آؤ نہر نہر کھیلیں

پاکستانی سیاست میں منافقت حد سے زیادہ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ منافقت حد سے بڑھ جاتی ہے تو سیاست دان اسے مفاہمت کہنے لگتے ہیں۔شاید منافقت کا انجام مفاہمت ہی ہوتا ہے۔زرداری صاحب کہتے ہیں کہ نہریں نہیں بننے دیں گے لیکن بل پر سائن بھی کر دیتے ہیں۔ یہ مفاہمت کا پہلا مرحلہ ہے جسے آپ جو بھی نام دیں۔ آخر میں کچھ نہیں ہوگا۔ کار سرکاراسی طرح چلتا رہے گا۔ جب کبھی آپ کو دو سیاسی دھڑے ،جو بہت سی چیزوں میں شریک کار ہوں ،آپس میں کسی بات پر الجھتے دکھائی دیں تو اس نورا کشتی کو کبھی سنجیدگی سے نہ لیں۔غور کریں تو پس منظر میں آپ کو کوئی دوسرا ایسا مسئلہ نظر آ جائے گا جو زیادہ سنگین ہو گا اور حکومت اوراس کے اتحادی عوام کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانے کے لئے منافقت کر رہے اور ایک نورا کشتی چلانے اور دکھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں سنگین مسئلے سے لوگ ایک نئے غیر اہم مسئلے کی بحث میں الجھ جاتے اور یوں حکومت اپنا کٹھن وقت نکال لیتی ہے۔اس طرح منافقت بڑی آسانی سے مفاہمت میں ڈھل جاتی ہے۔آج کل نہروں کا ایشو چل رہا ہے حکومتی فریق نہر نہر کھیل رہے ہیں تو نہروں کے بارے میں ہی کچھ بات چیت ہو جائے۔ لوگوں کی معلومات میں شاید کچھ اضافہ ہو۔

دوسری صدی عیسوی میں جب پنجاب میں اشوکا کا دور تھا اس وقت ہندستان کے جنوب میں تامل علاقے میں چولا راجگان کی حکومت تھی۔یہ تامل نسل کے لوگ تھے اور ان کی حکومت ایک وسیع حکومت تھی جو جنوبی ہندستان اور سری لنکا پرمشتمل تھی۔ اس علاقے میں ایک دریا ہے، جس کا نام کاویری ہے،جو کرناٹک کے پہاڑی سلسلے برہماگری سے نکلتا اور کرناٹک اور تامل ناڈو کے 765 کلو میٹر لمبے رقبے کے گردونواح کو سیراب کرتا جاتا تھا۔ اس وقت چولا راجاؤں نے اس دریا پر ہندستان میں سب سے پہلا ڈیم بنایا جو کالانی ڈیم کہلاتا ہے۔ اس ڈیم سے ہندستان میں پہلی بڑی نہر عینی کٹ نکالی گئی۔یہ نہر ضلع تانجوری کے مقام سے نکالی گئی جو تامل ناڈو کے 38 ضلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ سارا زرعی علاقہ ہے۔ہندستان کا قدیم ترین یہ ڈیم اورقدیم ترین یہ نہر آج بھی موجود ہیں اوریہ نہری نظام دنیا کے قدیم تریں نہری سلسلوں میں سے ایک ہے۔

پاکستان میں موجود نہروں میں سب سے پرانی نہر لاہور کی نہر ہے ۔مغل شہنشاہ شاہ جہان نے 1628 سے1657 تک ہندستان پر حکومت کی ۔ اس نے لاہور میں شالا مار باغ بھی بنوایا۔اس وقت اس نہر کا بڑا مقصد شالا مار باغ کو وافر پانی مہیا کرنا تھا تاکہ اس کے خوبصورت فوارے اپنا جوبن دکھا سکیں۔ اس نہر کی ابتدا بھارت کے علاقے پٹھانکوٹ کے ایک گاؤں مدھوپور سے ہوئی اور یہ لاہور تک لائی گئی۔1644 میں بننے والی ا س نہر کی تعمیر کی نگرانی علی مردان نے کی۔اس کے علاوہ 100 میل لمبی یہ نہر لاہور اور فیروزپور کے علاقوں کو بھی سیراب کرتی تھی۔اس وقت اس نہر کو شاہی نہر کہا جاتا تھا۔

1849 میں پنجاب برطانیہ کی نوآبادی میں شامل ہو گیا۔انگریز حکومت کو یہ پتہ تھا کہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں چند سال پہلے 1837-38 میں جو قحط آیا تھا اس نے 25 ہزار مربع میل زمین اور 80 لاکھ افراد کو متاثر کیا تھا۔چنانچہ انہوں نے پنجاب اور سرحد کے نہری نظام کوبہتر کرنے کا آغاز کیا اور اسی سلسلے میں لاہور کے بہت سے بنجر علاقوں کو سیلاب کرنے کے لئے لاہور کی اس نہر کو رائے ونڈ کے علاقے تک بڑھا دیا۔1947 جب تقسیم کے بعد بھارت نے اس نہر کا پانی بند کر دیا تو دریائے چناب کی نہر اپر چناب سے ایک نئی نہر نکالی گئی۔ جو سیالکوٹ کے قریب بمبانوالہ گاؤں سے شروع ہو کر لاہور کے گاؤں بیدیاں تک سرحد کے متوازی بنائی گئی۔ اسی حوالے سے اس کا نام BRB کہلایا، بمبانوالا۔راوی۔بیدیاں کنال۔ 1948 میں ملک کا خزانہ عملاً خالی تھا، چنانچہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب ،جو غالباً نواب افتخار حسین ممڈوٹ تھے ،کی اپیل پر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی تعمیر کی اور اسے لاہور کی نہر سے ملا دیا گیا۔ سرحد کے ساتھ ساتھ بہتی یہ BRB نہرپاکستان کی بھارت کے خلاف دفاعی لائن بھی ہے جو 1965 کی جنگ میں اس نے ثابت بھی کیا۔ BRB کو اچھو گل نہر بھی کہا جاتا ہے۔
شاہی نہر جب تقسیم سے پہلے پٹھانکوٹ سے لاہور تک آتی تھی تو اس کے بارے رنجیت سنگھ سے منسوب ایک مشہور قصہ بھی ہے ۔ رنجیت سنگھ کی محبوبہ موراں یا موراں سرکار امرتسر کے قریب ایک گاؤں مکھن ونڈی کی رہنے والی تھی۔ وہ رنجیت سنگھ سے ملنے روز لاہور آتی۔ بھارت کے علاقے میں موجودہ بارڈر کے قریب ایک جگہ سے وہ نہر عبور کرتی اور رنجیت سنگھ کے پاس پہنچ جاتی۔بادشاہی مسجد کے باہر موجود بارہ دری ان کی ملاقات کا مرکز تھا۔ وہ آتی ، رنجیت سنگھ اس کا رقص دیکھتا، کچھ وقت گزارنے کے بعد وہ واپس اپنے گاؤں چلی جاتی۔ ایک دن وہ دیر سے آئی اور کچھ اداس تھی۔ رنجیت سنگھ نے اسے پوچھا تو اس نے بتایا کہ نہر عبور کرتے ہوئے اس کی سلور رنگ کی جوتی جو اس نے پہنی ہوئی تھی، نہر میں گر گئی تھی اور باوجود کوشش کے نہیں ملی۔ موراں کی آسانی اور اسے خوش کرنے کے لئے رنجیت سنگھ نے اسی جگہ فوری طور پر ایک پل بنوایا جو آج بھی وہاں موجود ہے اور موراں پل یا کنجری پل کے نام سے جانا جاتا ہے۔آج موراں کے شیدائی اسے کنجری کہنے پر برا مناتے اور اسے کنجری نہیں فنکار جانتے ہیں۔

آج کل دریاؤں میں کم پانی ہے اور یہ اتار چڑھاؤ سارا سال رہتا ہے۔ اسی لئے خریف اور ربیع کی فصلوں کے لئے پانی کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ سردیوں میں فصلوں کو کم پانی اور گرمیوں میں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔زیادہ پانی ہمارے پاس اس وقت ہوتا ہے جب پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے اور پانی ضائع بھی اسی وقت ہوتا ہے۔آج ہمارے دریاؤں میں بہت کم پانی ہے۔مگر چند دنوں کی بات ہے یہی پرسکون دریا ٹھاٹھیں مار رہے ہونگے اور پھر سیلاب بھی آئے گا۔ اس وقت جو زیادہ پانی ہمارے پاس ہو گا اسے سمندر برد ہونے سے بچانے کے لئے نہریں ہماری ضرورت ہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی علاقے کو کچھ تحفظات ہیں تو ان پر سیاست کرنے کی بجائے ، انہیں بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ منفی سیاست میں زیادہ کشش ہے اور اس میں سیاست دان کی شخصیت جلدی ابھر آتی ہے مگر یہ سب پاکستان کی قیمت پر نہیں ہونا چائیے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 589 Articles with 544874 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More