صدر ٹرمپ کے ٹیرف لگانے پر پاکستان و دوسرے ممالک پر کیا اثرات ہوئینگے*

اصل میں ٹیرف ایک قسم کا درآمدی ٹیکس ہوتا ہے جو کسی ملک میں بیرون ملک سے آنے والی اشیاء پر لگایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد مقامی صنعتوں کو تحفظ دینا، تجارتی خسارہ کم کرنا یا بعض ممالک پر اقتصادی دباؤ ڈالنا ہو سکتا ہے. اس وقت ہر مُلک اپنی صنعتوں کو تحفظ دینے میں لگا ہوا ہے.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں بھی اس پالیسی کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ جب وہ اپنے پہلے دور اقتدار2016 میں صدر بنے تو انہوں نے چین، یورپی یونین، میکسیکو اور کینیڈا جیسے ممالک سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے تھے۔ اس وقت بھی ان کی حکومت کا مؤقف یہی تھا کہ زیادہ ٹیرف لگانے سے امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا کیونکہ لوگ مقامی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہوں گے۔

اور اب وہ اپنے دوسرے دور اقتدار 2025 میں دوبارہ امریکی صدر بننے کے بعد وہ پھر سے اسی پالیسی پر عملدرآمد کرکے دنیا بھر کے مُلکوں پر ٹیرف لگادیا ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی عدم توازن کو کم کیا جائے۔ اس سے ٹرمپ حکومت کا یہی اندازہ ہے کہ اس سے امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا اور ملازمتوں کو تحفظ ملے گا۔

اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں ٹرمپ نے تمام ممالک پراسٹیل اور ایلومینیم درآمد کرنے پر 25 فیصد ٹیرف لگایا ہے۔ اس کے علاوہ میکسیکواور کینیڈا پر سوائے توانائی کی مصنوعات کے تمام اشیا پر25 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔

امریکا نے نے چین کی مصنوعات پر اضافی 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد چین سے آنے والی اور خاص طور پر فینٹینائل، کی روک تھام تھا۔

امریکا کے اس اقدام کے بعد کچھ ممالک نے امریکا پر جوابی ٹیرف لگایا ہے۔ جس میں چین، میکسیکو، کینیڈا اور یورپین یونین شامل ہیں۔

دیکھا جائے تو اگر ٹیرف بڑھانے سے درآمد شدہ اشیاء مہنگی ہو جائیں گی، جس کا براہ راست اثر عام صارفین پر پڑے گا۔ جبکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس طرح کی تجارتی پالیسیاں عالمی معیشت پر بھی اثر ڈال سکتی ہیں اور دیگر ممالک اس کے مُقابلے میں جوابی اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔

جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد ہو گا۔ وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ تمام ممالک پر کم سے کم 10 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا تاکہ امریکی معیشت کی بحالی میں مدد مل سکے۔ یہ نئی شرح تقریباً 100 ممالک کو متاثر کرے گی، جن میں سے 60 ممالک کو زیادہ درآمدی ٹیکس کا سامنا کرنا ہو گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مجموعی طور پر 185 ممالک پرجوابی ٹیرف عائد کردیا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان پر29 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا اور کہا پاکستان امریکہ سے 58 فیصد ٹیرف چارج کرتا ہے۔
اس وقت امریکی ٹیرف کے پاکستان پر اثرات تو واقعی پڑینگے مگر پاکستان امریکہ کو کپڑے، چاول، سرجیکل آلات وغیرہ برآمد کرتا ہے۔ ٹیرف کا مطلب یہ ہے کہ امریکی خریداروں کو پاکستانی چیزیں مہنگی پڑیں گی، جس سے پاکستانی ایکسپورٹرز کو نقصان ہوگا۔

پاکستان کا ٹریڈ والیم امریکہ کے ساتھ سرپلس میں ہے۔ سادہ مطلب یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کو پانچ ارب ڈالر کا سامان بیچتا ہے اور امریکہ سے اڑھائی سے تین ارب کا سامان خریدتا ہے۔

اس فیصلے کے بعد ڈالر کا زرمبادلہ ملک آنا کم یا مُشکل ہو سکتا ہے جس سے پاکستان میں بے روزگاری بڑھنے کے چانس بڑھ جائینگے.

دوسری جانب ایسی صورتحال میں جب دنیا کی تمام بڑی سٹاک مارکیٹ کریش کر چکی ہیں پاکستان کی حصص مارکیٹ میں امریکی صدر کی جانب سے عائد کیے گئے 29 فیصد ٹیرف کا کوئی بڑا اثر ابھی تک دکھائی نہیں دے رہا۔

اس وقت پاکستانی سٹاک ایکسچینج میں معمول کے مطابق ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔ مگر ابھی تک پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی امریکی اقدام پر کسی قسم کا کوئیرد عمل سامنے دیکھنے میں آنہیں آیا ہے۔

جبکہ تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ جب امریکہ نے جوابی ٹیرف عائد کیا ہے تو ایسے میں انہوں نے تجارتی معاملات پر دو طرفہ مذاکرات کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے تاکہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے ٹیرف کا تعین کریں۔

جبکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مجموعی تجارت سات ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستانی تجارت سرپلس میں ہے یعنی پاکستان امریکہ کو زیادہ مالیت کی چیزیں بیچتا ہے اور کم مالیت کی چیزیں خریدتا ہے۔ اگر پاکستان کی مجموعی برامدات کو دیکھا جائے تو پاکستان , امریکہ کوئی بہت بڑا تجارتی پارٹنر نہیں ہے اس کے باوجود مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کی جانب سے ٹیرف پاکستان کی تجارت کے لیے مُشکل ہے.

اس وقت پاکستان کو کسی بھی قسم کا رد عمل دینے سے پہلے دیکھنا چاہیے دیگر دوست ممالک بالخصوص چین ،انڈیا ، مڈل ایسٹ اور یورپی ممالک کی طرف دیکھنا چاہیے کہ وہ اس پر کیسا رد عمل دیتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرے اور جو پاکستان 58 فیصد ٹیرف وصول کر رہے ہیں اس کے جواب میں امریکہ نے جو 29 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے اس کو متوازن بنانے کی فوراُُ کوشش کی جانی چاہیے۔

پاکستان ماہرین معاشیات کا یہ کہنا کہ جب امریکہ نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے تو ایسے وقت میں امریکہ کی جانب سے ان ممالک پر بھی کم و بیش اتنا ہی ٹیرف عائڈ کیا ہے جن سے پاکستان کے متبادل اشیا امریکہ میں درآمد کی جا سکتی ہیں۔ تاہم جو امریکی خریدار ہے وہ پہلے عالمی مارکیٹ میں دیکھے گا کہ پاکستان سے کم ٹیرف کس ملک پر لگایا گیا ہے اور کیا جو اشیا پاکستان سے امریکہ منگوائی جا رہی ہیں وہ کسی دوسری جگہ سے سستی منگوائی جا سکتی ہیں تو ایسے میں پاکستانی ایکسپورٹرز کا کافی نقصان ہوگا۔ اس نقصان کی صورت میں پاکستان میں زر مبادلہ کی آمد میں جو پہلے ہی کمی واقع وہ اور ہوجائیگی.

دیکھا جائے تو امریکہ نے ایک ایسے وقت میں پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جب پاکستان کی یہ حالیہ حکومت امریکہ کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے لیے کوششیں کرنے میں لگا ہوا ہے.

اس وقت امریکہ کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد پاکستان میں سب سے بڑا شعبہ جو متاثر ہوگا وہ ٹیکسٹائل ہے۔ نئے امریکی اقدام کے نتیجے میں پاکستانی ایکسپورٹرز کو نئے مقابلہ جاتی رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے نئے ریٹس دینا پڑیں گے تاکہ عالمی مارکیٹ بالخصوص امریکہ کی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات پہنچتی رہیں۔

’ اور یہ بھی دیکھنا پڑئیگا کہ امریکہ نے پاکستانی مصنوعات پر جی ایس پی پلس سٹیٹس کی طرز پر کوئی مراعاتی ڈیوٹیز عائد کر رکھی تھی کیا وہ بھی ختم کر دی گئی ہیں یا برقرار ہیں اگر وہ ختم کی جاتی ہیں تو اس سے پاکستانی تجارت کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہیے.

دیکھا جائے تو پاکستان کے پاس اس کا حل صرف یہ ہی ہے کہ اکستان انسانی حقوق میں بہتری لائے۔ تاکہ یورپ کے ساتھ جی ایس پی پلس کا سٹیٹس برقرار اور پائیدار رہے اور پاکستان یورپی مارکیٹ میں زیرو ٹیکس ایکسپورٹ کو انجوائے کر سکے۔ اس کے علاوہ مڈل ایسٹ سے تجارت فورا بڑھانی ہو گی۔

اس وقت پاکستانی بزنس کیمونیٹی کو دنیا میں اپنی پروڈکٹ بیچنے کے لیے پیداواری معیار کو مزید سائینٹیفک طریقے سے بہتر بنانا ہوگا تاکہ امریکی ٹیرف کے باوجود درآمدات میں کمی نہ ہو اور ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اجبکہ پاکستانی مصنوعات کو ویلیو ایڈیشن کے ذریعے دنیا میں پہنچانے کے لیے اب زور شورسے محنت کرنا ہوگی۔ جس طرح کے آج کل کے حالات ہیں ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی حکام اس کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ وہ تیار ہوں گے اور ان کے پاس صورتحال سے نکلنے کا راستہ بھی موجود ہوگا۔

دیکھا جائے جب بڑیکہنا ہے کہ جب ممالک کے درمیان ٹیرف کی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو پھر دونوں ممالک کے عوام اس کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ٹیرف لگائے جانے کے بعد پاکستانی مصنوعات امریکہ میں مہنگی ہو جائیں گی اور یوں امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب پاکستانی ایکسپورٹرز متاثر ہوں گے اور اگر پاکستان نے جوابی ٹیرف عائد کیا تو ایسی صورت میں پاکستان کے عوام کو بھی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

’صرف یہی نہیں بلکہ ایکسپورٹ میں کمی واقع ہونے سے پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی آنے کا بھی امکان بڑھ جائینگے.

اس وقت پاکستان کو اپنا جی ایس پی پلس سٹیٹس بچانے کے لیے ابھی سے تگ و دو کوشش کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اب ( سیاست کے علاوہ بھی ) دنیا میں اب نئی مارکیٹوں کی تلاش و جُستجو شروع کرنی چاہیے تاکہ ہماری برآمدات میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 467 Articles with 264425 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.