چلناپھرنا ایک عام شخص کے لیے معمول کی بات لگتی ہے، لیکن
ریڑھ کی ہڈی کے شدید زخموں کا شکار لاکھوں افراد کے لیے یہ خواب ہمیشہ کے
لیے ادھورا رہ جاتا ہے۔ مگر اب چین میں ایک انقلابی ٹیکنالوجی نے اس خواب
کو حقیقت بنانے کی راہ ہموار کی ہے۔ شنگھائی میں چار مریضوں نے "دماغ اور
ریڑھ کے درمیان رابطہ"پر مبنی سرجری کے بعد دوبارہ چلنے کا تجربہ کیا ہے،
جو نہ صرف سائنس کی دنیا میں ایک بڑی کامیابی ہے بلکہ لاکھوں افراد کے لیے
نئی امید کی کرن بھی۔
یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے ؟اس کا جواب
کچھ یوں ہے کہ چین کی فوڈان یونیورسٹی کی ٹیم نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے
جو دماغ سے نکلنے والے سگنلز کو پکڑتا ہے، انہیں ڈی کوڈ کرتا ہے، اور ریڑھ
کی ہڈی کے مخصوص حصوں کو بجلی کے اشارے بھیجتا ہے۔ یہ طریقہ زخمی حصے کو
بائی پاس کرتے ہوئے پٹھوں کو حرکت دینے میں مدد کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں،
یہ ٹیکنالوجی دماغ اور ریڑھ کے درمیان ایک "نیورل شارٹ کٹ" بناتی ہے، جس سے
مریض اپنے اعضاء کو قدرتی طور پر کنٹرول کر پاتے ہیں۔
اس حوالے سے حالیہ مثال ایک تیس سالہ شخص لین کی ہے جنہیں دو سال قبل ایک
حادثے کے بعد وہیل چیئر پر انحصار کرنا پڑا۔ جنوری 2024 میں، اُنہوں نے
فُوڈان یونیورسٹی کے کلینیکل ٹرائل میں حصہ لیا۔ سرجری کے تیسرے دن، وہ
اپنے دماغی سگنلز سے ٹانگیں ہلانے کے قابل ہو چکے تھے۔ دو ہفتوں میں، وہ
رکاوٹوں پر قدم رکھنے لگے، اور 15 دن بعد معاون فریم کی مدد سے 5 میٹر تک
چلنے میں کامیاب ہو گئے۔ لین نے انتہائی جذباتی انداز سے کہا کہ وہ پہلے
اپنی جسمانی کیفیت پر ہر روز آنسو بہاتے تھے، مگر اب وہ چل سکتے ہیں جس کے
لیے وہ تحقیقی ٹیم کے انتہائی مشکور ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2023 میں سوئٹزرلینڈ کی ایک تحقیق نے اسی اصول پر
کام کیا تھا، مگر فُوڈان یونیورسٹی کا طریقہ زیادہ محفوظ اور کم تکلیف دہ
ہے۔ سوئس طریقے میں سر کی ہڈی میں بڑے سوراخ کرنے پڑتے تھے، جبکہ چینی ٹیم
نے انتہائی باریک الیکٹروڈز استعمال کرتے ہوئے صرف 4 گھنٹے میں سرجری مکمل
کی۔ مریضوں کو ہفتوں کی بجائے دنوں میں نتائج ملنے لگے۔
چین جیسے بڑی آبادی کے حامل ملک کے لیے یہ کامیابی نہایت اہم ہے۔ملک میں
37.4 لاکھ افراد ریڑھ کی ہڈی کے زخموں کا شکار ہیں، جن میں ہر سال 90 ہزار
نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف چلنے بلکہ جسمانی کنٹرول کو
بحال کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ لین کے معاملے میں، سرجری کے
بعد ٹانگوں میں حس واپس آئی، پٹھے مضبوط ہوئے، اور جسمانی افعال پر کنٹرول
بڑھا ہے۔
مستقبل کے چیلنجز اور امیدوں کو دیکھا جائے تو اگرچہ یہ ٹیکنالوجی امید
افزا ہے، لیکن اسے عام استعمال میں لانے کے لیے کئی رکاوٹیں ہیں۔ مثال کے
طور پر، الیکٹروڈز کی کمی، پیچیدہ سرجری، اور روزانہ 5 سے 7 گھنٹے کی بحالی
کی ورزشیں شامل ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ "دماغی سگنلز کو درست طریقے
سے ڈی کوڈ کرنا ابھی سب سے بڑا چیلنج ہے۔تاہم ، مزید آگے بڑھتے ہوئے فُوڈان
یونیورسٹی کی ٹیم اب زیادہ کلینیکل ڈیٹا اکٹھا کرنے، الگورتھمز کو بہتر
بنانے، اور حکومتی منظوری کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ مستقبل میں، وہ پہننے
والے آلات بھی تیار کریں گے جو کم شدید کیسز میں مددگار ثابت ہوں گے۔
وسیع تناظر میں یہ تحقیق نہ صرف میڈیکل سائنس میں ایک تاریخی قدم ہے، بلکہ
اُن لاکھوں افراد کے لیے روشنی کی کرن ہے جو اپنی روزمرہ کی زندگیوں کو
واپس پانے کے لیے ترستے ہیں۔ جیسے جیسے یہ ٹیکنالوجی ترقی کرے گی، امید ہے
کہ یہ صرف چلنے تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ انسان کی فطری صلاحیتوں کو بحال
کرنے کا ایک نیا باب کھولے گی۔
|