پی پی پی کے ادوار اور انجام۔۔۔۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد 30 نومبر 1967ءکوذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی 1970 ءمیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں کثیر تعداد میں سیٹیں حاصل کی تھیں ۔ جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان سے سخت اختلافات پیدا ہوگئے تھے اسی سبب جنرل یحییٰ خان اور ذوالقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کے خلاف سازشیں کرنا شروع کردی تاکہ عوامی لیگ اور سربراہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی طاقت کو زائل کردیا جائے تمام تر کوشش کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہونے پر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے جدا کردیا گیا اوراس طرح بنگالیوں کیلئے بنگلہ دیش آزاد ملک بن گیا اور مغربی پاکستان پاکستان کے نام سے رہا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان میں تن تنہا عوامی سیاسی پارٹی بنے کا اعلان کیا اور پاکستان کی عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے خواب میں اوندھا کردیا ۔پاکستان پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ تقویت اُس وقت حاصل ہوئی جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے سولین چیف مارشل لاءمقرر ہوئے پھر صدر اور وزیر اعظم بنے پھر اُس وقت کے جرنل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو تحلیل کرتے ہوئے انہیں قتل کے الزام میں قید کرڈالا۔ 5 جولائی 1977 ءکی علی الصبح کو پھانسی کے تخت پر لٹکا دیا ۔جنرل ضیاءالحق نے گیارہ سال تک مارشل لاءکا دور دورہ رکھا بالآخر انہیں ہیلی کوپٹر کے سفر کے دوران بم بلاسٹ سے مروادیا گیا، اس سفر میں اُس وقت قابل ،ذہین اعلیٰ ترین فوجی قیادت بھی ساتھ تھیں۔ 1988 ءکو ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو وزیراعظم بنی جبکہ بیس ماہ تک صدر غلام اسحاق خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کو شدید نقصان پہنچایا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے تیسری بار 1993ءسے 1996ءتک پاکستان پر پھر راج کیا۔27دسمبر 2007ءکو ایک عوامی جلسہ سے خطاب کے بعد بینظیر بھٹو کو فائرنگ اور دھماکے سے ہلاک کردیا تھا ۔بینظیر بھٹو کی ہلاکت سے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کو شدید نقصان پہنچا وہیں ایسے بھی گروہ تھے جنہیں خواب سے بھی زیادہ فائدہ حاصل ہوا ۔ بینظیر بھٹو کی موت کے سبب پاکستان کی عوام میں پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے نرم گوشہ بیدار ہوا اسی گوشہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے لوگ منتخب ہوئے جو کبھی بھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔۔۔!! اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی بالخصوص بھٹو ازم سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کردی اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی چوتھی بار 2008 ءکو بھاری عوامی میندیٹ سے کامیاب ہوئی۔ذوالفقار علی بھٹو کی زوجہ بیگم نصرت بھٹو بھی 23اکتوبر 2011ءکو خالق کائنات سے جا ملیں، بیگم نصرت بھٹو طویل عرصہ سے علیل تھیں ۔دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی میں بیگم نصرت بھٹو کا بہت زیادہ کردار رہا ہے کیونکہ بیگم صاحبہ نے ہی بینظیر کو سیاست کے میدان میں لاکھڑا کیا اور بھٹو کے بعد جس انصاف اور سچائی کے ساتھ اس تنظیم کیلئے تکلیفیں برداشت کی وہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہیں ۔ موجودہ دور سن 2011ءکا آخیر ہے اس دور میں یوں تو بھٹو ازم کا نعرہ لگایا جاتا رہاہے مگر درحقیقت یہ دور حاکم زرداری کا ہے ، حاکم علی زرداری کبھی بھی بھٹو کے مخلص نہ رہے ،اسی بابت بھٹو انہیں قطعی پسند نہ فرماتے تھے۔ لیکن بھٹو کے انتقال کے بعد حاکم علی زرداری کا مشن بن گیا کہ وہ اپنے بیٹے آصف علی زرداری کی شادی ذوالفقار علی بھٹو کی چہیتی بیٹی بینظیر بھٹو سے کرادیں گے تا کہ بنی بنائی سیاست کا قلم دان ان کے بیٹے کا حاصل ہوجائے، اس کیلئے حاکم علی زرداری نے اپنے مزاج کے برعکس پارٹی کے مختلف ذمہ داروں کی تمام باتوں کو برداشت کیا بالآخر وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔ اس شادی سے دنیاجانتی ہے کہ سب سے زیادہ فائدہ آصف علی زرداری کا حاصل رہا ہے اور اب بھٹو کے اصل خاندان جو مرتضیٰ بھٹو کی نسل میں باقی ہے انہیں سیاست، دولت اور مقام سے مستقلاپیچھے دکھیلا جاتا رہا ہے ،اب بظاہر بھٹو ازم کی بات تو کی جاتی ہے مگر درحقیقت یہ زرداری ازم کا دور شروع ہوچکا ہے ، ایک اندازہ کے مطابق بھٹو ازم آئندہ شائد یا تو مکمل دم توڑ لے گا یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر انقلاب رونما ہوکر بھٹو ازم کا ایک نیا دور شروع ہوجائیگا جس کی قیادت مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے جونیئر ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں ہوگی۔پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت دو بڑے گروہ میں منقسم ہے جو جلد ہی ایک حصہ پر محیط ہونے جارہی ہے ، اب دیکھنا ہے کہ حقیقی جیالے کس حد تک بھٹو ازم کیلئے قربانیاں پیش کرسکیں گے بصورت پاکستان پیپلز پارٹی زرداری ازم میں منتقل ہوجائے گی اور تمام نظریات و منشور زرداری ازم کے تحت وقع پزیز ہونگے۔ یوں تو پاکستان پیپلز پارٹی تین بڑے ادوار سے گزری ہے ایک وہ دور جب بانئی پاکستان پیپلز پارٹی نے اس تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اس کو پروان چڑھانے کیلئے اپنے تمام دیواروں کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے لیکن قدرت کی پکڑ سے نہ بچ پائے اور اپنے ہی بنائے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔۔۔دوسرا دور بڑا کٹھن تھا یہ دور ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد سے شروع ہوگیا جب ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے حکومت پر قبضہ کرکے گیارہ سال گزارے اور جمہوری اقدار کا پاش پاش کرنے کیلئے کوئی قصر نہ چھوڑی ایسے میں قدرت نے انہیں بھی آپکڑا ایک حادثہ میں ہلاک کردیئے گئے ۔اس دوران بیگم نصرت بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بقاءکیلئے اپنے جواں سال بیٹوں کی قربانی کو بھی برداشت کیا اور اپنی چہیتی بیٹی پنکی بینظیر بھٹو کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ سیاسی میدان میں لمحہ بہ لمحہ مشاورت کی دیتی رہیں ، بیگم نصرت بھٹو خود پارٹی کی چیئر پرسن تھیں ، ضیاءالحق کی موت کے بعد پاکستان میں جمہوری نظام رائج ہوا تو بینظیر نے اپنی ماں نصرت بھٹو کی قیادت میں تدبر، برد باری اور ذہانت سے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ سے کامیابی حاصل کی اور پاکستان کی وزیراعظم بنی ، کچھ وقفے کے بعد دوبارہ وزیر اعظم بھی بنی پھر آمریت کا ایک دور داخل ہوا جنرل مشرف نے ایک معاہدہ کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی لیکن ان کی حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل مفاد پرستوں ، منافقوں اور اقربہ پروروں نے بینظیر سے بغاوت کرتے ہوئے ہلاک کرنے میں سازش کا حصہ بنے اور آخر کار بھٹو ازم سے پاکستان پیپلز پارٹی ذرداری ازم میں منتقل ہوگئی ہے مستقبل قریب میں ذرداری کو اپنے ہی لوگ ہلاک کردیں گے اور الزام دوسروں پر تھوپا جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ادواروں کے انجام بھانک ہوتے ہیں۔۔!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 246071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.