بی جے پی اچھا کیا جو کسی شاہنواز کو اقلیتی امور کی
وزارت سے نہیں نوازہ ورنہ اس بیچارے کوامیت شاہ کے اشارے پر کرن رجیجو کی
مانند وقف بل پیش کرکے اسے جائز ٹھہرانا پڑتا تھا۔ بی جے پی کے اگر کچھ
مسلم ارکان پارلیمان ہوتے تو وہ بھی پارٹی کی وفاداری میں دین سے بغاوت
کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے اور یہ مسئلہ ہندو مسلم کے بجائے مسلم مسلم
بن کر رہ جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ حسنِ اتفاق ہے بھارتیہ جنتا پارٹی
چاہتی ہے کہ ایسے تنازعات ہندو بنام مسلم ہوں اور امت کے لیے بھی اس میں
خیر کا پہلو ہے کہ اس کی اپنی صفوں میں کوئی انتشار نہ ہو بلکہ پوری ملت
سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اس طرح کے حملوں کا مقابلہ کرے ۔ وقف کے مسئلہ
پر امت کے تمام مکاتبِ فکر نے کمال یکجہتی کا ثبوت دیا ۔ اس کے علاوہ ماضی
میں حزب اختلاف کی جو سیاسی جماعتیں مسلمانوں کی حمایت میں تذبذب کا شکار
ہوتی تھیں انہوں نے بھی ایوان پارلیمان کے اندر اور باہر حکومت پر سخت
تنقید کی اس کے باوجود چونکہ تعداد حکومت کے ساتھ تھی اس لیے یہ قانون
منظور ہوگیا جسے اب عدالتِ عظمیٰ کی آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ اس کا کیا
نتیجہ نکلے گا یہ تو وقت بتائے گا ۔
ایوانِ زیریں میں وقف ترمیمی بل پر بحث کے دوران شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) سے
لے کر عام آدمی پارٹی تک سبھی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جم کر مخالفت کی
مگر نتیش ،نائیڈو، چراغ اور جینت جیسی کالی بھیڑوں نے سرکارکی نیاّ پار لگا
دی ۔ ان بیساکھیوں کے باوجود پارلیمانی ووٹنگ پر نظر ڈالیں تو کہیں بھی 80
بنام 20 کا منظر نہیں دکھائی دیتا۔ لوک سبھا کے اندر وقف ترمیمی بل کی
حمایت میں 288 ووٹ پڑے جو کل ووٹوں کا صرف 55 فیصد ہے اور مخالفت میں
232ووٹ پڑے جو 45فیصد ہے ۔ یعنی ساری جوڑ توڑ کے باوجود فرق صرف 6 فیصد ہے
۔ ارکان پارلیمان کی یہ تعداد اگر این ڈی اے سے کھسک کر انڈیا کی طرف
آجائے تو بازی الٹ سکتی ہے اور یہ بہت بڑا فرق نہیں ہے۔ ایسا الٹ پھیر کسی
مسلمانی تنازع پر ہوجانا تو خیر بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر مفید ہوسکتا
ہے مگر بدعنوانی یا چین وغیرہ کو لے کر ہوجائے تو یہ لنگڑی لولی سرکار بہ
آسانی زمین پر آسکتی ہے۔ بی جے پی حلیف جماعتیں فی الحال ثاقب لکھنوی کا
یہ شعر پر عمل پیرا ہیں ؎
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو نے اپنے مسلمان باغبانوں کو ناراض کردیا ہے۔ اب وہ
ان کے قریب نہیں پھٹکیں گے اور صیاد کا کیا کہ وہ تو شکار کی خاطر تاک
لگائے بیٹھا ہے۔ بی جے پی اپنے کئی حلیفوں کو نگل چکی ہے۔ اڑیشہ کے سابق
وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک اور مہاراشٹر کے ایکناتھ شندے اس کی تازہ ترین
مثالیں ہیں ۔ اب اس کا اگلا شکار نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو ہوں گے ۔
بی جے پی کے ذریعہ انڈیا محاذکے مقابلے زیادہ خطرہ اس کے حلیف جماعتوں خاص
طور پر ٹی ڈی پی اور بی جے پی کو ہے اس لیے وہ اپنے وجود کو بچانے کے لیے
مناسب وقت میں بغاوت کرسکتے ہیں۔ وقف ترمیمی قانون کی حمایت زمینی سطح پر
ان سیاسی ابن الوقتوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ اب ان کی منافقت کو پوری
طرح بے نقاب ہوچکی ہے اور آئندہ انتخاب میں انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی
۔
وقف ترمیمی بل کے ذریعہ بی جے پی اپنے کٹرّ رائے دہندگان کو خوش کرنے کے
ساتھ ساتھ اپنے حلیفوں کو کمزور کرنے کی کوشش میں کامیاب تو ہوگئی ہے مگر
اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فی الحال وہ خود کفیل نہیں ہے۔ ان بیساکھیوں
کی کمزوری اس کی اپنی لاچاری میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ ارکان پارلیمان
کو خرید کر اپنے ساتھ رکھنا آسان ہے مگر رائے دہندگان اگر ساتھ چھوڑ دیں
تو ان ارکان پارلیمان کے پیروں تلے سے زمین کھسک سکتی ہے۔اس کے سیاسی اثرات
وقت بتائے گا۔ انڈیا محاذ میں شامل کانگریس، آر جے ڈی اور کمیونسٹ پارٹیوں
نے وقف بل پر جو دو ٹوک رخ اختیار کیا ہے اس کا اثر بہار کے ریاستی انتخاب
پر پڑ سکتا ہے ۔ اس کی قیمت بی جے پی کے ساتھ نتیش ، چراغ اور مانجھی کو
ادا کرنی ہوگی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بیک وقت مخالف سمتوں کی کشتی میں سوار ہونے والے نہ گھر
کےر ہتے ہیں اور نہ گھاٹ کے۔ایوانِ زیریں میں وقف ترمیمی بل 2024 منظور
ہونے کے بعد ہی جے ڈی یو کے اندر افراتفری کا عالم ہے۔ پارٹی کےکئی رہنماوں
نے جلد ہی فیصلہ کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے ۔ پارٹی کے مسلم لیڈروں میں ایم
ایل سی غلام غوث، ایم ایل سی خالد انور، سابق رکن پارلیمان اور قومی جنرل
سکریٹری غلام رسول بلیاوی، اقلیتی محاذ کے صدر سلیم پرویز، سابق رکن
پارلیمان اشفاق کریم اور اشفاق احمد نے مخالفت شروع کردی ہے ۔ ان لوگوں کے
لیے اب پارٹی کا پرچم لے کر عوام جانا مشکل ہے کیونکہ اس بار جے ڈی یو نے
اپنے ہی پیر پر پارٹی کا نشان تیر چلا دیا ہے اور اس ہر کوئی لہو لہان ہے۔
قومی جنرل سیکریٹری غلام رسول بلیاوی نے آگاہ کیا کہ انہوں نے جے پی سی کو
31 صفحات پر مشتمل تجاویز دی تھیں اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمارسمیت
چندرا بابو نائیڈو کو بھی اس کی نقل بھیجی تھی۔ اس کے باوجود بل پاس ہو گیا
یعنی ان کی تجاویز کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا۔بل کی کاپی ملنے کے
بعد وہ امارت شرعیہ کی جانب سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے قانونی ماہرین
سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی
کھیت؟ بلیاوی کے مطابق اس وقت پورے ملک میں مسلمان اور امن پسند لوگ غصے سے
ابل رہے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ اب فرقہ پرست اور سیکولرمیں کوئی
فرق نہیں رہا۔ یہ غلط دعویٰ ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس بل نے اصلی اور
جعلی سیکولر پارٹیوں کے فرق کو کھول دیا ہے اورمذہبی رواداری کی نقاب اوڑھ
فرقہ پرستی کو مضبوط کرنے والے بے نقاب ہوچکے ہیں ۔ غلام رسول بلیاوی کے
قریبی لوگ ان کے پارٹی کو خیر باد کرنے کے امکانات کا اظہار کررہے ہیں اور
سچ تو یہ ہے ان کے پاس کوئی دوسرا چارۂ کار نہیں بچا ہے۔ ان کے ایک طرف
آگ اور دوسری جانب کھائی ہے۔
جے ڈی یو کے اقلیتی محاذ کے سابق صدر اور بہار قانون ساز کونسل کے سابق
نائب چیئرمین سلیم پرویز نے اعتراف کیا کہ نتیش کمار سے ملاقات کرکے انہیں
سب کچھ بتا دیا گیا تھا مگر ایک بار پھر اپنے درد بتائیں گےلیکن یہ بے
فائدہ مشق’بھینس کے آگے بین بجانے‘ کی مترادف ہے۔ وہ کہتے ہیں "مرکزی
حکومت نے اکثریت کی بنیاد پر بل پاس کیا ہے، لیکن ہم مسلم تنظیموں کے ساتھ
ہیں ۔" سلیم پرویز سے لوگ تو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے بغلگیر
نتیش کمار کے ساتھ ہیں یا نہیں؟ لوک سبھا میں وقف بل کی حمایت کے بعد باغی
تیور دکھاتے ہوےجے ڈی یو کے سینئر لیڈر ڈاکٹر محمد قاسم انصاری نے پارٹی کے
تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ۔انہوں نے پارٹی کے قومی صدر اور وزیر اعلیٰ
نتیش کمار کو بھیجے گئے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ ، 'وہ اور کروڑوں
ہندوستانی مسلمانوں کا ماننا تھا کہ نتیش کمار خالصتاً سیکولر نظریے کے
علمبردار ہیں، لیکن اب یہ یقین ٹوٹ گیا ہے۔' قاسم انصاری نے وقف ترمیمی بل
2024 پر جے ڈی یو کے موقف پر تنقید کی ہے اور کہا کہ للن سنگھ نے لوک سبھا
میں اس بل کی جس طرح حمایت کی اس سے نہ صرف انہیں بلکہ لاکھوں ہندوستانی
مسلمانوں اور کارکنوں کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔ الوداع نتیش کمار، الوداع جے
ڈی یو۔
بہار پردیش جنتا دل (یونائٹیڈ) کے اقلیتی ریاستی سکریٹری محمد شاہنواز ملک
نےاپنے استعفیٰ میں شدید تکلیف اور یقین ٹوٹنے کے علاوہ لکھا:’’ وقف بل ہم
ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ ہم اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کر
سکتے۔ یہ بل آئین کے بہت سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس بل کے
ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کی تذلیل اور توہین کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بل
پسماندہ مخالف بھی ہے۔ جس کا نہ آپ کو احساس ہے اور نہ آپ کی پارٹی کو۔
مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے کئی سال پارٹی کو دیئے۔اس لیے پارٹی
کی بنیادی رکنیت اور دیگر ذمہ داریوں سے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے رہا
ہوں‘‘۔
ایک طرف ان لوگوں کا یہ دھرم سنکٹ اور دوسری جانب تیجسوی یادو کی خود
اعتمادی جو کہتے ہیں :’’ ہم شروع سے ہی اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ لالو
جی نےبیمار حالت میں بھی جے پی سی پہنچ کر اپنی مخالفت درج کرائی۔ ہم گنگا
جمنی تہذیب کو ماننے والے لوگ ہیں۔ یہ آر ایس ایس کا ایجنڈا ماننے والے
لوگ ہیں اور مرکزی وزیر للن سنگھ تو اب بی جے پی میں ہیں۔ چراغ اور مانجھی
کا کوئی نظریہ نہیں ہے‘‘۔ ایسے میں وقف ترمیمی بل نے بہار کے مسلمانوں کا
سارا کنفیوژن دور کردیا ہے اور آئندہ انتخاب میں نتیش کمار سمیت بی جے پی
اس کی قیمت چکانی پڑے گی ۔ بعید نہیں کہ جس طرح دفع 370 ختم کرنے کے باوجود
وہ جموں کشمیر کا انتخاب ہار گئی اور ایودھیا کا رام مندر بھی اسے مقامی
سطح پر کامیاب نہیں کرسکا اسی طرح یہ ترمیمی بل اس کو بہار میں ناکامی سے
دوچار کردے ۔ |