پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن
بے نظیر بھٹو کے 2007 میں قتل کے بعد اب لگتا ہے کہ ظالم قوتیں بے نظیر
بھٹوکے بیٹے بلاول بھٹو کے پیچھے پڑگئی ہیں ابتدائی طور پر وہ اپنے مخبر کے
ذریعے یہ اطلاعات عام کررہی ہیں کہ القائدہ اور طالبان نے بلاول بھٹو کے
اغواءکا منصوبہ بنایا ہے بے نظیر بھٹو کے قتل سے قبل بے نظیر بھٹو کے بارے
میں کہا جاتا تھا کہ القائدہ یا طالبان کی طرف سے انکو قتل کرنے کی دھمکیاں
مل رہی ہیں اس طرح کی خبریں اس وقت تک چلتی رہیں جب تک بے نظیر اپنی جان سے
چلی نہ گئیں لیکن بعد میں کیا ہوا ؟ صرف پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ
ہموار ہوئی اور آصف زرداری کے صدر بننے کے باوجود بے نظیر کے قاتلوں کو کچھ
بھی پتہ نہیں چل سکا آصف زرداری اور ان کی ٹیم ملک اور قوم کے مفادات اور
مسائل سے بے پرواہ ہوکر حکومت کرنے میں مست ہیں انہیں نہ بے نظیر کے قاتلوں
کو انجام تک پہنچانے کی فکر ہے اور نہ ہی دہشت گردوں سے ملک کو پاک کرنے کا
تجسس ہے ۔
وفاقی وزیر داخلہ جس کی بنیادی ذمہ داری امن و امان کی صورتحال بہتر سے
بہتر بنانا اور لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہے لیکن گذشتہ پونے چار
سال سے یہ صاحب جو ذمہ داری احسن طریقے سے نبھارہے ہیں وہ متحدہ اور حکومت
کے درمیان ایک ثالث کے کردار سے زیادہ نہیں لگتی ، حالانکہ دنیا بھر میں
وزیر داخلہ دہشت گردوں یا پھر حکومت مخالف تنظیموں کے درمیان معاملات طے
کرانے کا کام اپنی ذمہ داریوں کے طور پر کرتا ہے تاکہ امن و امان رہے لیکن
متحدہ نہ تو دہشت گرد جماعت ہے اور نہ ہی حکومت مخالف پھر بھی معمولی
ناراضگی ہو تو وزیر داخلہ متحدہ کو منانے کے لئےان کے درمیان پہنچ جاتے ہیں
اس کام کے لئے وہ جتنے دورے لندن کے کرتے ہیں اس سے لوگوں شبہ ہوتا ہے کہ
ملک صاحب وزیر داخلہ یاپیپلز پارٹی کے رہنماء نہیں بلکہ متحدہ کے پے رول پر
ہیں اور احسن طریقے سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں ہاں البتہ اس کام سے
فرصت مل جائے تو وہ لوگوں کو تسلیاں دینے اور بعض سیاسی شخصیات کو ڈرانے کا
کام انجام دینے لگتے ہیں ان دنوں وہ جامعہ کراچی کی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری
حاصل کرنے کے بعد بلاول بھٹو کے اغواءکئے جانے کے منصوبے کو افشاءکرتے ہوئے
پھر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ القائدہ یا طالبان بلاول بھٹو کو اغواءکرنے
کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔بلاول سے متعلق ان کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ
بلاول بھٹو کے اغواءکا منصوبہ بنانے والوں نے انہیں خود یہ اطلاع دی یا ان
کے ساتھ ملکر منصوبہ بنایا؟
عا م پاکستانی کی طرح میں بھی اسی بات پر خوش ہوں کہ ہمارے وزیر داخلہ کو
معلوم تو چل گیا کہ عالمی دھشت گرد کیا پلاننگ کررہے ہیں!
میں تو کہتا ہوں کہ امریکہ کو چاہئے کہ عبدالرحمان ملک کی خدمات ”کھل کر“
صرف امریکہ کے لیئے حاصل کرلے تاکہ وہ پہلے ہی القائدہ یا طالبان کے مستقبل
کے منصوبوں کے بارے میںملک صاحب کے ذریعے باخبر ہوسکے ویسے بھی امریکہ کی
اصل لڑائی تو صرف القائدہ یا طالبان ہی سے ہے باقی سب تو امریکہ کی مٹھی
میں ہے ،ویسے ملک صاحب کو بھی لوگ” امریکہ کا آدمی “کہتے ہیں ۔
یہ بات میرے سمجھ سے باہر ہے کہ بلاول بھٹو سے متعلق اطلاعات کا ذکر کرتے
وزیر داخلہ نے یہ ضروری وضاحت کیوں کی کہ ان کا کسی غیر ملکی ایجنسی یا
بلیک واٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ وضاحت کرتے ہوئے ملک صاحب نے یہ بھی
پیشکش کی کہ اگر ان کا تعلق بلیک واٹر سے ثابت ہوجائے تو انہیں پھانسی پر
لٹکا دیا جائے۔
ملک کی موجودہ صورتحال میں کوئی بھی کسی بھی طرح ہنسی مذاق کرسکتاہے ،وزیر
داخلہ تو وہ ”شے“ ہیں جن کے کچھ بولنے سے قبل ہی لوگوں کو ہنسی مذاق سوجھنے
لگتا ہے اور بہت کو ہنسی آنے لگتی ہے، بعض افراد تو ان کا اور ان کے ایک
دوست کا چہرہ ٹی وی پر دیکھنے کے ساتھ ہی ہنسنے لگتے ہیں۔۔۔۔چلو کچھ اور
نہیں تو کم از کم ہمارے حکمراں قوم کو ہنسنے کاموقع تو خوب فراہم کررہے
ہیں۔۔۔!
وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحب زادے شہباز
تاثیرکواغواءکنند گان نے افغان بارڈر کے قریب علاقے میںرکھا ہوا ہے اور وہ
زندہ ہیں۔کیا بات ہے ہمارے ملک کے وزیر داخلہ کی کہ وہ اطلاعات پوری رکھتے
ہیںمگر ان اطلاعات پرمزید کیا کارروائی کرنا ہے شائد انہیں پتہ ہی نہیں۔۔۔؟
موجودہ حکومت جسے میں ہر لحاظ سے کرپٹ کہتا ہوں اس لیئے کہ اس حکومت نے
جمہوری سسٹم کو ہی کرپٹ کردیا ہے اس حکومت کے ” ساتھی بھائیوں“ پر نظر
ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے تو اخلاقی اقدار کو بھی نہیں بخشا ، جب
وہ غراتے ہیں تو کہتے ہیں کہ
” کل سے حکومت کی تباہی کا آغاز ہوجائے گا“
”ملک کو بچانے کے لئے کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلانا ضروری ہے ، فوج کے محب
وطن جرنیل اگر ماشل لاءطرز جیسی کارروائی کریں گے ہم ساتھ دیں گے “
اورجب یہ پیارکرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ” پیپلز پارٹی کے خلاف اندر سے سازش
کی جارہی ہے اس سازش سے نمٹنے کے لئے ہماری ضرورت پڑی تو جان کی پرواہ کئے
بغیر عہد وفا نبھائیں گے“۔
انقلاب کی باتیں کرنے والے یہ لوگ معصوم نوجوانوں کو اپنے آپ سے شرمندہ
کرنے کے باوجود جھوٹ ،منافقت اور مکاری پر ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ اب نوجوان
انہیں خود اچھی طرح جان گئے ہیں۔
موجودہ حکومت کی ترجیحات تو سب ہی کومعلوم ہے ان دنوں وہ صرف اپنے پانچ سال
پورے کرنے
کی فکر میں ہے اقتدار کے آخری دنوں کا مزا چائے کی آخری گھونٹ سے کم نہیں
ہوتا وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اقتدار کے ان آخری دنوں کی طلب کے ساتھ
جیل کے آخری ایام کی یادیں بھی پریشان کرتی ہونگی تب ہی تو وہ انتہائی
جذباتی انداز میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی ہم
پانچ سال پورے کریں گے ،مجھے بھی یہ ہی لگتا ہے کہ اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی
لیکن آئندہ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع بھی آسانی سے نہیں ملے
گا خود پیپلز پارٹی کے لیڈرز کو بھی اندازہ ہے کہ اس دور کے بعد انہیں
اقتدارملنا مشکل ہے ,اگر چہ ذوالفقار مرزا کی شکل میں سندھ کارڈ محفوظ
رکھنے کی کوشش جاری ہے اور کراچی کے لیاری کی روایتی نشست کو بھی سنبھالنا
ان کی مجبوری ہے اس وجہ سے ذوالفقار مرزا سے بہتر کوئی اور شخصیت فی الحال
دستیاب بھی نہیں ہے یہ سچ ہے کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے ذوالفقار
مرزا کی جدوجہد کو اہل کراچی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیںاور ہمیشہ دیکھتے
رہیں گے۔ |