نو گیارہ + دس

ڈاکٹر فوزیہ چوہدری

نائن الیون کے حادثے کو ہوئے دس برس بیت چکے ہیں لیکن امریکہ کا غصہ ہے کہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آرہا۔انہوں نے یکے بعد دیگرے افغانستان اور عراق پر حملے کیے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔وطن عزیز پاکستان سے بھی انہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی بلکہ اسے بھی اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دو چار کردیااور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ کرجہاں اپنے عوام کو معاشی مشکلات میں مبتلا کیا وہاں مسلم ممالک کے عوام میں بھی غم و غصے اور نفرت کو ہوا دی۔

اگر یہ کہا جائے کہ نائن الیون کے بعد دنیا ایک نئے تاریخی دور میں داخل ہوئی ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ اس جنگ نے جہاں اور بہت کچھ بدلا وہیں بہت سی باتوں کے پرانے مفاہیم اور تصور بھی بدل دیے حتیٰ کہ جنگ کے بھی پرانے مفاہیم بدل گئے اور دنیا ایک نئی رز کی جنگ میں داخل ہوگئی۔اگرچہ امریکہ نے نائن الیون کے واقعات کا بدلہ لینے کے لیے اصل جنگ تو القاعدہ کے خلاف لڑی اور براہ راست افغانستان اور عراق پر مہلک ہتھیاررکھنے کا شبہ ظاہر کرکے حملہ کردیا۔لیکن افغانستان میں داخل ہونے کے بعد امریکہ نے پاکستان کی سرحد پر نہ صرف خود کڑی نگرانی شروع کردی بلکہ بھارت کو بھی شہہ دی اور اس نے پاک افغان سرحد کے ساتھ ڈیڑھ درجن کے قریب اپنے قونصل خانے کھول کر پاکستان میں در اندازی شروع کردی گویا پاکستان کو براہ راست دہشت گردی کی اس جنگ میں لپیٹ لیا گیا اور پھر امریکہ صدر کے اس مطالبے پر کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں یا تو ہمارے ”حلیف بن جائے یا پھر حریف“تو پاکستان بیک جنبش امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا۔

پاکستان نے دہشت گردوں کو علی الاعلان للکارا اور کہا کہ وہ دہشتگردی پر نہ تو ایمان رکھتے تھے ،نہ ایمان رکھتے ہیں اور نہ آئندہ رکھیں گے کیونکہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ کھلم کھلا انسانیت کے دشمن اور بد خواہ ہیں اور یہ کہ دہشتگردوں کا ہر جگہ پیچھا کیا جائے گااور ان کو ہرگز کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وطن عزیز پاکستان نے وہ کردکھایا جس کا اس نے اعلان کیا تھا ساری دنیا پاکستان کو سراہتی رہی اور پاکستان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتی رہی اور کیوں نہ کرتی کہ پاکستان نے بھی اپنی بہترین سے بہترین صلاحتیں اس جنگ کی نظر کردی تھیں۔اپنی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوج اس جنگ کے لیے مختص کردی تھی پینتیس ہزار فوجی جوان اورہونہار افسر اس جنگ میں کام آئے اور پاکستان نے ان کی شہادتیں وصول کیں۔چھہتر ارب ڈالر ہم نے جنگ پر خرچ کیے اور اپنی ترقی پذیر معیشت پر اس کا بوجھ سہا۔ملک افراتفری اور انتشار کا شکار الگ ہوا بنیادی ضروریات زندگی ملک سے غائب ہوگئیں۔آٹا ،چینی،پانی اور بجلی جیسی بنیادی انسانی ضرورتیں عوام سے دور دور کردی گئیں۔ہر طرف بد امنی اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔خود کش حملے عام ہوگئے۔عوام کے جان و مال غیر محفوظ ہوگئے عوام میں خوف ہراس اور عدم تحفظ کا احساس بدرجہ اتم پایا جانے لگا ملک بھر میں صبر و برداشت اور رواداری کا فقدان نظر آنے لاگا ۔اشیاءمصنوعی قلت پیدا ہونے لگی ۔کیا کیا آفت تھی جو پاکستان اور پاکستانی عوام پر نہیں ٹوٹی ۔ہمارے وہ انٹیلی جنس ادارے جو ملک کی سلامتی اور بقاءکے ضامن تھے شدید قسم کی اندرونی و بیرونی تنقید کا نشانہ بنے۔لیکن آفرین ہے پاکستانی حکومت ،عوام اور فوج پر کہ وہ اس شدید بیرونی دباﺅ کے باوجود ہمت اور حوصلہ نہیں ہارے اور اسی طرح وطن عزیز پاکستان کے لیے تن من دھن کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔

یہ پس منظر بیان کرنے اور پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم دیکھیں کہ دہشتگردی کی اس دس سالہ جنگ میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا اور یہ کہ بین الاقوامی برادری میں اس جنگ کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ بین الاقوامی برادری ہماری ان قربانیوں کا ادراک کرتی اور ہماری آزادی و خود مختاری کا لحاظ رکھتے ہوئے ہمیں اخلاقی و معاشی طور پر سپورٹ کرتے لیکن ہوا کیا۔۔۔؟وہ امریکہ جس کا پاکستان نے پچھلے دس سال سے ہر محاذ پر ساتھ دیا،پرائی بلا اپنے گلے ڈالی ،خود اپنوں نے ہی طعنے دیے،ملک بھر میں رائے عامہ تقسیم ہوگئی، عوام میں بحث سر عام ہونے لگی کہ کیا یہ ہماری جنگ ہے۔۔۔؟یا پھر ہم امریکی مفادات کی جنگ اپنی ہی سرزمین پر لڑ رہے ہیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کو اس کی بھینٹ چڑھارہے ہیں۔ہاں وہی امریکہ اب دس سال بعد بھی ہم پر حملہ کرنے کی باتیں کررہا ہے۔ہماری آزادی و خود مختاری کی دھجیاں اُڑانا چاہتا ہے۔ہمیں سخت انجام کی دھمکیاں دے رہا ہے۔قصور کیا ہے کہ پاکستان اپنے ملکی مفادت کی بات کیوں کر رہا ہے۔ امریکی مفادات کے تحفظ ہی کی جنگ کیوں نہیں لڑے جاتا۔اور یہ کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیوں نہیں کرتا۔۔۔؟

آخر کب تک۔۔۔؟مطالبات کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ٹھیک ہے پاکستان نے امریکہ کا دس سال تک ساتھ دیا اور دہشتگردی کی یہ جنگ لڑی ۔کیونکہ پاکستان خود بری طرح دہشتگردی کی لپیٹ میں آگیا تھابلکہ تا حال بھی آیا ہوا ہے۔یہ جنگ خود پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی رہی ہے کیونکہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کسی طور بھی دہشتگردوں کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ پر امن شہریوں کا امن و سکون برباد کریں اور پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اپنی من مانی کرتے پھریں۔لیکن امریکہ کے مطالبات ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتے اور وہ ڈومور ، ڈومور کی گردان کرتے ہی چلا جاتا ہے امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک پاٹنر شپ کے وقت پاکستان نے ایک لائن ڈرا ڈرا کردی تھی۔لہذا اس لائن کو امریکہ نے جب بھی عبور کرنے کی کوشش کی تو پاکستان نے نہ صرف اسے خبردار کیا بلکہ اس پر شدید احتجاج بھی کیا کہ دوبارہ اس طرح کی حرکت ہوئی تو پاکستان اپنے تحفظ کی خاطر جوابی کاروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔اس بات پر پاکستان کی عسکری و سیاسی قوتیںیک زبان ہیں حتیٰ کہ عوام اور اپوزیشن کی تمام پارٹیاں بھی اتفاق رائے رکھتی ہیں۔لہذا امریکہ نے جب جب اس لائن کو پار کیا پاکستان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

لہذا انگور اڈے پر نیٹو اور امریکی جہازوں کی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں ہوں یا ایبٹ آباد جیسا واقعہ ہو پاکستان نے امریکہ سے شدید احتجاج کیا۔اب بھی اس حالیہ سورت ھال میں جب امریکہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے ورنہ امریکی فوجیں خود یہ آپریشن کریں گی۔پاکستان کی عسکری قیادت نے صاف انکار کردیا ہے اور امریکہ کو تنبہہ کردی ہے کہ اگر اس نے دوبارہ ایبٹ آباد جیسی کوئی حماقت کی تو پھر پاکستان بھی سختی سے جواب دے گا۔یہ بات کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد سامنے آئی۔حکومت اور عوام کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لیا گیا۔لہذا تمام قوم اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر ایک ہوگئی اور فوج کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑی ہوگئی۔فوج کے ریڈ الرٹ کا کاشن دیا تو امریکہ کا لب و لہجہ بھی بدل گیا۔

افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ملٹری سٹریٹجی نہ تو ماضی میں کامیاب ہوئی اور نہ تاحال کامیاب ہورہی ہے۔لہذا اس سے ہٹ کر ہمیں اس مسئلے کا حل سوچنا ہوگا۔اس بات پر بھی سب متفق ہیں کہ ایک پر امن افغانستان سب کے حق میں ہے اور افغانستان کو بزورِشمشیر پر امن نہیں کیا جاسکتا۔یہاں امن قائم کرنے کے لیے اس خطے کے جغرافیائی،معاشی اور معاشرتی حالات کو جاننا اور سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔کیونکہ اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے آئندہ جو بھی سٹریٹجی تیار کی جائے وہ اس وقت تک کامیاب سے ہمکنار نہیں ہوسکتی جب تک کہ آپ ان باتوں کو پیش نظر نہیں رکھیں گے۔

افغانستان میں ساٹھ فیصد سے زیادہ پٹھانوں کی آبادی ہے اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختوخواہ میں بھی نوے فیصد سے زیادہ آبادی پٹھانوں کی ہے اور ان دونوں علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا کلچر ،تہذیب و تمدن،رہن سہن،رسم و رواج ایک ہی ہے ان کی آپس میں رشتے داریاں ہیں۔ان کا جغرافیہ بھی ایک ہے اور تاریخ بھی ایک ہی ہے۔دونوں ملکوں میں تقسیم شدہ گاﺅں ہیں۔گاﺅں کا آدھا حصہ اگر افغانستان میں ہے تو دوسرا آدھا حصہ پاکستان میں ہے۔اب یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک ہی گاﺅں کے رہنے والے لوگوں کے درمیان آپ ایک عدد لائن کھینچ دیں اور پھر انہیں بتائیں کہ اب آپ دو مختلف ملکوں کے باشندے ہیں لہذا آپ کو اب ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے سے تعلق نبھانے کے لیے باقاعدہ ویزے اور پاسپورٹ کا سہارا لینا پڑے گا۔

پاک افغان سرحد دو ہزار چھو سو گیارہ میٹر لمبی ہے ۔جہاں سے روزانہ بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے لاکھوں کے حساب سے لوگ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اُدھر سے اِدھر سرحد پار کرتے ہیں اور غالباََ یہ دنیا کی واحد سرحد ہے جہاں کسی پابندی کی بغیر لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔لہذا اگر ان کے راستے میں روک لگائی جائے گی تو وہ آپ کو ماریں گے لہذا یہ روک لگانے والے کوئی بھی ہوں جنگجو پختونوں کے سامنے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ پابندی اور قید اور غلامی ان کی طبیعت کو موافق ہی نہیں ہے ۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے-
Anwar Parween
About the Author: Anwar Parween Read More Articles by Anwar Parween: 59 Articles with 39946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.