تحریر : محمد اسلم لودھی
ریلوے پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جس کے پاس جدید گیرج فیکٹری٬ نئے انجن
بنانے والی فیکٹری ٬کیرج شاپ ٬ لوکو شاپ ٬ اسٹیل شاپ پاور ہاوس ٬ برج
ورکشاپ ٬ ٹریک ورکشاپ ٬ سی ڈی ایل ورکشاپ ٬ لاہور اور کراچی میں ڈیزل
ورکشاپیں ٬ حیدر آباد میں کیرج ورکشاپ ٬ خانیوال میں الیکٹرک انجن ورکشاپ ٬
سکھر ٬ خانیوال ٬ کوہاٹ ٬ شاہین آباد ٬ کوٹری میں سلیپر بنانے والی
فیکٹریاں ٬ ٹکٹ اور سٹیشنری پرنٹنگ پریس ٬ چھاپہ خانوں کے علاوہ اپنے
ٹریننگ سکول ٬ ڈسپنسریاں ہسپتال ٬ سکول ٬کلب ٬ گالف گراﺅنڈ٬ ڈاک بنگلے ٬
ہاسٹل ٬ سینی ٹوریم ٬لاکھوں ایکڑ اراضی پر تعمیر شدہ 70 ہزار چھوٹے بڑے
کوارٹرز ٬ شادی ہال ٬ ناچ گھر اور کھیل کود کے وسیع و عریض میدان موجود ہیں
جبکہ قیام پاکستان کے وقت اس ادارے کو گیارہ سو اسٹیم انجن ٬ ہزاروں مسافر
اور مال برادر ڈبے ٬ گیارہ ہزار کلومیٹر پٹڑی ٬ 10 دس ہزار ریلوے اسٹیشن ٬
وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے ریلوے یارڈ ورثے میں ملے تھے لیکن آج یہ سب
کچھ خاک کا ڈھیر دکھائی دیتے ہیں ۔ریلوے کی یہ حالت کس نے بنائی اور کون
کون اس جرم میں شریک ہے اس کا تعین ابھی تک نہیں کیاجاسکا۔اس وقت صورت حال
یہ ہے کہ 198 انجن صرف غیر معیاری اور ناقص ڈیزل استعمال کرنے سے ناقابل
استعمال ہوچکے ہیں۔لاہور اور راولپنڈی سے روزانہ دس دس لاکھ روپے کا ڈیزل
چوری ہونے کی خبریں اخبارات میں شائع ہورہی ہیں۔لاہور تا خانیوال الیکٹرک
انجن چلانے کے لیے اربوں روپے مالیت کی جو تنصیبات قائم کی گئی تھی ریلوے
پولیس اور افسروں کی ملی بھگت سے وہ تمام چوری ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے
اربوں ڈالر کے الیکٹرک انجنوں کو بیکار قرار دے کر شیڈ میں دانستہ کھڑا
کردیاگیاہے یہی حال ریل کار اور اسٹیم انجنوں کا جو اب بھی دنیا بھر چل رہے
ہیں لیکن پاکستان میں انہیں ناکارہ قرار دے کر مسترد کردیاگیاہے۔ایک اندازے
کے مطابق 8 کروڑ افراد سالانہ ریل میں سفر کرتے ہیں کیونکہ یہ ذریعہ سفر
محفوظ اور سستا بھی تھالیکن موجودہ ریلوے وزیر حاجی غلام احمد بلور نے اپنے
ٹرانسپورٹر وزیر کے کاروبار کو سہارا دینے کے لیے حقیقی معنوں میں ریلوے کا
جنازہ نکال دیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بجائے خود بھی
پوری طرح کرپشن میں ملوث ہوچکے ہیں۔ اس نے یہ کہہ کر تمام پاکستانیوں کے
زخموں پر نمک چھڑکا ہے کہ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ریلوے نہیں ۔گویا
پاکستان میں اگر ریلوے بند بھی کردی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہ
بات قابل توجہ ہے کہ دنیا بھر میں ریلوے ہی افواج کی نقل و حمل کا بوجھ
اٹھاتی ہے اگر وزیر ریلوے کے مطابق پاکستان میں ریلوے ختم کردی گئی تو
بھارت کی جانب سے کسی بھی جنگی کاروائی کے نتیجے میں کیا پاک فوج بروقت
سرحدوں پر پہنچ کر وطن عزیز کا دفاع کرسکے گی ۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر
پاکستانی کے دل میں تو ابھر رہا ہے لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی اس
جانب توجہ دینی چاہیئے کیونکہ ان کی خاموشی سے یہ ادارہ مکمل طور پر ختم
ہوسکتا ہے۔ یہ بات تو اب طے ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت ریلوے کو بچانے کے
لیے نہ تو سرخپوش وزیر کو برطرف کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی ریلوے کی بحالی اس
کے منشور کا حصہ دکھائی دیتی ہے ۔اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار
محمد چودھری از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کمیشن قائم کریں جو گزشتہ پندرہ
سال سے آج تک ریلوے کے تمام وزیروں کی جانب سے سیاسی بھرتیوں ٬ ریلوے
انجنوں اور بوگیوں کی خریداری میں کرپشن ٬ ریلوے افسران کی جانب سے ڈیزل
اور دیگر قیمتی اشیاءکی چوری ٬ اور ڈیزل میں ملاوٹ اور کوڑیوں کے مول لیز
پر دی جانے والی ریلوے اراضی کے ذمہ داران کا تعین کرکے انہیں عبرت ناک سزا
دیں ۔میں سمجھتا ہوں چیف جسٹس کے سوا اور کوئی ایسا دیانت دار اور وطن دوست
شخص دکھائی نہیں دیتا جو حقیقی معنوں میں ریلوے کو تباہی سے بچا سکے ۔ جبکہ
فوج اور فوجی سازو سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے 1965 اور 1971 کی پاک
بھارت جنگوں میں ریلوے کا جو شاندار کردار رہا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے
حکمرانوں پر دباﺅ ڈال کر ریلوے جیسے قومی ادارے اور چاروں صوبوں کی زنجیر
کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کوہر
ممکن ایکشن لینا ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ ریلوے کے ذمہ دار انتہائی نااہل ٬
بددیانت اور کرپٹ ثابت ہوچکے ہیں لیکن افسروں کے دیکھا دیکھی چھوٹے ملازمین
نے بھی ادارے کو نہیں بخشا ۔ مین لائن اور برانچ لائنوں پر چلنے والی
ٹرینیں مسافروں سے بھری دکھائی تو دیتی ہیں لیکن ان مسافروں کا کرایہ
ٹرینوں کے ساتھ چلنے والے عملے ٹکٹ چیکر ٬ گارڈ اور ڈرائیور میں تقسیم
ہوجاتا ہے ۔ باقی رہ گئی ریلوے پولیس ۔اس کی ذمہ داری ریلوے املاک کی حفاظت
ہے لیکن وہ نہ صرف چوروں اور ریلوے اراضی پر قبضہ کرنے والوں کی سرپرستی
کرتی ہے بلکہ مال غنیمت ہڑپ کرنے میں خود بھی شریک ہوجاتی ہے ۔ ان حالات
میں اگر 100 ارب بھی ریلوے کو دے دیئے جائیں ریلوے کو نہ تو بحال کیاجاسکتا
ہے اور نہ ہی اس کا پہیہ رواں دواں رکھا جاسکتا ہے جب تک اس ادارے سے وزیر
سمیت کرپٹ افسروں اور ملازمین کا صفایا نہیں کیاجاتا ۔ |