت تحریک کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ یہ عجیب المیہ تھا کہ جس تحریک کو مولانا محمد علی جوہر ؒدنیا بھر کے مظلوم و مجبور استحصال زدہ لوگوں کی خاطر چلا رہے تھے تاکہ خلافت کو قائم رکھا جائے عین عروج کے وقت گاندھی جی جنھوں نے نہ صرف یہ کہ اسکی حمایت کی بلکہ آگے بڑھ کر اس میں عملی حصہ لیا اور اسی تحریک کی وجہ سے انہیں مسلمانوں نے مہاتما کے عظیم الشان القاب سے نوازا اسی تحریک خلافت نے آگے چل کر تحریک عدم تعاون کی شکل اختیار کی،کی منسوخی کا اعلان کردیا۔لیکن مولانا محمدعلی جوہرؒاور مولانا شوکت علیؒ نے اسکے باوجود گاندھی سے قطع تعلق نہیں کیا ہندوستان میں مسلمانوں پر غداری کا الزام لگانے والے دیکھیں کہ کس طرح مسلمانوں نے اپنے سب سے عظیم مقصد(تحفظ و حصولِ خلافت) کے لےے لڑی جانے والی لڑائی میں بھی گاندھی جی کی مرضی کو تسلیم کرلیا ۔ملک کے اتحاد کے لیے قربانی کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہوگی۔

تحریک عدم تعاون کی منسوخی سے پر جوش انقلابیوں میں ایک بے چینی پید ا ہوگئی اور کئی انقلابیوں نے اعتدال کی راہ چھوڑ کر مسلح جدوجہد کو اپنا لیا۔ اشفاق اللہ خان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان سے جا ملے اور حصول آزادی کے لےے مسلح جدوجہد کو اپنا مقصد بنالیا۔

کاکوری کا پر عزم واقعہ (1925) :
مسلح جنگِ آزادی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلحہ جات کی فراہمی اور اس کے لیے کثیر رقم کی حصول یا بی کا تھا۔ انقلابیوں نے طئے کیا کہ برطانوی حکومت پچھلی تین صدیوں سے ہندوستان کو لوٹ رہی ہے چنانچہ یہ رقم برطانوی حکومت کو لوٹ کر حاصل کی جائے گی۔اس مقصد کے تحت انقلابیوں نے 8 اگست 1925 کو ایک خفیہ نشست لی اور 9 اگست 1925 کو کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی 8 ڈاﺅن سہارنپور۔لکھنو پسنجر ٹرین روک کر خزانہ لوٹ لیا ۔ اس ساری کاروائی میں اشفاق اللہ خان نے اکیلے ہی چھلنی اور ہتھوڑے کی مدد سے آہنی تجوری کو تو ڑ ا۔ اس مہم کی سربراہی انقلابیوں کے سردار رام پرساد بسمل نے کی ۔ اس مہم میں بسمل اور اشفاق اللہ خان کے علاوہ دیگر8 انقلابی بھی شامل تھے۔

کاکوری واقعہ تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج ہوا۔یہ واقعہ انگریزوں کی طاقت انکے غرور و گھمنڈ پر ایک کاری ضرب تھا ۔جس سے برطانوی حکومت بوکھلا اُٹھی۔ ہندوستان میں موجود برطانوی وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے فوراً اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس محکمے کو تفتیش کے لیے نامزد کیا ۔ خفیہ پولیس نے مہینے بھر ہی میں اس واقعہ میں ملوث انقلابیوں کو شاہجہاں پور سے گرفتا ر کرلیا۔ اشفاق اللہ خان گرفتاری سے بچ کر کسی طرح روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے۔بنارس پہونچ کر وہ ایک انجنیئرنگ کمپنی میں ملازمت کرنے لگے۔ وہ رات دن اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ملک سے باہر جاکر لالہ ہردیال سے ملیں۔

لالہ ہردیا ل ان دنوں امریکہ میں مقیم تھے اور اپنے ذاتی افکار کی تحریر و تقاریر کی مدد سے عوام میں تبلیغ کررہے تھے۔ شروعاتی دور میں لالہ ہردیال کمیونزم سے خاصے متاثر رہے۔اشفاق اللہ خان لالہ ہردیال سے ملکر انھیں آزادی وطن کی سرگرمیوں میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہی سے ملنے کی خاطر اشفاق اللہ خان بنارس سے دلی آئے تاکہ جلد ملک سے باہر جاسکیں۔لیکن جن میر جعفروں اور میر صادقوں نے ملک کو انگریزی سامراج کے پنجہ استبداد کا اسیر بنایا تھا ، وہ یہاں بھی اشفاق اللہ خان کے تعاقب میں تھے ان کے ایک پٹھان دوست نے سیاہ بختی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کروادیا۔اس طرح تاریخ ہند و تاریخ امت میں ایک اور میر جعفر اور میر صادق کا اضافہ ہوا۔ اشفاق اللہ خان فیض آباد جیل روانہ کردیے گئے جہاں پر انکے خلاف قتل ، ڈکیتی اور حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایاگیا۔

اشفاق اللہ خان کے بھائی ریاست اللہ خان نے کرپا شنکر ہجیلہ کو ان کے مقدمے کی پیروی سونپی کرپاشنکر صاحب نے مقدمے میں کوئی کثر نہ چھوڑی، لیکن برطانوی ظالم حکومت نے عدالتی کاروائی محض خانہ پوری کے لیے کی تھی چنانچہ انھیں سزائے موت سنائی گئی۔

کاکوری سازش کے تحت برطانوی حکومت نے اشفاق اللہ خان ، رام پرساد بسمل، راجندر لہری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو سزائے موت اور دیگر 16 انقلابیوں میں سے چار کو سزائے عمر قید و باقی کو چار سال کے لےے قید بامشقت کی سزا تفویض کی گئی۔

مقدمے کے دوران انگریزوں نے اشفاق اللہ خان کو سرکاری گواہ بنانے اور رام پرساد بسمل کے خلاف گواہی دینے کے لیے رضامند کرنے کی خاطر پولیس انسپکٹر تصدق حسین کو نامزد کیا جس نے اشفاق اللہ خان کو مذہب کا واسطہ دے کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو جو ایک ہندو کا ساتھ دے رہے ہو جو اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں اس کے جواب میں اشفاق اللہ خان نے کہا کہ رام پرساد کا ہندو راشٹر آپ کے برطانوی حکومت سے بہتر ہوگا ۔ لیکن آزادی کے بعد ان سب قربانیوں کو بھلا کر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے دیکھیں کہ اس ملک کی آزادی کس کی قربانیوں کی محتاج رہی۔ اگر اس ملک میں اشفاق اللہ خان ، مولوی عنایت اللہ ، جوہر بردارن جیسے مادر وطن پر مٹنے والے پیدا نہیں ہوتے تو کیا آج وہ جو ہندو راشٹر کا خواب دیکھ رہے ہیں کیاوہ اُسے دیکھنے کے قابل بھی تھے ؟جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جب ملک میں آزادی کی جنگ جاری تھی یہی ہند وراشٹر کا نعرہ دینے والے انگریزوں کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے۔کسی نے انگریزوں کے لئے جاسوسی کے فرائض انجام دئے تو کسی نے معافی مانگ کر انگریزوں سے وفاداری نبھائی ۔لیکن مذکورہ دونوں اشخاص ہماری پارلیمنٹ میں رونق افروز ہوئے ایک اس ملک کی بدنصیبی کی علامت بنے اور وزیر اعظم ہند جیسے عہدہ تک گئے اور پورے چھ سال وزارت اعظمیٰ کو اپنی بزدل شخصیت سے داغدار کیا ۔دوسرے کی قد آدم تصویر پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں نسب ہے۔اور ہندوراشٹر کے دہشت گرد اسکے نام کے آگے ویر (بہادر) کا لفظ لگاتے ہیں۔کیا ایسے شخص کو بہادر کہا جائے گا جس نے قید و بند کی صعوبتوں سے گھبراکر انگریزوں سے معافی مانگی ہو اور نہ صرف معافی مانگی ہو بلکہ انگریزوں سے وفاداری بھی نبھائی ہو۔

جن لوگوں نے اشفاق اللہ خان کو اسیری کے زمانے میں دیکھا ان کا بیان ہے کہ جیل میں بھی اشفاق اللہ خان پابندی سے پانچوں وقت کی نماز ادا کرتے اور روزانہ تلاوت قرآن بھی کرتے۔یہ قرآن ہی کا اعزاز ہے کہ وہ انگریزوں کی چالوں میں نہیں آئے ۔اور انہوں نے سرکاری گواہ بننے کی انگریزوں کی درخواست کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔بھلا ایک شاہین صفت کرگس کے پھندوں میں کب آنے والا تھا۔

ایک دفعہ جب اشفاق اللہ خان نماز پڑھ رہے تھے تب کچھ انگریز افسر وہاں آئے ان میں سے ایک نے اشفاق اللہ خان پر فقرہ کسا کہ ’ دیکھتے ہیں جب ہم اس چوہے کو پھانسی پر لٹکائیں گے اس کا مذہب اور اس کی یہ عبادت اس کو کیسے بچائے گی‘ اس پر اشفاق اللہ خان نے بالکل دھیان نہ دیا اور اپنی نماز میں مشغول رہے مانو انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ اس پر وہ انگریز افسر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلاگیا۔

19 دسمبر 1927ءکو اشفاق اللہ خان تختہ دار کی طرف اس شان سے کوچ کرنے لگے کہ انکا ہر قدم دوگنا فاصلہ طے کرتا، اس درمیان وہ کہہ رہے تھے کہ” مجھ پر جو قتل کا مقدمہ چلایا گیا وہ جعلی ہے۔میرا یقین اللہ پر ہے وہ ہی مجھے انصاف دے گا۔ پھانسی کی جگہ پر پہنچتے ہی پھندے کو بے ساختہ چوم لیا۔کچھ دیر تک اللہ رب العزت سے دعائیںکرتے رہے پھر کلمہ طیبہ کا مسلسل ورد کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پھندا کسا گیا اور آپ شہید ہوگئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون

اشفاق اللہ کے خانؒ کے اقوال:-
اشفاق اللہ خان ؒ مجاہد آزادی کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ اپنا کلام وارثی اور حسرت کے تخلص سے لکھتے تھے۔ زمانے اسیری میں انہوں نے فیض آباد جیل میں ایک ڈائیری بھی قلم بند کی اور کچھ نصیحتیں اپنے دوست واحباب اور رشتہ داروں کے نام لکھے گئے خطوط میں کیں۔ ذیل میں اشفاق اللہ خان ؒ کے انہی اقوال کوقارئین کے لیے مختصر اً پیش ہے ۔
٭حب الوطنی اپنے ساتھ بے شمار تکالیف و مصیبتیں لے کر آتی ہے مگر جس شخص نے اسے اپنے لیے چن لیااسکے لیے یہ ساری مصیتیں و تکالیف راحت و سکون بن جاتی ہیں۔
٭میں نے سب کچھ وطنِ عزیز کی محبت میں برداشت کرلیا۔
٭میری کوئی خواہش نہیں میرا کوئی خواب نہیں ، اگر وہ ہے تو صرف اتنا کہ اپنی اولاد کو بھی اسی جذبے کے تحت لڑتے دیکھوں جسکے لےے میں قربان ہو رہا ہوں۔
٭میرے احباب و اقربا میرے لیے رو رہے ہیں اور میں وطنِ عزیر کے لیے رو رہا ہوں۔
٭اے میرے بچوں مت رونا، ائے میرے بزرگان مت رونا ، میں زندہ ہوں، میں زندہ ہوں۔
(کل یگ کے دیوتا: ودیا رنو شرما)

اشفاق اللہ خان ؒ کے اشعار :
زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرت
تیرا جینا ، تیرے مرنے کی بدولت ہوگا
کچھ آرزو نہیں ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاک ِ وطن کفن میں

درج ذیل تحریر اشفاق اللہ خان شہید ؒ نے اپنے رشتہ داروں کو لکھے اپنے آخری خط میں لکھی:
کیے تھے کام ہم نے بھی جو کچھ بھی ہم سے بن پائے
یہ باتیں تب کی ہیں آزاد تھے اور تھا شباب اپنا
مگر اب جوکچھ بھی امیدیں ہیں وہ تم سے ہے
جواں تم ہو لب بام آچکا ہے آفتاب اپنا
۔ ۔ ۔ ۔
غالباً ایسے مرد مجاہد کے لئے کسی شاعر نے یہ خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ۔۔۔۔
یہ قدم قدم بلائےں یہ سواد کوئے جاناں
جسے زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائے
Abdul Muqeet Abdul Qadeer
About the Author: Abdul Muqeet Abdul Qadeer Read More Articles by Abdul Muqeet Abdul Qadeer: 8 Articles with 12838 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.