ڈی،ایم، جی بھیرہ شریف کی 100 سالہ تقریبات

دور حاضر کی ترقی کے مثبت اور منفی پہلو
تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

جدید سائنسی ترقی نے انسانی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما کی ہیں، جن میں فائدے اور نقصانات دونوں شامل ہیں۔جدید طب اور طبی تحقیق نے انسان کو بہت سی بیماریوں سے محفوظ کیا ہے، جس سے اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ویکسینز، ادویات اور جدید علاج کی بدولت آج بہت سی مہلک بیماریوں پر قابو پایا جا چکا ہے۔ ٹیکنالوجی، جیسے کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اور موبائل، نے روزمرہ کی زندگی کو آسان اور تیز تر بنا دیا ہے۔ معلومات تک فوری رسائی اور مواصلات میں آسانی نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج سے بھی آگے کا درجہ دے دیا ہے۔جدید ٹرانسپورٹ، جیسے کہ ہوائی جہاز، تیز رفتار ٹرینز، اور خودکار گاڑیوں نے سفر میں آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کائنات، زمین اور فطرت کے راز جاننے میں بہت مدد ملی ہے۔ اس علم سے انسان کی سمجھ اور آگاہی میں اضافہ ہوا ہے۔ بہتر زراعتی طریقے اور جینیاتی طور پر بہتر بیج نے خوراک کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے، جس سے خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ جہاں ہم نے اس دور جدید کی ترقی سے بہت کچھ پایا وہاں بہت سے خرابیوں نے بھی جنم لیا۔ مثلا مشینی زندگی اور ٹیکنالوجی کی بھرمار نے انسان کو فطرت سے دور کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ شہر کی زندگی میں قدرتی ماحول سے کٹ چکے ہیں، جس سے ذہنی سکون میں کمی آئی ہے۔ صنعتوں، گاڑیوں اور جدید طرز زندگی نے فضا، زمین، اور پانی کی آلودگی میں اضافہ کیا ہے۔ یہ آلودگی نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا کو قریب کیا، وہیں اس نے لوگوں کے مابین جسمانی میل جول اور سماجی تعلقات میں کمی کا باعث بھی بنی ہے۔ سوشل میڈیا اور ورچوئل دنیا میں لوگ وقت گزارتے ہیں، جس سے حقیقی انسانی تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ جدید سائنس نے اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرتے ہوئے کئی ایسے طریقے اختیار کیے ہیں جو دینی و اخلاقی طور پر سوالات کو جنم دیتے ہیں، جیسے جینیاتی انجینئرنگ اور مصنوعی ذہانت کی بےحد ترقی۔
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ تیز رفتار زندگی اور مقابلے کے رجحان نے ذہنی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ زیادہ تر لوگ کام، زندگی کے معیار، اور مختلف دباؤ کے باعث ذہنی سکون سے دور ہو چکے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جدید سائنسی ترقی نے انسان کو بہت سی آسانیاں، سہولیات اور علم فراہم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی فطرت سے دوری، آلودگی، اور سماجی و اخلاقی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ جدید ترقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پیش آمدہ مسائل کا حل بھی تلاش کرے اور زندگی میں ایک توازن قائم کرے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان ذہنی سکون کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ انسان ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے کچھ اصولوں اور طرزِ زندگی میں تبدیلیاں اپنا سکتا ہے۔ ہر دور میں انبیاء کرام علیہم السلام انسانوں کو مقصد تخلیق سے آگاہ فرماتے رہے اور انہیں ذہنی و قلبی سکون کیلئے اللہ تعالٰی کی ذات کی طرف متوجہ کرتے رہے۔ آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ میں بھی انسانی زندگی کی راہنمائی کیلئے ایک مکمل ضابطہ موجود ہے۔ مسلمان کے لیے ذہنی سکون کا حصول اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے۔ اسلام میں ذہنی سکون کے لئے خاص رہنما اصول اور عبادات موجود ہیں، جن پر عمل کرکے مسلمان حقیقی اطمینان پا سکتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "بے شک دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے" (سورۃ الرعد: 28)۔ روزانہ پانچ وقت کی نماز، ذکر و اذکار، اور دعا دل کو سکون فراہم کرتے ہیں اور دل سے خوف و پریشانی کو دور کرتے ہیں۔عبادت انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے، جس سے انسان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور حفاظت میں ہے۔ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے، جس میں رہنمائی اور سکون موجود ہے۔ قرآن کی تلاوت اور اس کے معنی پر غور و فکر انسان کے دل میں سکون اور اطمینان پیدا کرتا ہے۔قرآن میں مختلف مشکلات کے حل اور نصیحتیں موجود ہیں، جن سے انسان کو اپنی زندگی کی مشکلات میں رہنمائی ملتی ہے۔ اسلام صبر کی تعلیم دیتا ہے، اور صبر ذہنی سکون کا ذریعہ ہے۔ مشکلات اور آزمائشوں میں صبر سے کام لینے سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور انسان کے دل میں سکون پیدا ہوتا ہے۔ قناعت بھی سکون کا اہم ذریعہ ہے۔ جو انسان اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر راضی رہتا ہے، اس کے دل میں سکون پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنا دل میں اطمینان پیدا کرتا ہے۔ شکر گزاری سے انسان اپنی زندگی میں مثبتیت محسوس کرتا ہے اور حسد و جلن سے محفوظ رہتا ہے۔
اسلام میں تقدیر پر ایمان رکھنا اہم ہے۔ مسلمان کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تقدیر لکھی ہے، اور ہر واقعہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ یہ یقین دل میں سکون پیدا کرتا ہے کہ اچھا یا برا سب اللہ کے حکم سے ہے۔ اللہ سے دعا کرنا اور اپنی خطاؤں پر استغفار کرنا ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے۔ دعا سے انسان کو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور اللہ سے مدد مانگنے کا موقع ملتا ہے۔ استغفار کرنے سے انسان اپنے گناہوں سے پاک محسوس کرتا ہے اور دل میں اطمینان اور تازگی آتی ہے۔
اسلام نیکی اور دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے۔ نیک کام کرنے سے انسان کو دلی خوشی اور سکون ملتا ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے سے دل میں خوشی اور سکون پیدا ہوتا ہے۔زکاة، صدقہ اور خیرات دینے سے انسان کو سکون اور اللہ کی رحمت نصیب ہوتی ہے۔ اسلام انسان کو برے خیالات اور حسد، غیبت، اور نفرت سے بچنے کا درس دیتا ہے۔ منفی خیالات سے بچنا اور مثبت سوچ اپنانا ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے۔ اسلام دوسروں کو معاف کرنے اور دل میں بغض و کینہ نہ رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ معافی سے دل ہلکا ہوتا ہے اور انسان کو ذہنی سکون ملتا ہے۔ مسلمان کا یقین ہے کہ دنیا عارضی ہے اور اصل سکون آخرت میں ہے۔ جب انسان اپنی آخرت کی تیاری کرتا ہے، تو وہ دنیا کی مشکلات کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور دل میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ مسلمان کے لیے ذہنی سکون اللہ پر کامل بھروسہ، اس کی عبادت، اسلامی تعلیمات پر عمل، اور مثبت رویہ اختیار کرنے میں ہے۔
علاوہ ازیں اچھی خوراک، باقاعدہ ورزش اور مناسب نیند ذہنی سکون میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جسم، روح اور ذہن کا گہرا تعلق ہے، اور جسمانی صحت کی بہتری ذہنی و روحانی سکون کو بھی بڑھاتی ہے۔ منفی خیالات سے بچنا اور مثبت سوچ کو اپنانا ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے۔ اپنے پاس موجود نعمتوں کا شکر ادا کریں، جس سے دل میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ وقت کا درست استعمال زندگی میں توازن پیدا کرتا ہے۔ کام اور آرام کے اوقات کو منظم کرنے سے ذہنی بوجھ کم ہوتا ہے۔ ہر کام کو اس کے وقت پر کرنے سے دباؤ میں کمی آتی ہے۔ فطری مناظر میں وقت گزارنے اور اچھے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بھی انسان کو ذہنی سکون ملتا ہے۔ موبائل، سوشل میڈیا، اور انٹرنیٹ کا بے جا استعمال ذہنی سکون کو متاثر کر سکتا ہے۔ ان کا محدود اور مثبت استعمال بھی ذہنی سکون میں مدد دیتا۔ دوسروں کو معاف کرنا اور دل میں گلے شکوے نہ رکھنا دل کو ہلکا کرتا ہے۔ معافی دل کی سکون کا باعث بنتی ہے اور انسانی تعلقات کو بہتر بناتی ہے۔ ذہنی سکون کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی روحانی، جسمانی اور جذباتی زندگی میں توازن پیدا کرے۔ ان اصولوں کو اپنا کر اور زندگی میں سادگی، مثبتیت، اور قناعت کو فروغ دے کر انسان ذہنی سکون حاصل کر سکتا ہے۔ ان اصولوں کو اپنانا نہ صرف دنیا میں سکون اور خوشی فراہم کرتا ہے بلکہ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بھی ہے۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 210 Articles with 255578 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More