بلوچستان، پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے،
جو اپنی منفرد جغرافیائی حیثیت، قدرتی وسائل، اور تاریخی پس منظر کی بنا پر
خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مضمون میں بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کا
تفصیلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
جغرافیائی محلِ وقوع اور سرحدیں:
بلوچستان پاکستان کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب میں
ایران، شمال میں افغانستان، مشرق میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور
پنجاب، جبکہ جنوب میں بحیرہ عرب سے ملتی ہیں۔ ایران کے ساتھ اس کی سرحد
تقریباً 829 کلومیٹر اور افغانستان کے ساتھ 509 کلومیٹر طویل ہے، جو اس کی
دفاعی اور اقتصادی اہمیت کو مزید بڑھاتی ہے۔
اسٹریٹجک اہمیت:
بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت اسے بین الاقوامی تجارت اور علاقائی روابط کے
لیے ایک کلیدی مقام عطا کرتی ہے۔ یہ صوبہ وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی
ایشیا کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ گوادر بندرگاہ، جو بحیرہ عرب کے ساحل
پر واقع ہے، عالمی بحری تجارت کے لیے ایک اہم مرکز بن چکی ہے اور
چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا ایک بنیادی حصہ ہے۔
قدرتی وسائل اور معدنیات:
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں تانبے، سونے، کوئلے، گیس اور
دیگر قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ان وسائل کی موجودگی نہ صرف
ملکی معیشت کے لیے اہم ہے بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کو بھی متوجہ کرتی
ہے۔
ثقافتی اور تاریخی ورثہ:
تاریخی اعتبار سے، بلوچستان مختلف تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ مہرگڑھ جیسے
قدیم آثار، جو سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانے کے ہیں، اس علاقے کی قدیم
تاریخ کی گواہی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سکندر اعظم کی مہمات اور اسلام کی
ابتدائی فتوحات کے نقوش بھی اس سرزمین پر ملتے ہیں۔
اقتصادی ترقی اور چیلنجز:
اگرچہ بلوچستان قدرتی وسائل اور اسٹریٹجک محلِ وقوع کے باعث بے پناہ
امکانات رکھتا ہے، لیکن ترقی کے حوالے سے کئی چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی کمی، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی، اور امن و
امان کی صورتحال جیسے مسائل ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان مسائل
کے حل کے لیے مربوط حکمت عملیوں اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
نتیجہ:
بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت، قدرتی وسائل، اور تاریخی پس منظر اسے پاکستان
کا ایک اہم ترین صوبہ بناتے ہیں۔ اس کی ترقی اور استحکام نہ صرف ملکی بلکہ
علاقائی سطح پر بھی مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس کی اہمیت
کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس کی ترقی کے لیے جامع اور پائیدار منصوبے ترتیب دیے
جائیں۔
ایک طرف پاکستان اور چین کے تعاون سے معاشی منصوبہ سی پیک آخری مراحل میں
ہے تو دوسری طرف بلوچستان میں غیر ملکی فسادی متحرک ہوگئے ہیں۔ بلوچستان کے
سادہ لوح بلوچ عوام کو ورغلا کر اپنی ہی سرزمین کے خلاف استعمال کیا جارہا
ہے۔ بلوچستان قدرتی وسائل کوئلہ، گیس تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ
سے عالمی قوتوں کو ٓشروع دن سے کھٹک رہا ہے۔
بلوچستان کے خلاف ہونے والی سازش کے مرکزی محرک بھارت اور اسرائیل ہیں۔
پڑوسی ملک افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ بی
ایل اے کے خفیہ ٹھکانے سارے افغانستان اور بھارت میں موجود ہیں۔
ہماری موم بتی مافیا بلوچ لاپتہ افراد کو مقدمہ لے کر این جی اوز سے پیسے
تو بٹورتے ہیں مگر تحقیق نہیں کرتے کہ آیا یہ لاپتہ افراد کیے کس نے ہیں؟
اور لاپتہ کے نام پر کون ملکی سالمیت سے کھیل رہا ہے؟ یہ جو لاپتہ افراد
ہیں دراصل یہی ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ بی ایل اے کا طریقہ
واردات بھی یہی ہے کہ نوجوانوں کو ورغلا کر یا پھر انہیں اغواء کرکے الزام
پاکستان کے ادروں پر لگادینا اور پھر موم بتی مافیا کے آگے ہڈی ڈال کر اُسے
پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
جعفر ایکسپریس کے بعد صورت حال واضح ہوچکی ہے کہ لاپتہ افراد میں سے اکثریت
اس وقت بی ایل اے کے کیمپوں میں موجود ہے اور انہیں پاکستان کے خلاف سازش
میں استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ ففتھ جنریشن وار ہے، اور ہمارا دشمن اسے جنگ کے لیے نوجوان نسل کو بطور
ایندھن اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ ہمیں اپنے
نوجوانوں کو اس گند سے بچانا ہوگا۔ سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لیے کوئی
میکنزم بنایا جائے، سرکاری ملازمین کے سوشل میڈیا فیس بک، ٹیوٹر اور دیگر
سوشل میڈیا ذرائع استعمال کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ وٹس ایپ گروپس کی
مانیٹرنگ میں مزید تیز کی جائے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب کو اپنی
مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاک فوج ہے تو
پاکستان ہے۔ یہی ہماری سرحدوں کے حقیقی محافظ ہیں۔ ان کے بغیر ہمارا اقتدار
اعلیٰ پاش پاش ہوجائے گا۔
بلوچستان میں لگی آگ پر پانی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بلوچوں کو منایا جائے
انہیں سمجھایا جائے کہ وہ ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار نہ بنیں۔ ان کے لیے
تعلیمی ادارے اور انفراسٹریکچر ڈویلپ کیا جائے گا۔
|