سفید چادروں کے نیچے چھپی بے حسی: حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں لاشوں پر بھتہ خوری کا شرمناک واقعہ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور، جو کہ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت اور ایک تاریخی و تہذیبی شہر ہے، وہاں واقع حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو عوامی فلاح و علاج کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ انکشافات نے اس "شفا خانہ" کو ایک قومی شرمندگی کا نشان بنا دیا ہے۔ ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی ہے جس میں ایک سیکیورٹی اہلکار ایمبولینس ڈرائیور سے 5000 روپے بھتہ طلب کرتا ہوا نظر آ رہا ہے، اور بے شرمی سے کہہ رہا ہے: "لاش تو دے دی ہے، اب پیسے دو!"
یہ محض ایک اسکینڈل نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی، مذہبی، اور انسانی اقدار پر ایک کاری ضرب ہے۔
پشاور میں مردہ لاشوں کی بولی – ایک نیا گھناو¿نا کاروبار بن کر ابھر رہا ہے کیونکہ لوگ علاج کیلئے یہاں پر آتے ہیں جہاں پر موت ہونے کی صورت میں مردے کو گھر لے جانا بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور سیکورٹی اہلکار اپنی ڈیوٹی کے بجائے اس کاروبار میں مصروف عمل ہیں.اس واقعے کو مزید سنگین بنانے والی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک سرکاری اسپتال میں ہو رہا ہے، جہاں غریب، مظلوم، اور لاچار لوگ اپنا آخری سہارا سمجھ کر آتے ہیں۔ مگر افسوس، اب وہی اسپتال ایسے لوگوں کے لیے ایک نئی اذیت بن گیا ہے۔ سیکیورٹی گارڈز، جو صرف نظم و ضبط کے نگہبان ہوتے ہیں، اب غمزدہ لواحقین اور ایمبولینس والوں سے رشوت مانگ کر لاشیں حوالے کرتے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف غیر قانونی ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات، انسانی اخلاقیات، اور پیشہ ورانہ وقار کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں دین اسلام کو زندگی کے ہر پہلو میں رہنما سمجھا جاتا ہے، وہاں یہ واقعہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہ واقعہ ایک فرد یا ایک دن کی بدعنوانی نہیں، بلکہ ایک پورے نظام کی بیماری کا پتہ دیتا ہے۔ جب اسپتال کے نچلے درجے کا عملہ اتنے کھلے عام رشوت مانگنے کی جرات رکھتا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ اوپر کہیں نہ کہیں سے سہولت یا خاموشی موجود ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں چیک اینڈ بیلنس کا مکمل فقدان ہے، اور اسی وجہ سے عوامی ادارے بداعتمادی کا شکار ہو چکے ہیں۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ عوام اور صحافی برادری نے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس واقعے کا صرف نوٹس لینا نہیں بلکہ — قانونی کارروائی، برطرفیاں، اور سزاوں کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اگر اس واقعے کو بھی دوسری خبروں کی طرح دبا دیا گیا، تو یہ ایک اور شرمناک مثال بن جائے گی جو ہمارے معاشرے کی بے حسی کو بے نقاب کرتی رہے گی۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مذہبی، اخلاقی، اور خاندانی اقدار پر فخر کرتا ہے۔ مگر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کا یہ واقعہ ان تمام دعوو?ں پر ایک کالی سیاہی کی مانند ہے۔ اگر ہم نے اپنے مردوں کی بھی عزت کرنا چھوڑ دی ہے، تو ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ یہ لمحہ خود احتسابی کا ہے۔ اسپتالوں کے افسران، حکومت، علمائ ، صحافیوں اور عام شہریوں کو سوچنا ہو گا کہ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں مرنے والوں کی لاش بھی رشوت کے بغیر واپس نہیں ملتی؟
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں پیش آنے والا یہ واقعہ محض بدعنوانی نہیں، بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ اخلاقی دیوالیہ پن اور معاشرتی بربادی کی واضح علامت ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ مثال قائم کی جائے۔ اس واقعے کو دفن نہ ہونے دیں، بلکہ اس کو ایک تحریک بنائیں۔ اصلاح، احتساب اور انسانیت کی بحالی کے لیے یہ لمحہ اہم ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل کسی اور کی لاش کے ساتھ یہی سلوک ہوگا — اور شاید وہ آپ کا اپنا عزیز ہو۔
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.