ابھی حال ہی میں چین میں منعقدہ "دو اجلاس" کے دوران جہاں
متعدد معاشی سماجی موضوعات پر بات کی گئی، وہا ں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی
ترقی بھی ایک زیربحث موضوع رہا کیونکہ چینی حکام کو بخوبی ادراک ہے کہ یہ
شعبہ آئندہ ملک کی قومی نشاۃ الثانیہ کی مہم میں ایک اہم کردار ادا کرے
گا۔یہ اجلاس ایک اہم سیاسی تقریب ہے جو چین کے ترقیاتی ایجنڈے پر فیصلہ
کرتی ہے جس میں ترقی کے اہداف شامل ہیں، قوانین منظور کیے جاتے ہیں، اور
دیگر امور کے علاوہ عظیم عوامی مفاد کے امور پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے.
ان دو اجلاسوں کی مختلف سرگرمیوں اور پریس کانفرنسوں میں ڈیپ سیک اور اے
آئی کا اکثر ذکر کیا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ اگر حالیہ عرصے میں ڈیپ
سیک کا غیر معمولی ذکر نہ ہو سکا تو یہ رجحان کو قبول نہ کرنے کے مترادف ہو
گا۔
قومی عوامی کانگریس کے اجلاس میں پیش کی گئی حکومتی ورک رپورٹ کے مطابق ،
چین اب مجسم مصنوعی ذہانت سمیت صنعتوں کی ترقی کو فروغ دے گا ، اور بڑے
پیمانے پر مصنوعی ذہانت کے ماڈل کے وسیع اطلاق کی حمایت کرے گا۔یہ پہلا
موقع ہے کہ روبوٹ جیسی جسمانی شکل کے ساتھ "مجسم مصنوعی ذہانت" یا اے آئی
اور ڈیپ سیک کی نمائندگی کرنے والے "بڑے پیمانے پر اے آئی ماڈلز" کو سالانہ
ورک رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
چینی حکام کے نزدیک ڈیپ سیک اور اس کا اوپن سورس اے آئی ماڈل بنیادی طور پر
جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کو جمہوری بنانے کے بارے میں ہے۔مصنوعی ذہانت تک
رسائی کو محدود کرنے کے لئے اعلیٰ لاگت اور بھاری سرمایہ کاری کا استعمال
کیا جاتا تھا۔ اب مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تک عام لوگ رسائی حاصل کر سکتے
ہیں۔
چین کے مجوزہ گلوبل اے آئی گورننس انیشی ایٹو کو ہی دیکھا جائے تو اس سے
تکنیکی خلیج کو ختم کرنے اور سائنس ٹیک جدت طرازی کو "امیر ممالک اور امیر
وں کا کھیل" بننے سے روکنے میں مدد مل رہی ہے۔چین میں جاری ٹیکنالوجی بوم
نے صنعت، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، گورننس اور سماجی زندگی میں مصنوعی
ذہانت کو مربوط کیا ہے۔ملک میں مصنوعی ذہانت کی اہمیت اس حقیقت سے بھی مزید
اجاگر ہوتی ہے کہ اسے نئے معیار کی پیداواری قوتوں کے طور پر تسلیم کیا گیا
ہے۔آج چینی جامعات بھی مصنوعی ذہانت کے ادارے قائم کرنے میں نمایاں دلچسپی
لی رہی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اے آئی کا ٹیلنٹ مزید ابھر کر
سامنے آئے گا۔
"دو اجلاس" میں بات چیت کے دوران مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال پر بھی توجہ
مرکوز کی گئی ہے ، جس میں اس شعبے پر بہتر قواعد و ضوابط کا مطالبہ کیا گیا
ہے۔گزشتہ سال مصنوعی ذہانت قومی خبروں کی سرخیوں میں اس وقت سرخیوں میں آئی
تھی جب دھوکہ بازوں نے ایک معروف چینی اداکار کی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ
تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے ان کے مداحوں کو دھوکہ دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ
چینی حکام نے اجلاس کے دوران اس طرح کے "گھناؤنے کاموں اور جرائم" کی مذمت
کی اور مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز کے لئے صنعتی قواعد و ضوابط کے قیام کا
مطالبہ کیا۔چینی حکام یہ بھی چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق مسائل
جیسے ٹیلنٹ کی کاشت، روزگار کے تحفظ، بین الاقوامی تعاون، اور کاپی رائٹ
اور انٹلیکچوئل پراپرٹی کے تحفظ کا احاطہ کرتے ہوئے، مصنوعی ذہانت کے موئثر
اطلاق کو مزید وسعت دی جائے۔
چین کے لیے یہ امر قابل اطمینان ہے کہ ، جون 2024 تک چین میں جنریٹیو اے
آئی مصنوعات کی صارفین کی بنیاد 23 کروڑ ہو چکی ہے ، اور ملک نے 4،500 سے
زیادہ متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ نسبتاً جامع اے آئی انڈسٹری ایکو سسٹم تعمیر
کیا ہے ،یوں پہلے ہی ملک میں مختلف امور کی انجام دہی کے لئے مصنوعی ذہانت
کا اطلاق عمدگی سے جاری ہے اور صارفین کے بہترین مفاد میں اسے قواعد و
ضوابط سے ہم آہنگ کرتے ہوئے مزید وسعت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
|