ادھوری خوشی — ایک دل گرفتہ لمحے کی مکمل داستان
بہار کی نرم ہوا، کلیوں کی مسکراہٹ، اور چڑیوں کی سریلی صدائیں… گاؤں کے
آسمان تلے زندگی ایک حسین نغمہ معلوم ہوتی تھی۔ سہن میں ایک جوان بیٹا،
خوابوں کے بستر پر نیم خمار میں لیٹا، مستقبل کے دھندلکوں میں کچھ ڈھونڈ
رہا تھا۔
اسی عالم میں دادی کی آشنا آواز گونجی:
"بیٹا، اُٹھو! سورج نکل آیا ہے…"
یوں لگا جیسے خود زندگی نے دستک دی ہو۔
آنکھیں ملتے ہوئے، میں نے ہاتھ منہ دھویا، اور عادتاً موبائل فون کی جانب
بڑھا۔ دوستوں کے پیغام آئے تھے — مبارک باد کے لفظوں سے بھرپور، محبتوں سے
لبریز۔ دل کچھ سمجھنے ہی کو تھا کہ والد صاحب کی کال آ گئی۔
اُن کی آواز میں عجب سا نور تھا، ایک ایسی چمک، جو الفاظ سے زیادہ محسوسات
سے چھنتی ہے:
"بیٹا، تمہاری پولیس میں تقرری ہو گئی ہے… بہت مبارک ہو!"
ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ زبان گُنگ، سوچیں ساکت، اور دل کسی اور ہی
دھڑکن میں مبتلا۔ خوشی ضرور تھی، مگر اس خوشی سے کہیں زیادہ سکون اس لمحے
میں تھا جب میں نے اپنے والد کے لہجے میں فخر محسوس کیا۔
میرے لیے یہ نوکری نہیں، میرے والد کی خوشی اصل کامیابی تھی۔
سب سے پہلا قدم دادی کی طرف بڑھا — اُنہیں سینے سے لگایا، خبر سنائی، تو
جیسے گھر میں عید کا سماں ہو گیا۔ ہر چہرہ روشن، ہر دل دعا گو۔ مگر میرے دل
کا ایک گوشہ خاموش تھا، سنسان، سائیں سائیں کرتا۔
اچانک آنکھوں میں نمی در آئی۔
کیونکہ وہ ہستی، جو سب سے پہلے اس خبر کی مستحق تھی، وہ ہستی اس دنیا میں
نہ تھی… میری ماں۔
ماں، جنہوں نے میرے بچپن کی راتوں کو جاگ کر گزارا، میری سانسوں میں دعائیں
بُنیں، میری کامیابیوں کے لیے دن رات عبادت کی…
آج جب منزل ملی، وہی ماں نہ تھی۔
میری خوشی ایک پل میں ادھوری ہو گئی۔
کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے کائنات کی کوئی اہم کڑی چھوٹ گئی ہو۔ میں خاموشی
سے گھر سے نکلا، اور سیدھا اُن کی آخری آرام گاہ پر جا پہنچا۔
قبر کے قریب بیٹھا، جیسے کسی سچے عاشق کا سجدہ ہو،
دھیرے سے کہا:
"امّی، آپ کی دعاؤں کا ثمر ہے یہ کامیابی…
مگر افسوس، آپ ہی نہیں جو میری خوشی میں شریک ہوں۔"
وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے قیمتی، اور سب سے دکھ بھرا لمحہ تھا۔
آج سات برس بیت چکے ہیں۔
وردی زیب تن ہے، عہدے کی شان ہے، لوگوں کی قدر ہے، اور ہر ماہ تنخواہ کا
ایک پرچہ ہاتھ میں آتا ہے…
مگر دل کا وہ خالی گوشہ، آج بھی اُسی طرح ویران ہے۔
اکثر خیال آتا ہے —
کاش امّی ہوتیں!
میں اپنی پہلی تنخواہ اُن کے ہاتھوں میں رکھتا،
اُن کے لیے نئی چادریں، خوشبوئیں اور چوڑیاں لاتا،
اُنہیں بازاروں کی رونقیں دکھاتا،
اُن کی ہر خواہش کو حقیقت میں ڈھالتا۔
لیکن… یہ سب خواہشیں بس دل کے اندر گونجتی ہیں۔
میری ہر کامیابی، ہر خوشی، ہر لمحہ… ماں کے بغیر نامکمل ہے۔
اور اسی لیے —
میری خوشی ہمیشہ ادھوری ہے۔
|