ذمہ دار کون؟

12 اکتوبر کے آمرانہ اقدام کو 12برس ہو گئے ہیں اور جمہوری حکومت کو آئے قریباً ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں لیکن اب تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کے محرک کو کٹہرے میں کون لائےگا؟پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن کی طرف دیکھ رہی ہے اور مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی کی جانب ،جبکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ پرویز مشرف کےساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہیں ،قوم کو ہاتھ ملانے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ نواز شریف سابق آمر کو رائیونڈ میں ظہرانے اور عشائیے پر بھی بلاسکتے ہیں ،لیکن انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف جو موقف اپنا رکھا تھا اس میں اب لچک اور دو دفعہ دستور والے شخص کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کے سلسلے میں خاموشی کیوں آ رہی ہے اور اب تو 12 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے یوم سیاہ کے برعکس آل پاکستان مسلم لیگ نے یہ دن یوم نجات کے طور پر منایا جو عوام کے لیے اچھنبے کا باعث بنی۔

اس تمام صورتحال کی ذمہ داری ہم نائن الیون کے بعد امریکی عہدیدار کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کو کئے جانے والے ٹیلی فون کو اکیلے قرار نہیں دیا جا سکتا جس کے تحت بعد میں یہی جنرل سرنڈر کر گیا بلکہ اس صورتحال کی جڑیں تو قیام پاکستان کے وقت ہی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں جب قائداعظم محمد علی جناح ؒ پاکستان آنے کے لئے امریکی سفیر کی گاڑی میں دلی ائیر پورٹ گئے اسی طرح ایک امریکی صحافی مارگریٹ بورک وائٹ کو دئیے گئے انٹرویو میں بانی پاکستان کے الفاظ تھے ”ہم روس کی سرحد پر ہیں امریکا خود ہی ہماری مالی مدد اور فوجی امداد کرے گا“پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان بھی ماسکو کی جانب سے دیئے گئے پہلے دورے کو پس پشت ڈال کر پہلے واشنگٹن چلے گئے،جبکہ روس کے تجارتی وفد کو پاکستان آئے دو مہینے ہو گئے لیکن اسے کسی نے پوچھا تک نہیں ،رہی سہی کسر اشتراکیت کا ہوا کھڑا کرکے عوام کو بھی روس کے خلاف کر دیا گیا جس میں ہمارے جاگیرداروں،زمینداروں اور سرمایہ داروں کا بڑا ہاتھ تھا ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستانی عوام کو ذرا سا بھی اشتراکی فلسفے کا پتا چلے سکے ۔ایسا ہونے سے ان کی دولت چھن جائے گی کیونکہ روسی نظام دولت کی ارتکاز کا مخالف اور تقسیم کے حق میں تھا،اس سلسلے میں دولت کے ان پجاریوں نے مذہب کی آڑ لے کر خود کو بچائے رکھا ۔

امریکی پلڑے میں پڑے رہنے کی عادت ایوب،یحییٰ،بھٹو،ضیاء،بے نظیر ،نواز شریف کے ادوار کے بعد جنرل مشرف کے دور میں بھی دیکھنے کو ملی اور موجودہ زرداری گیلانی نیم پارلیمانی و نیم صدارتی دور میں بھی ہم امریکی گھڑے کی مچھلی بنے ہوئے ہیں ،یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس کے تحت ہم نے اپنی خارجہ پالسی کی غلط جہت رکھی جبکہ بعد کے فوجی و جمہوری حکمرانوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی جبکہ سویت ہونین کے زوال کے بعد ہم مکمل طور پر امریکا کے رحم و کرم پر ہو گئے اور نائن الیون کے بعد امریکا کے غیر نیٹو اتحادی بن گئے۔

پاکستان کے ہر حکمران نے امریکا کو اپنا دوست سمجھا لیکن اس دوست نے مشکل کی ہر گھڑی میں ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ دہشت گردی کی حالیہ جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا امریکا کو اندزہ نہیں وگرنہ وہ ”ڈو مور “کا مطالبہ کرتا اور نہ ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ فوجی امداد بند کرنے کی دھمکی دیتا ،، جبکہ مناسب وقت پر ہمارے حکمرانوں اور فوجی قیادت کے درمیان اختلافات کا بیج بوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل صدر زرداری کو ” کو“ کے خطرے کے پیش نظر امریکا کو لکھے گئے مبینہ خط کا بڑا چرچا ہے، جبکہ ہمیشہ کی طرح پاکستان کی عسکری قیادت آج بھی امریکا کی فوجی امداد پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ،جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جی ایچ کیو میں حال ہی میں پارلیمنٹرینز کو دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان امریکا کی فوجی امداد کا مرہون منت نہیں اگر امداد نہ بھی ملے تب بھی پاکستانی فوج وطن عزیز کا دفاع بہ احسن کر سکتی ہے۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے آرمی چیف کی بریفنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکا پاکستان پر حملہ کرنے سے قبل 10 بار سوچے گا،شاید امریکا 100 بار سوچے لیکن ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ لاہور میں کیا ،امریکی گاڑیاں لاہور،اسلام آباد اور پشاور میں جو کچھ کرتی رہیں یا پھر امریکی اسٹییلتھ ہیلی کاپٹرز نے جو کچھ 2مئی کو کیا اس کے ذ مہ دار پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمران ہیں،جو امریکا کو دوست رکھتے اور سمجھتے ہوئے پاکستانیوں کے خون سے اس دھرتی کو رنگین ہوتے دیکھتے رہے اور پھر بھی کہتے رہے کہ امریکا سپر پاور اور ہمارا دوست ہے۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 48230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.