فلسطین اس وقت دنیا کے مظلوم ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے
جہاں انسانیت سسک رہی ہے، معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے ہر روز اسرائیلی
جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ لیکن مسلم امہ سورہی ہے۔ یہ ظلم محض فوجی طاقت
سے نہیں بلکہ ایک معاشی، ثقافتی اور میڈیا کی جنگ کے ذریعے بھی جاری ہے۔ اس
تناظر میں ہمارا طرزِ زندگی، روزمرہ کی خریداری اور مصنوعات کا انتخاب بھی
اس ظلم کو یا تو تقویت دے رہا ہے یا اس کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بن رہا ہے۔
اسرائیلی مظالم پر مسلم امہ کی مجرمانہ خاموشی کسی بڑے عذاب کو دعوت دے رہی
ہے۔ غزہ میں ہر روز اسرائیلی بمباری، کرفیو، بچوں کی شہادت، اسپتالوں کی
تباہی، اسکولوں کی بندش اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اس بات کا ثبوت
ہیں کہ اسرائیل نہ صرف غاصب ہے بلکہ جدید دور کی سب سے بے رحم اور سفاک
ریاست ہے۔ یہ سب کچھ دنیا کے سامنے ہو رہا ہے لیکن بین الاقوامی طاقتیں
خاموش ہیں یا درپردہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
فلسطینی مسلمانوں پر کیے گئے مظالم میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا گھناونا
کردار بھی سامنے آیا ہے، یہود و نصاریٰ سرمایہ، طاقت اور ٹیکنالوجی کا
سہارا لے کر مظلوم فلسطینی عوام پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی ملٹی
نیشنل کمپنیاں، جیسے کوکاکولا، پیپسی، یونی لیور، نیسلے، مکڈونلڈز، KFC
وغیرہ، بظاہر عام صارفین کے لیے مصنوعات فراہم کرتی ہیں لیکن درحقیقت ان
کمپنیوں کی آمدنی کا بڑا حصہ اسرائیل کی مدد میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ
کمپنیاں فلسطینیوں کے خون سے آلودہ نفع حاصل کرتی ہیں۔ ایک عام مسلمان جب
ان اشیاء کو خریدتا ہے تو وہ جانے انجانے میں فلسطینی بچوں پر برسنے والے
بموں کی قیمت ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں معاشی جہاد کی سب سے بڑی
اہمیت ہے اور یہود و نصاریٰ کی مصنوعات کا بائیکاٹ ایک مؤثر ہتھیار ہوسکتا
ہے۔ غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ، احتجاج کی ایک خاموش مگر طاقتور صورت ہے۔
جب مسلمان مل کر ان مصنوعات کو استعمال کرنے سے انکار کریں گے تو یہ
کمپنیاں مجبور ہوتی ہیں کہ یا تو اپنا رویہ بدلیں یا نقصان برداشت کریں۔
ہماری خریداری ہماری نیت اور غیرت کی عکاس ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم صرف نعرہ
نہیں، عمل کی دنیا میں بھی فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیں۔
پاکستان میں کئی قابل فخر مقامی کمپنیاں موجود ہیں جو نہ صرف معیار میں
بہتر ہو رہی ہیں بلکہ مسلمانوں کے مفادات کو بھی نقصان نہیں پہنچاتیں۔ ہمیں
ان کمپنیوں کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ ملکی معیشت مضبوط ہو اور مسلمانوں کو
فائدہ پہنچے۔ ہم اگرچہ فلسطینیوں کے ساتھ جسمانی طور پر کھڑے نہیں ہو سکتے
لیکن معاشی میدان میں ان کے دشمنوں کو کمزور تو کر سکتے ہیں یہ بھی ایک
جہاد ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اکثر صارفین محض اشتہارات کے جال میں آ کر ان مغربی
مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں۔ میڈیا، برانڈ کلچر اور فیشن نے ہمیں اپنی اقدار
سے دور کر دیا ہے۔ دوسری طرف، ریاستی سطح پر بھی کوئی منظم حکمت عملی نہیں
کہ غیرملکی اجارہ داری کو محدود کیا جائے اور مقامی صنعتوں کو فروغ دیا
جائے۔ یہ شعور ہمیں بطور قوم خود بیدار کرنا ہوگا۔
یہ وقت جذبات سے بڑھ کر عمل کا ہے۔ فلسطین کے مظلوم بچوں، عورتوں اور
بوڑھوں کی آنکھیں ہماری طرف دیکھ رہی ہیں۔ اگر ہم ان کے زخموں پر مرہم نہیں
رکھ سکتے، تو کم از کم ان کے قاتلوں کو مالی سہارا دینا تو بند کریں۔ ہمیں
ہر خریداری سے پہلے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ جو چیز ہم خرید رہے ہیں، وہ کس
کی جیب میں جا رہی ہے؟ اگر وہ دشمنِ اسلام کی ہے تو ہمیں رک جانا چاہیے۔ اس
میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ میں نے یہود و نصاریٰ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا
ہے امید ہے کہ آپ بھی اپنا فرض پورا کریں گے ان شا الله۔
|