خا موش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں یوں تو یہ قرہ ارض محبت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔۔۔۔مگر جناب عالی کچھ محبتیں حقیقت کی آنکھ رکھنے والوں ہی کو سمجھ آتی ہیں ۔۔۔اور اگر محبت سمجھ ہی نہ آ رہی ہو تو پھر وہ محبت آئینہ خانوں اور میخانوں کی زینت تو بن جاتی ہیں ۔۔۔مگر دل کے طے خانوں میں اترنا نا ممکن سی لگتی ہیں ۔۔۔۔ دوستو۔۔۔۔ میں آپکو محبت کی حقیقت سے آشنا کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔اور وہ حقیقت ہے یقین محکم۔۔۔۔یعنی کہ اگر محبوب کو اپنی محبت پر اعتبار ہی نہ ہو گا تو پھر وہ محبت نہیں بلکہ ایک وہم ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ قارئین اکرام -: میری التجا ہے ان لکھنے والوں سے جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بتا رہے ہیں ۔۔۔۔اور اس بات پر بضد بھی ہیں کہ محبت کا مطلب تاریک راتوں کا کوئ ڈراؤنا خواب ہے۔۔۔۔تو میرے ذاتی خیال کے مطابق ایسی سوچ رکھنے والے کم ظرف لوگوں کو خواب دیکھنے کا کوئ حق نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔۔محبت کو اگر کسی دن سے منصوب ۔کر دیا گیا تو پھر اس دنیاں میں رہنے والے تمام محبوب اور محبو بائیں فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں۔۔۔۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا بھوک اور پیاس کا بھی کوئ دن مقرر کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔میرے ذاتی خیال کے مطابق محبت ہر انسان کو بھوک اور پیاس کیطرح دن رات ستاتی ہے ہاں خوراک کی مقدار کا تعین انسان کے دل اور دماغ کی وسعت ۔۔۔سمت۔۔۔اور اسکی گہرائ سے لگا یا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ بہر حال جس طرح ہر انسان کے چہرے کے خدو خال الگ الگ ہوتے ہیں اسی طرح ہر طرز فکر رکھنے والے لوگوں کا انداز محبت بھی الگ ہی ہو تا ہے میری عرض صرف اتنی سی ہے کہ اقبال کے قلم سے تحریر کیا نالہ بلبل سن کر خاموش رہنا محبت کے لفظ کو ایک قسم کی تاثیر سے محروم کرنا عقلمندی نہیں ہے۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے یہ دن کچھ لوگوں کو محبت کے آداب سکھا سکے اسی نیت سے یہ تحریر ان لوگوں کو میری طرف سے گفٹ ہے ۔۔۔۔جو روز بروز دن رات نفرت لکھتے ۔۔۔پڑھتے اور سنتے ہیں ۔۔۔۔انکی زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے۔۔۔۔ اور ہاں میرے تخیل کے سمندر میں دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی ہر آہ اور واہ کے پیچھے ایک دکھ بھری داستان چھپی ہوتی ہے اور یہی وہ داستان ہے جسے سنا نے کے لئیےنسل انسانی نے ہزاروں ڈھنگ نکال لئیے ہیں ۔۔۔جن میں سے ایک ویلنٹائین ڈے بھی ہے۔۔۔۔ اس دن کی حقیت سے تو واقفیت نہیں ہے مگر ہاں اس لفظ حقیقت پر اپنے وجود کے ہونےکیطر ح یقین رکھتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ آدم کی پیدائش جس مٹی سے وجود میں آئ ہو گی اس مٹی کو نم کرنے کرنے والےپانی کی بوند کا نام محبت ہے جس نے حوا کی کوکھ سے جنم لیا ہو گا ۔۔۔۔ اے آدم تیرے خول میں چھپی اس روح کا نام حوا ہے جس کی تاثیر تا قیامت باقی رہے گی۔۔۔۔میرے لفظ نسل آدم کے وجود خاکی میں نار ۔۔۔نہیں بلکہ ۔۔۔۔ آب ۔۔۔۔کا کام کر جائیں ۔۔۔۔یہی میری حقیر سی کوشش ہے۔۔۔ مجھے افسوس صرف ایک بات کا ہے کہ ہمارے ہاں لفظوں اور تہواروں کی تر تیب اسقدر الٹ پلٹ گئی ہے کہ اب انسان اور جانور کا فرق بمشکل ہی سمجھ میں آتا ہے۔۔۔۔میں محبت کے ہر اس داعی کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جو سمجھتا ہے کہ اسکا دل زندگی کی طرف رواں دواں ہے ۔۔۔۔اور آج ہر اس دل پر افسوس کرتی ہوں جو محبت کی روشنی سے منور اپنے پاکیزہ جذبے کو انا کی بھینڈ چڑھانے میں اپنی جیت سمجھتے ہیں اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جاۓ |