ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے دوسری بار امریکہ میں اقتدار کی باگ
ڈور سنبھالی ہے آتنک مچائے ہوئے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ نیا شوشا
نہ چھوڑا جائے اور ہنگامہ نہ کھڑا کیا جائے۔ اس طرح وہ مسلسل میڈیا پر
چھائے رہتے ہیں ۔ موصوف نے ابھی حال میں نئی تجارتی پالیسی کا اعلان کرتے
ہوئے تمام درآمدات پر دس فیصد کا بنیادی ٹیرف عائد کرکے اسے ’آزادی کادن‘
قرار دیا مگر عالمی سطح پر وہ ایک تباہی کا دن ثابت ہوا کیونکہ اس دس فیصد
کے علاوہ انہوں نے مختلف ممالک مثلاًہندوستان پر 26 فیصد، چین پر 34فیصد،
یورپی یونین پر 20 فیصد، جاپان پر 24 فیصد، اور ویتنام پر 46 فیصد تک اضافی
مخصوص ٹیرف بھی عائد کردیا ۔ ٹرمپ کے مطابق یہ اقدامات امریکی معیشت کو
تحفظ فراہم کرکے تجارتی خسارے کو کم کریں گے لیکن اگر اشیاء مہنگی ہوجائیں
گی تو ان کی کھپت کم ہوجائے گی ایسے میں خزانے کی آمدنی کیسے بڑھے گی یہ
سمجھنے سے ہر کوئی قاصر ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سوچا ہوگا کہ ان کی اس حماقت سے دنیا نہ سہی تو کم ازکم
امریکی عوام خوش ہوجائیں گے لیکن الٹا ہوگیا اور ان کی حمایت کے بجائے
مخالفت میں جلوس نکلنے لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ سمیت دنیا بھر کے لوگ
بہت جلد ان کی حماقتوں سے بیزار ہوگئے اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر
چھلک گیا ۔ پچھلے دنوں صدر ٹرمپ اور ان کے ارب پتی ساتھی ایلن مسک کے خلاف
واشنگٹن سمیت امریکہ بھر میں لاکھوں افراد کا سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا
اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں منظم طور
پر مظاہروں کا انعقاد کوئی معمولی بات نہیں ہے۔واشنگٹن ڈی سی کے احتجاج میں
نامورفلمی ہستیوں اور انسانی حقوق کی علمبرداروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
بارش کے باوجود150 سے زائد تنظیموں کے 20 ہزار سے زیادہ لوگ اس مظاہرے میں
شریک تھے ۔
امریکہ کی معاشی راجدھانی ِ نیویارک میں بھی احتجاجی مظاہرین نے حکومت
مخالف نعرے لگائے اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو ملک کی بنیادی ساخت کے لیے
خطرہ قرار دیا۔ مظاہرین نے کہا کہ ٹرمپ کے اقدامات امریکی ریاستی اداروں کو
کمزور کرنے اور ایک طاقتور صدارتی نظام مسلط کرنے کی کوششوں کا حصہ
ہیں۔امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹک اراکین نے ٹرمپ کی پالیسیوں پر سخت تنقید
کرتے ہوئے انہیں جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ احتجاج میں شریک افراد
ٹرمپ کی پالیسیوں، غزہ کے خلاف صہیونی حکومت کی حمایت، وفاقی بجٹ میں کٹوتی
اور عالمی تجارتی محاذ آرائی پر شدید تنقید کر رہے تھے۔ ان میں سے بعض کے
ہاتھوں میں "فلسطین کو آزاد کرو" کے پلے کارڈز اورشانے پر فلسطینی شالیں
تھیں، جب کہ بعض نے یوکرین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے لیکن صدر صاحب کے کان پر
جوں نہیں رینگی ۔ان کی وہی چال بے ڈھنگی سی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ ٹرمپ
کس خیالی دنیا میں رہتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔
واشنگٹن اور نیویارک کے علاوہ امریکی شہر ڈلاس، ڈینور، شکاگو، انڈیاناپولس،
پورٹ لینڈ اور آک لینڈ سمیت مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
ہوئے۔انتظامیہ کے مطابق امریکہ بھرمیں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے
اندرتقریبا ً20 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں
ہے۔ امریکیوں کا پیمانۂ صبر بہت جلد لبریز ہوگیاجبکہ ہندوستان کے بے حس
عوام پچھلے دس سال سے مودی سرکار کے ظلم و استحصال کا شکار ہیں مگر کوئی
ایساملک گیر احتجاج نہیں ہواجس میں سارے لوگوں نے شرکت کی ہو۔ سی اے اے
مسلمانوں کے مرہونِ منت تھی اور کسان تحریک بھی ہریانہ پنجاب اور مغربی
اترپردیش تک محدود تھی۔ عام لوگ تو اس الگ تھلگ ہی رہے۔ جس ملک کے لوگ خود
اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف نہیں اٹھ سکے وہ بھلا ٹرمپ کی مخالفت
کیا کریں گے جبکہ مودی خود خوفزدہ ہیں مگر دنیا بھرمیں کیفیت مختلف ہے۔
ٹرمپ کی عالمی غنڈہ گردی کے خلاف کینیڈا اور میکسیکو جیسے پڑوسی ممالک میں
زبردست مظاہرے ہوئے۔اس کے علاوہ یوروپ کے اندر لندن ، پیرس، برسلز، برلن
اور آسٹریلیا کے سڈنی سمیت دنیا بھر کے 670 سے زیادہ مقامات پر احتجاج
ہوا۔ ان مظاہرین میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہوئی ۔لندن میں ہزاروں
خواتین نے امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوکرجنسی تشدد اور ڈونلڈ کی
پالیسیوں کے خلاف احتجاج درج کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ
ٹرمپ نے مختلف ممالک کیلئے باہمی ٹیرف کا اعلان کرکے دنیا بھر کی ناراضی
مول لے لی ہے ۔ ان کی اس نا عاقبت اندیش کارروائی سے عالمی سطح پر تجارتی
جنگ کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس پر توجہ دے کرلوگوں کو
سمجھانے بجھانے یا اعتماد بحال کے بجائے دنیا بھر کے ممالک کو جوابی
کارروائی نہیں کرنے کی تلقین کی بصورتِ دیگر سخت کارروائی کی دھمکی بھی دے
ڈالی ۔ اس طرح بات بنتی نہیں بلکہ بگڑ جاتی ہے۔
امریکہ کی مذکورہ بالاگیدڑ بھپکی سے خوفزدہ ہونے کے بجائے کنیڈا کے
وزیراعظم مارک کارنی نے ٹیرف کا مقابلہ کرنے کیلئے جوابی اقدامات کرنےکا
اعلان کردیا ۔ میکسیکو بھی منہ توڑ جواب دینے سے قبل اس کے اثرات کا جائزہ
لے رہا ہے۔ برازیلی حکومت نے اس دعویٰ کو مسترد کردیاکہ امریکی محصولات
باہمی تعاون کیلئے ہیں۔ اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی نے ان محصولات کو
"غلط" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں
نے اٹلی اور دوسرے یورپی شراکت داروں کے ساتھ اور اپنی معیشت کے مفاد میں
کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ یوروپی پارلیمنٹ کی بین الاقوامی تجارتی
کمیٹی کے سربراہ نے یونین کی برآمدات پر 20 فیصد ٹیرف کی سخت تنقید کی۔
انہوں نے امریکی ٹیرف کو "غیر منصفانہ، غیر قانونی اور غیر متناسب اقدامات"
قرار دیا۔امریکہ کے قریب ترین حلیفوں میں سے ایک جاپان ہے مگر اس نے بھی
جاپانی درآمدات پر 24 فیصد ٹیرف کو "انتہائی افسوسناک" بتایا ۔آسٹریلیا نے
اسے غیرضروری قرار دےکر کہا کہ باہمی ٹیرف10 فیصد نہیں صفر ہوتا ہے۔
برطانیہ اور جنوبی کوریا مذاکرات کے ذریعہ اسے کم کروانا چاہتے ہیں ۔نیوزی
لینڈ نے اسے غیر منطقی کہہ کر ٹیرف کے اعداد و شمار کو مسترد کر دیا ۔
صدر ٹرمپ کے ٹیرف ٹیرر سے عالمی تجارتی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ یہ
مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ کرےگا اور عالمی معیشت پر منفی اثرات ڈالے
گا۔ ہندوستان کے اندر ایک تجارتی فورم سے خطاب کرتے ہوئے، چلی کے صدر
گیبریل بورک نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات، غیر یقینی صورتحال پیدا
کرتے ہیں اور "باہمی طور پر متفقہ اصولوں" اور "بین الاقوامی تجارت کو
کنٹرول کرنے والے ضابطوں" کو چیلنج کرتے ہیں مگر حکومت ہند نے اس پر زبان
کھولنے سے احتراز کیا حالانکہ اس فیصلےنے ہندوستانی روپے کی قدر پر گہرا
اثر ڈالا ہے۔ ڈرپوک مودی حکومت کو بزدل ماہرین معاشیات جوابی ٹیرف کے نتیجے
میں تجارتی جنگ کو دونوں ممالک کی معیشتوں کے لیے نقصاندہ بتاکر خوفزدہ
کررہے ہیں ۔ اس کے برعکس امریکہ کے تجارتی حریف چین نے اپنے سخت ردعمل کا
اظہار کرتے ہوئے اس کی سختی سے مخالفت کی ہے۔
چین نے الزام لگایا ہےکہ امریکی محصولات "بین الاقوامی تجارتی قوانین کی
تعمیل نہیں کرتے اور متعلقہ فریقوں کے جائز حقوق اور مفادات کو شدید نقصان
پہنچاتے ہیں۔" چین نے امریکی مفادات اور بین الاقوامی سپلائی چینز کو نقصان
پہنچنے سے خبردار کرتے ہوئے ٹیرف کو "فوری طور پر منسوخ" کرنے کا انتباہ
دیا۔دنیا میں دو طرح کے حکمراں ہوتے ہیں ۔ ایک لڑنے والے اور دوسرے ڈرنے
والے ۔ اس کی سب سے واضح مثال چین کے جن شی پنگ اور ہندوستان کی نریندر
مودی ہیں ۔ ایک طرف جہاں حکومتِ ہند کو سانپ سونگھا ہوا ہے چین کی وزارت
تجارت نے امریکہ سے چین پر 50 فیصد اضافی محصولات عائد کرنے کی دھمکی کے
خلاف کہا کہ ’اگر امریکہ ٹیرف میں اضافہ کرتا ہے تو چین اپنے حقوق اور
مفادات کے تحفظ کے لیے سخت جواب دے گا‘۔چین کے مطابق امریکہ کا ’باہمی
ٹیرف‘ لگانے کا منصوبہ بے بنیاد اور یکطرفہ دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ اس کے
جواب میں چین کی طرف سے مکمل طور پر قانونی اور جائز اقدامات کیے جائیں گے
تاکہ اپنے ملک کی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے
۔
امریکی ٹیرف وار کے جواب میں سب سے سخت موقف چین ہی کا ہے۔ چینی وزارت
تجارت کے ترجمان کاکہناہے کہ ’’امریکہ کے ذریعہ ٹیرف بڑھانے کی دھمکی ایک
غلط پالیسی اور بلیک میلنگ ہے اس لیےچین اسے کبھی قبول نہیں کرے گا۔ امریکہ
اگر اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا تو چین آخری دم تک لڑے گا۔چین نے یہ اعادہ
بھی کیا کہ تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا اور تحفظ پسندی کوئی حل
نہیں ہے۔ چین نے امریکہ سے اپیل کی کہ وہ اپنی غلط پالیسیوں کو فوری طور پر
درست کرکے، تمام یکطرفہ ٹیرف ہٹائے اور چین کی معیشت و تجارت پر دباؤ ڈالنا
بند کرے۔ چین نے باہمی احترام کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات
کو حل کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی اقتدار میں آنے سے قبل چین
کو لال آنکھ دکھانے کی بات کرتے تھے لیکن حکومت سازی کے بعد وہ چین سے نین
لڑانے لگے۔ ان دس سالوں میں چین نے لداخ سے ڈوکلام اور اروناچل پردیش تک
ہزاروں مربع میل کے علاقے پر قبضہ کرکے اپنے شہر بسا لیے مگر مودی جی چوں
نہیں کرسکے ۔ امریکہ کے خلاف بھی وزیر اعظم نریندر مودی ہر زیادتی اور
رسوائی پر سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں ۔ ان کو چین سے دشمن کو لال آنکھیں
دکھانے کا فن سیکھنا چاہیے ۔ ویسے ٹرمپ کے نظر پھیر لینے پر مودی اپنے
دیرینہ دوست سے یوں فریاد کناں ہیں؎
اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں
|