انگلیاں کانپ جاتی ہیں

گئے وقتوں کی بات ہے اسکول کے زمانے سے ہی ہماری ہینڈ رائٹنگ کی دھوم تھی ۔ اردو انگریزی سندھی عربی ، چاروں زبانوں کے رسم الخط کو بہت خوبی و عمدگی کے ساتھ رقم کرنے کی صلاحیت سے اللہ نے خوب خوب نوازا تھا ۔ کوئی نیا دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ پھر وقت کے ساتھ اس وصف میں مزید نکھار اور پختگی بڑھتی چلی گئی ۔ رفتہ رفتہ خطاطی کا بھی شوق ہو چلا ۔ بغیر کسی استاد کی مدد اور رہنمائی کے ہم نے اخبارات کی شہہ سرخیوں کیلینڈر اور اسلامی کیلیگرافی سے مزین آرائشی طغرے وغیرہ سامنے رکھ کر خطاطی کی مشق کی اور اس میں بھی خاصی شد بد حاصل کر لی ۔

مگر نکاح نامے پر کیے جانے والے ہمارے دستخط جن میں ہم نے اپنا پورا نام اردو میں لکھا تھا تو انہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ہماری ہی لکھائی ہے ۔ بےحد شکستہ و نا پختہ سی تحریر ، جیسے کسی نو آموز نے کچھ مشکل الفاظ لکھنے کی کوشش کی ہو ۔ کسی بھی لڑکی نے اپنی زندگی میں مختلف موقعوں پر بارہا ضروری کاغذات پر دستخط کیے ہوتے ہیں پورے اعتماد اور روانی کے ساتھ ایک معمول کی بات کے طور پر ۔ پھر اس کی زندگی میں ایک ایسا موقع آتا ہے جب وہ پوری جان کے ساتھ کانپ جاتی ہے ہاتھوں کی لرزش قابو میں نہیں آتی ۔ خود اپنا نام لکھتے ہوئے وہ ایکدم اپنے آپ میں اجنبی سی ہو جاتی ہے جیسے لکھنا ہی بھول گئی ہو ۔ سوشل میڈیا کی یلغار اور ذرائع مواصلات کی بھرمار کے اس دور میں شاید اب ہر لڑکی اس کیفیت سے نہ گزرتی ہو مگر اس صدی کے آغاز تک تقریباً سبھی لڑکیوں کا ، نکاح نامے پر کانپتے ہاتھوں سے دستخط کرنے تجربہ رہا ہو گا ۔ ایک ہی لمحے میں دنیا بدل جاتی ہے سب اپنوں اور گھر کو چھوڑ کر ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو اکثر ہی چیلنجز سے پُر اور دشوار گزار ہوتا ہے ۔

بدقسمتی کہہ لیں یا تقدیر کی ستم ظریفی کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ جن روایات رسومات و توقعات کی بنیادوں پر استوار ہے تو زیادہ تر نو بیاہتا جوڑوں کی زندگی کے بہترین سال رشتوں کی چپقلشوں اور نت نئی آزمائشوں سے نمٹتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔ اور یہ سب وہ لڑکیاں دیکھ سمجھ رہی ہوتی ہیں جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہوتی ۔ اسی وجہ سے ایک حسین خواب آنکھوں میں لیے وہ اپنے مستقبل میں کچھ ممکنہ خدشات و خطرات کو بھی دیکھتی ہیں ۔ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا یہ نیا سفر کتنا پُر پیچ و پُر خطر بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ اُنہیں نصیب اچھا ہونے کی دعائیں کیوں دی جاتی ہیں؟ یہی مشاہدہ اور ادراک زندگی کے اہم ترین لمحے میں اُن کی انگلیاں لرزا کے رکھ دیتا ہے ۔ پہلی بار وہ خود اپنا نام لکھتے ہوئے خود کو پرائی سی محسوس کرتی ہیں کان کسی کا نام اپنے نام لگتے سن کر دل بھی جیسے وہیں دھڑکنے لگتا ہے زبان قبول ہے کے دو لفظوں کو ادا کرتے ہوئے گویا ان کا بھی کوئی الگ سا ذائقہ محسوس کرتی ہے ۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہو کہ شادی لڑکی کے لئے ایک حسین خواب ہونے کے ساتھ ساتھ خوف و خدشات کی بھی علامت ہو یہ صرف برصغیری سماج کا خاصہ ہے ۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں آج بھی دلہنیں اپنی رخصتی کے موقع پر پچھاڑیں کھا رہی ہوتی ہیں اُنہیں باقاعدہ گھسیٹ کر گاڑی تک لے جایا جاتا ہے ۔ جیسے سسرال کوئی مذبح خانہ ہو اور یہ کوئی بھیڑ بکریاں ۔ اور سسرالی رشتوں کی چھری تلے آنے کے تصور سے ہی لرزاں و ترساں ہوں ۔ سینکڑوں ہزاروں سال پرانی تہذیب و تصورات کے اثرات ہیں جن سے ہم آج بھی آزاد نہیں ہوئے ہیں ایک سے ایک مذہبی اور دیندار گھرانوں میں ان کی گہری چھاپ نظر آتی ہے ۔ جب تک اس اثر و نفوذ سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہو گا لوگ بیٹیوں کے نصیب سے ڈرتے رہیں گے اور اُن کی انگلیاں کانپتی رہیں گی ۔

رعنا تبسم پاشا
About the Author: رعنا تبسم پاشا Read More Articles by رعنا تبسم پاشا: 237 Articles with 1920554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.