صہیونی ریاست کا مذاکرات سے ٹال مٹول:
معرکۂ طوفان الاقصی کے بعد، جنگ بندی کے لیے امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی
میں، حماس اور صہیونی ریاست اسرائیل کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات میں
یہ طے پایا کہ یہ جنگ بندی تین مرحلے پر مشتمل ہوگی۔ پہلے مرحلے کا نفاذ 19
/ جنوری 2025 کو شروع ہوا۔ پہلے مرحلہ یکم مارچ کو ختم ہونے والا تھا اور
دوسرے مرحلے کے لیے اس سے پہلے مذاکرات شروع کیا جاناچاہیے تھا۔ مگر صہیونی
ریاست نے ٹال مٹول شروع کردیا۔ پہلے مرحلے کی پوری مدت میں حماس نے معاہدے
کا پورا پاس ولحاظ رکھا اور معاہدے کے مطابق یرغمال قیدیوں کو رہا کرکے،
ہلال احمر کے کارکنان کے حوالے کرتا رہا اور وہ قیدی اسرائیل پہنچتے
رہے۔قابض ریاست نے جنگ کے دوران، جس طرح غزہ کی پٹی کو تباہ وبرباد کیا اور
نسل کشی کا ارتکاب، اس کا کوئی اثر غزہ کے عوام اور حماس کے اراکین پر ظاہر
نہیں ہوا؛ بلکہ یرغمالوں کو حوالہ کرنے سے پہلے، حماس والے اسٹیج سجاتے، اس
پر یرغمال قیدیوں کو لاتے، پوری شان وشوکت سے کاغذی کاروائی پوری کرتے،
پھران کو ہلال احمر کے راکین کے حوالے کرتے۔
جنک بندی کے پہلے مرحلے کے دوران، کئی مواقع سے اسرائیلی حکومت نے جس طرح
کی بیہودگی کی اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی کہ اگر حماس کے اراکین
اس کا جواب دیتے؛ تو معاہدہ ٹوٹ جاتا۔ مگر حماس نے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ
معاہدہ کا پاس ولحاظ رکھنے والے لوگ ہیں۔ معاہدے کے دوران قابض فوج نے وقفے
وقفے سے کئی بار بمباری کی۔ پھر صہیونی ریاست نے تمام یرغمال اسرائیلی
قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔اسرائیلی حکومت دوسرے
مرحلے کے مذاکرات میں شرکت کے لیے حماس کے خلاف ایسی شرطیں لگانے لگی جو
غیر معقول تھیں۔ معاہدے کی ایک اہم شرط غزہ کی پٹی میں امدادی سامان کی
ترسیل تھی۔ مگر صہیونی ریاست نے اس میں خلل ڈالا اور امدادی سامان پر
پابندی شروع کردی۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ذمےداران نے مارچ کے پہلے ہفتے میں،
یہ بیان جاری کیا تھا کہ اگر امدادی سامان پر،اس طرح پابندی کا سلسلہ جاری
رہا؛ تو غزہ میں خوراک کا ذخیرہ دو ہفتے میں ختم ہوجائے گا۔
حماس کا ردّ عمل:
اس پوری مدت میں حماس کا رد عمل مثبت رہا۔ حماس صہیونی ریاست کی طرف سے
معاہدہ کی خلاف ورزی کو برداشت کرتی رہی؛ مزید اعتماد سازی کے لیے سابق
خصوصی امریکی ایلچی آدم بوہلر نے فرمائش کی کہ حماس کی قید میں، دوہری
شہریت کے حامل زندہ اسرائیلی امریکی شہری:ایڈن الگزینڈر اور چار امریکیوں
کی لاش حوالے کردی جائے۔ حماس نے اس فرمائش کو قبول کرلیا۔ اب اس کے بدلے
میں، چار سو فلسطینیوں کو اسرائیلی قید سے رہا کیا جانا تھا۔ مگر صہیونی
ریاست نے انکار کردیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایک زندہ شخص اور چار لاشوں کے
بدلے چار سو فلسطینیوں کی رہائی کو ایک بیوقوفانہ فارمولہ قرار دیا؛ جب کہ
حقیقت یہ ہے کہ امریکی ثالثی میں جو معاہدہ ہوا تھا، اسی میں یہ فارمولہ طے
کیا گیا تھا۔ بہرحال، صہیونی حکومت نے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے
دوران، حماس کو مشتعل کرنے کے لیے کئی ایسے اقدام اٹھائے، جو معاہدے کے
خلاف تھے۔ پھر جب دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا وقت آیا؛ تو اسرائیلی وزیر
اعظم نیتن یاہو نے اپنے نمائندے کو بھیجنے میں ٹال مٹول سے کام لیا۔ آخر
کار، نیتن یاہو نے جنگ بندی معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کردیا۔
ٹرمپ کے بیانات سے قابض ریاست کو حوصلہ ملتا ہے:
ٹرمپ نے پہلے غزہ کو قبضہ کرنے اور وہاں کے شہریوں کی جبری منتقلی کی بات
کی۔ پھر وہ وقفے وقفے سے حماس کو دھمکی دیتا رہا اور اس کے خلاف متعدد
بیانات دیے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں، حماس کے اراکین کو"شریر لوگوں کا
ٹولہ" قرار دیا۔ پھر اس نے پانچ مارچ 2025 کو اپنے صدارتی اکاؤنٹ ایکس پر،
حماس اور غزہ کے عوام کو مخاطب کرکےایک خط لکھا۔ ٹرمپ نے اس خط میں جس زبان
کا استعمال کیا ہے، اسے تھوڑی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی ریاستہائے
متحدہ امریکہ کے صدر یا کسی مہذب شخص کی زبان نہیں کہہ سکتا۔ٹرمپ نے اپنے
خط کا آغاز عبرانی زبان کے لفظ "شالوم" سے کیا ہے، جس کا مطلب سلام یا
الوداع کے ہوتے ہیں۔خط کا ترجمہ ملاحظہ فرمائے:
'شالوم حماس' کا مطلب ہے ہیلو اور الوداع – آپ انتخاب کر سکتے ہیں۔ تمام
یرغمالوں کو فوراً رہا کرو، بعد میں نہیں، اور ان تمام مقتول افراد کی
لاشیں فوراً واپس کرو جنھیں تم نے قتل کیا، ورنہ تمھارے لیے سب کچھ ختم ہو
جائے گا۔ صرف بیمار اور درندہ صفت لوگ لاشوں کو روکے رکھتے ہیں اور تم
بیمار اور درندہ صفت ہو! میں اسرائیل کو وہ سب کچھ بھیج رہا ہوں، جو اس کام
کو مکمل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی؛ تو ایک بھی
حماس کا رکن محفوظ نہیں رہے گا۔ میں ابھی تمھارے سابق یرغمالوں سے ملا ہوں
جن کی زندگیاں تم نے تباہ کر دی ہیں۔ یہ تمھارے لیے آخری وارننگ ہے! قیادت
کے لیے (یہ وارننگ ہے کہ)، اب غزہ چھوڑ نے کا وقت ہے، جب کہ ابھی بھی
تمھارے پاس موقع ہے۔ غزہ کے لوگوں کے لیے بھی: ایک خوبصورت مستقبل تمھارا
انتظار کر رہا ہے؛ لیکن (اس صورت میں) نہیں؛ اگر تم یرغمالوں کو روکے رکھتے
ہو۔ اگر تم ایسا کرتے ہو؛ تو تم مر چکے ہو! ایک سمجھدار فیصلہ کرو۔
یرغمالوں کو ابھی رہا کرو، ورنہ بعد میں جہنم رسید ہوگے!"
جب امن کا ٹھیکیدار، امریکہ کا صدر ایسی تلخ زبان استعمال کرے گا؛ تو اس کے
نتیجے میں، دنیا میں تباہی وبربادی ہی ہوگی۔ ٹرمپ کے ان جیسے بیانات سے
صہیونی قابض ریاست کو حوصلہ ملتا ہے۔ ٹرمپ کے اس خط کے بعد، اسرائیلی وزیر
دفاع نے کہا: اگر اسرائیلی قیدی جلد رہا نہیں کیے گئے؛ تو غزہ کی پٹی پر
جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ پھر اس نے اپنی فضائی فوج کو حکم دیا کہ
وہ غزہ کے فضا میں لڑاکا طیارے اڑانے شروع کریں۔
حماس کو غیر مسلح ہونے اور غزہ خالی کرنے کی دھمکی:
امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اور اسرائیل نے امن مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے
یہ شرط عائد کی کہ حماس ہتھیار ڈال کر، غیر مسلح ہوجائے اور غزہ خالی کردے۔
امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ برائے امن مذاکرات: اسٹیو وٹکاف کے لب ولہجے
اور بیان سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ صدر ٹرمپ کو جنگ بندی سے کہیں زیادہ
دلچسپی غزہ کے مکینوں کو غزہ سے جبری طور پر منتقل کرنے میں ہے۔ چناں چہ
مسٹر وٹکاف نے فوکس ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: مزاحمت کاروں کے
ہتھیار ڈال کر، غزہ خالی کردینے سے وہاں امن کا دور شروع ہوگا۔جب ان سے یہ
سوال کیا گیا کہ: کیا مزاحمت کار یہ شرط قبول کرلیں گے؟ تو ان کا جواب یہ
تھا کہ "ان کے پاس متبادل کیا ہے؟" غزہ خالی کردینے کے سوا مزاحمت کاروں کے
پاس کوئی چارہ نہیں۔
غزہ پر تابڑ توڑ بمباری اور حماس کے اہم رہنماؤں کی شہادت:
پھر 18 مارچ 2025 کو ،دو مہینے کی جنگ بندی کے بعد ، انسانی اور بین
الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے، عین سحری کے وقت، اسرائیل نے
غزہ کی پٹی پر تابڑ توڑبمباری شروع کردی۔ بمباری اتنی شدید تھی کہ غزہ کی
پٹی مسلسل دھماکوں سے گونجتی رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اس بمباری کے نتیجے
میں، ایک ہی رات میں پانچ سو سے زائد فلسطینی شہید ہو ئے ، جن میں حماس کے
بڑے قائدین بھی شامل تھے۔ غزہ کے حکومتی میڈ یا دفتر نے اعلان کیا کہ
بمباری میں حکومت کے سر براہ عصام الد علیس ، وزیر انصاف احمد الحسنہ ،
وزارت داخلہ کے سیکریٹری محمود ابو وطفہ اور سیکیورٹی ایجنسی کے سر براہ
بہجت ابو سلطان شہید ہو گئے ہیں۔ الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کی
وزارت صحت نے اپنے بیان میں بتایا کہ پہلی رات کی اسرائیلی بمباری میں 412
فلسطینی شہید ہوئے ، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے؛ جب کہ 440
سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔ یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور ہزاروں عوام
شہید کیے جاچکے ہیں۔
صہیونی ریاست کے وزیر دفاع نے فضائی حملے کے ساتھ ساتھ، بری فوج کو بھی پیش
قدمی کا حکم صادر کیا۔ پھر اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخائی اور علی نے غزہ
کے شہریوں کو مشرقی علاقے خالی کر کے مغربی غزہ اور خان یونس منتقل ہونے کی
وارننگ دی ہے۔ اسرائیلی قابض فوج نے 31 / مارچ کو رفح کے بیشتر علاقوں سے
انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔فوج نے فلسطینیوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ
ساحل کے ساتھ پھیلے ہوئے خیموں سے مواصی کے علاقے کی طرف بڑھیں۔ فوج کے اس
حکم سے لگتا ہے کہ بہت جلد ہی بڑے پیمانے پر زمینی آپریشن کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ ، عرب ممالک اور حماس نے اس قتل عام کی شدید مذمت کی ہے اور
اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ حماس نے اسرائیل پر جنگ بندی معاہدہ
کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے اور کہا کہ حماس آج بھی سابقہ معاہدہ پر
قائم ہے اور عالمی برادری سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی اور
غزہ سے انخلاء پر مجبور کرے۔ اس وحشیانہ کارروائی کا جتنا بڑا مجرم اسرائیل
ہے، امریکہ بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صہیونی ریاست
امریکہ کے فراہم کردہ مہلک ہتھیاروں سے ہی فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔
عید کے دن بھی بمباری:
قابض اسرائیلی فوج نے عید کے مبارک دن میں بھی غزہ کے بے قصور عوام پر
بمباری کا سلسلہ جاری رکھا اور نسل کشی کے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتی
رہی۔ایک رپورٹ کے مطابق، عید کے دن صبح سویرےپانچ فلسطینی بچے سمیت تقریبا
آٹھ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔قابض فوج نے عید کے دن خان یونس کےمشرق میں
واقع بنی سہیلہ میں ایک مکان اور ایک خیمہ پر بمباری کی۔خان یونس کے ہی
مشرق میں واقع قصبہ: عبسان الکبیرہ پر بھی گولہ باری کی گئی۔غزہ کے شمال
میں، الجرن کے علاقے میں بھی ایک گھر پربمباری کی گئی، جس میں ایک شخص شہید
ہوا۔ ایک طرف غزہ کے لوگ عید الفطر کی نماز ادا کرتے رہے تھے اور دوسری
جانب قابض درندہ صفت صہیونی فوج مساجد، خیمے اور اسکولوں پر بمباری کررہی
تھی۔
حماس کے خلاف غزہ میں احتجاج کس نے منظم کیا؟
غزہ میں، شجاعیہ، بیت حنون اور بیت لاہیہ وغیرہ کے علاقے میں پہلی بار جنگ
بندی کے حق میں، سیکڑوں مظاہرین نے 25/ مارچ 2025 کو احتجاج کیا؛ تاکہ حماس
کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق، بروز:
منگل، 25/ مارچ کو شام میں سوشل میڈیا آؤٹ لیٹ " ٹیلی گرام" پر کسی نامعلوم
شخص نے ایک اپیل جاری کی کہ بدھ کے روز غزہ کے مختلف مقامات پر احتجاج کیا
جائے۔اتفاق ہے کہ اس حماس کے خلاف احتجاج میں، بعینیہ وہی نعرے لگائے جارہے
تھے جو اسرائیل کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ حماس کا غزہ میں وجود قبول نہیں
اور حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس مظاہرے سے متعلق یہ شک ظاہر کیا جارہا
ہے کہ یہ مظاہرہ صہیونی ریاست نے منظم کیا تھا۔ مزاحمتی گروپوں نے اس
مظاہرہ کومشتبہ تحریک قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ صہیونی قابض ریاست نے اس
مظاہرے کی تعریف وتحسین کی ہے۔
ایک دن صہیونی ریاست کو ان جرائم کی سزا ملے گی:
صہیونی ریاستی دہشت گردانہ کاروائی کی وجہہ سےآج غزہ کے عوام کا نہ صرف قتل
عام اور نسل کشی ہو رہی ہے؛ بلکہ وہاں کے عوام کو بدترین معاشی ناکہ بندی
کا بھی سامنا ہے۔ اوائل مارچ میں، قابض اسرائیل نے غزہ میں خوارک،
ایندھن،ادویات اور انسانی امداد کی تمام ترسیل بند کردی تھی۔ اب یہ خبر
آرہی ہے کہ بروز: پیر، 31/مارچ کوغزہ کی پٹی میں تمام بیکریوں نے اپنا کام
بند کردیا ہے۔قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے کراسنگ کی مسلسل بندش کے نتیجے
میں، ان کے پاس موجود آٹے اس کے آپریشنز کے لیے درکار ڈیزل کا ذخیرہ ختم
ہوچکا ہے۔ غزہ کی پٹی میں بیکری مالکان ایسوسی ایشن کے سربراہ عبدالناصر
الاجرامی کا کہنا ہے کہ"آٹے اور ڈیزل کی قلت کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں تمام
بیکریاں آج بند ہیں۔" انھوں نے خبردار کیا کہ اس بندش سے پٹی میں بڑے
پیمانے پر قحط پڑ جائے گا۔ الاجرامی نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی
پٹی میں قحط کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے کراسنگ کھولنے کے لیے قابض پر
دباؤ ڈالے۔ آج صہیونی قابض ریاست فلسطینی عوام کے خلاف جس طرح کا ظلم و جبر
کر رہی ہے، وہ جس طرح دہشت گردی اور قتل عام کر رہی ہے اور وہ جس طرح
فلسطینیوں کی نسلی کشی کا ارتکاب کر رہی ہے، اس سے پہلے دنیا کے کسی خطے
میں، کسی قوم کے خلاف نہیں ہوا۔ یہ سب تاریخ میں لکھا جائے اور آج نہیں تو
کل، صہیونی ریاست کو ان جرائم کی سزا مل کر رہے گی، ان شاء اللہ۔ ****
|