بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(سابقہ ولی عہدسلطنت سعودی عرب)
ہفتہ 22اکتوبر2011کی صبح کو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ اورسلطنت کے نائب
وزیراعظم انتقال فرما گئے،اناﷲوانا الیہ راجعون۔وہ16شعبان1349ہجری بمطابق
5جنوری1924ءمیں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے ،یہ اپنے والد
سلطان عبدالعزیزالسعودکے پندرہویں فرزندارجمندتھے۔ان کی والدہ مرحومہ کانام
شہزادی حصہ بنت احمد السدیری تھا،یہ جزیرة العرب کے ایک معروف و مشہور
علاقے کے سردار کی بیٹی تھیں اور اپنے شوہر کی بہت منظور نظراہل خانہ
تھیں،ان کے والد احمد بن محمد بن احمد السدیری سعودی عرب کے بادشاہ سلطان
عبدالعزیزالسعود کے قریبی اور قابل اعتماددوستوں میں سے تھے۔۔شہزادی حصہ
السدیسی کے بطن سے اگر چہ بہت سی اولاد ہوئی لیکن سعودی عرب کے پانچویں
بادشاہ شاہ فہد بن عبدالعزیزبھی اسی خوش بخت خاتون کی اولاد سے تھے۔یہ
خاتون 1910میں پیدا ہوئیں اور2003میں کم و بیش ایک صدی کی عمر پاکر”ریاض
“میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں۔
مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزنے اپنی ابتدائی تعلیم رواج کے مطابق شاہی
دربار میں ہی حاصل کی ،شہزادوں کی کثرت کے باعث ان کی تعلیم کاانتظام دربار
میں ہی کر دیاگیاتھا جہاں جیدعلماان شہزادوں کو ابتدائی دینی تعلیم سے
آراستہ کرتے تھے اوربعد میں ان کے لیے زندگی کے مختلف میدان ہائے علم و عمل
کی باقائدہ تعلیم دی جاتی تھی اور ساتھ ساتھ وہ اپنے والد بزرگوار اور
خاندان کے دیگر بزرگوں سے اقتداروحکومت اور جہاں بینی و جہاں آرائی کے
اسرارورموزسے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے۔مرحوم شہزادہ سلطان بن
عبدالعزیزالسعودبھی ان تمام مراحل سے بحسن و خوبی گزرے اور1947ءمیں اپنی
خدادادصلاحیت و ذہانت کے پیش نظر انہیں ”ریاض“کاگورنرتعینات کر دیاگیا۔اسی
سال انہوں نے ”آرامکو“کے اس پروگرام کی بھی نگرانی کی جس کے تحت ”دمام “اور
”ریاض“جیسے دو مشہورشہروں کے درمیان ریل کا رابطہ قائم کرناتھا۔1953میں
انہوں وزارت زرعی پیداوار کا قلمدان سنبھالااورایک طویل عرصہ تک اس وزارت
کا حق اداکرتے رہے جس کا مقصد مملکت کے ریگزاروں کو سبزہ زاروں میں تبدیل
کرنا تھا۔1988میں جب جدیدتکنالوجی کے گھوڑے کوایک دم ایڑھ لگ جانے باعث
دنیابھر میں مواصلات کے نظام نے ایک نئی انگڑائی لینا شروع کی تو مرحوم
شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودکواس وزارت کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
اس سے قبل سعودی عرب کے محسن امت حکمران شہیدشاہ فیصل بن عبدالعزیزالسعودنے
1962میں مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودکومملکت کے دفاع کا ذمہ دار
بنایاتھا،شہزادے نے مملکت کے دفاع کے لیے امریکہ سے کثیر تعداد میں ٹینک ،لڑاکا
ہوائی جہازوں کی کھیپ،اس وقت کے جدیدترین میزائل اورAWACS( (airborne
warning and control systemsنامی اس وقت کاجدیدترین دفاعی نظام خریداجوکہ
ایک بوئنگ707 طیارے میں نصب کیاہواتھااور یہ طیارہ بھی اسی ”اواکس“کے نام
سے معروف تھا۔مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودنے ان جدیدترین
ہتھیاروں کوذاتی دلچسپی سے خریدااور ان کی تنصیب پر بھی خصوصی توجہ دی جبکہ
ان کی خریداری کے عوض ایک خطیررقم اداکی گئی۔یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھاجب
عرب ملکوں پر اسرائیل سے جنگ کے بادل گرج رہے تھے۔اس زمانے میں مرحوم
شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودکی دفاعی دلچسپیوں کے باعث سعودی عرب
امریکہ کاسب سے بڑاہتھیاروں کاگاہک بن گیاتھا۔مرحوم شہزادہ بھی دیگر عرب
حکمرانوں کی طرح امریکہ کی طرف واضع جھکاؤ رکھتاتھااور امریکہ اورسعودی عرب
کے دوستانہ تعلقات کا بہت معترف تھاحالانکہ قرآن نے صاف صاف کہاہے کہ یہودی
اور عیسائی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور پھر ہتھیاروں کی خریدمیں یہ
شہزادہ امریکہ کا شائلاکی کردار بھی دیکھ چکاتھا۔1982میں وہ نائب
وزیراعظم(دوم)بھی بنائے گئے۔بہرحال 1996میں” ظہران“میں امریکی فوجی اڈوں
میں دھماکوں کے بعد مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودنے امریکی فوجوں
کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی بہت مخالفت کی تھی۔
یکم اگست2005کو سعودی فرمانرواعبداﷲبن عبدالعزیزالسعود نے مرحوم شہزادہ
سلطان بن عبدالعزیز السعودکو ولی عہد سلطنت نامزد کر دیا،وہ اگرچہ اپنی
خاندانی حیثیت سے اسی منصب کے مستحق تھے لیکن پھر بھی یہ منصب مرحوم شہزادے
کی خدمات و اہلیت کا واضع اعتراف تھا۔ا س وقت مرحوم شہزادے کی صحت کوئی بہت
اچھی نہ تھی لیکن پھر بھی وہ ریاست کے امور تندہی سے سرانجام دیتے
رہے۔مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودنے اپنی ساری عمر مملکت اور
مملکت کے عوام کی خاطر وقف کررکھی تھی،وہ سعودی عرب کے انسپکٹر جنرل تھے،اس
حیثیت سے مملکت کے دفاعی امورکی جملہ شکایات فیصلہ ہونے کے لیے آپ کے پاس
ہی آتی تھیں،سعودی عرب کی قومی ہوائی کمپنی کے سرپرست بھی تھے ،اس حیثیت سے
انہوں ریاست کے تمام ہوائی اڈوں پر سگریٹ نوشی ممنوع قرار دے دی تھی۔وہ بین
الاقوامی انعام برائے آبیات کے بانی بھی تھے ،یہ انعام ہر دوسال کے بعد اس
شخصیت کو دیاجاتاہے جو پانی کے میدان میں کوئی خاطر خواہ تحقیق کرے اور
کوئی نیانتیجہ سامنے لائے۔اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ مملکت کے نائب
وزیراعظم بھی تھے۔ان سب کے علاوہ وہ درج ذیل کیمٹیوں کی نگرانی کے فریضے
بھی سرانجام دیتے رہے:
* The General Organization for Military Industries.
* The Saudi Program for Strategic Reserves.
* The Economic Balance Committee.
* The Manpower Council
* The Board of Directors of the Saudi Arabian Airlines (SAUDIA)
* The National Commission for the Conservation and Protection of
Wildlife.
عرب شیوخ کی تاریخ وکردارکے مطابق مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودنے
دس شادیاں کیں اور ان کی کئی اولادیں ہیں،ان کاایک بیٹاشہزادہ خالداپنے ملک
کی فوج میں ایک معروف جرنیل ہے اور 1991میںخلیج کی جنگ میں شہزادہ خالد نے
ایک اہم کردار اداکیاتھا،دوسرابیٹاشہزادہ بندر 1983سے2005تک امریکہ جیسے
ملک میں سعودی عرب کا سفیر رہا،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم شہزادہ سلطان
بن عبدالعزیزالسعودسے امریکہ کو کتنا پیار تھا،تیسرابیٹافہداپنے ملک
میںرفاہ عام اور کھیلوں کے محکمے کا نائب صدرہے۔محمد،ترکئی،مصحال اور فیصل
مرحوم کی دیگراولادیں ہیں جو ملک میں اور ملک کے باہر اپنی مملکت کی خدمت
پر مامور ہیں۔
2004میں مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیزالسعودکے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ
کینسرکے عارضے میں مبتلاہیں،اس کے بعد سے ان کے کئی جراحات ہوئیں اور وہ
مسلسل زیرعلاج رہے۔ایک دفعہ ان کی انتڑیاں بھی تبدیل کی گئیں۔2009میں وہ
کچھ ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے جس کا تعلق دماغ کے زیریں حصے سے تھا،یہ
بیماری عموماََعالم پیری میں ہی لاحق ہوتی ہے اور تاحال اس کا کئی خاطر
خواہ علاج بھی سامنے نہیں آ سکا۔اس کے بعد سے مرحوم شہزادہ سلطان بن
عبدالعزیزالسعودایک طویل عرصہ تک نیویارک کے ایک اسپتال میں زیرعلاج رہے
اورزندگی کے عملی میدانوں سے کٹ سے گئے۔انہوں نے کینسر سے ایک نہ ختم ہونے
والی جنگ لڑی اور بلآخرزندگی کی بازی ہار گئے کہ کل نفس ذائقة
الموت۔حجازمقدس جیسی اشرف البقعة الارض کا حکمران امریکہ جیسے ملک میں جان
،جان آفرین کے سپرد کر گیا۔ وہ انگریزی زبان پر بہت عبور رکھتے تھے۔
سعودی عرب سمیت عرب حکمرانوں سے اگرچہ سیاست کے میدان میں اختلاف
کیاجاسکتاہے کیونکہ انہوں نے اسرائیل کے معاملے میں بہت کمزوری کا مظاہرہ
کیاہے اور کھل کر فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیااور دیگر عالمی امور پر بھی
امت کی توقعات پرپورے نہیں اترے لیکن بالخصوص سعودی عرب کے حکمرانوں نے
حاجیوں کی خدمت کر کے اپنی روایتی مہمان نوازی کو دنیا کے سامنے ثابت
کیاہے۔جدہ کے ہوائی اڈے سے حج و عمرہ کر کے واپس جدہ کے ہوائی اڈے تک حجاج
کرام بھرپور طریقے سے اپنے میزبانوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔سعودی حکومت نے
حرمین شریفین کے انتظام و انصرام اور حجاج کرام کی خدمت داری پر بلامبالغہ
پانی کی طرح وسائل خرچ کیے ہیں۔ہم دعا گوہیں کہ جس طرح وہ امت کے ان
مہمانوں کی میزبانی کا حق اداکرتے ہیں اسی طرح حرمین کی مرکزی حیثیت کے
باعث حرمین کے متولی ہونے کی حیثیت سے پوری امت کی قیادت و سعادت کا فریضہ
سرانجام دیں۔امت اس بات کی منتظر ہے کہ انبیاءعلیھم السلام کی امین اس
محترم ومقدس سرزمین سے یہودیوں اور اور عیسائیوں کے ناپاک قدم کب باہر
نکلیں گے۔ |