مدینہ طیبہ کے فضائل وزریارت

 مدینہ منورہ کائنات ارض و سماوات کا وہ نگینہ ہے، جہاں ہر لمحہ آسمان سے رحمت کی رم جھم برستی رہتی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کا حصار انہیں اپنے دامنِ عطاء و بخشش میں چھپا لیتا ہے۔ اہل مدینہ کو بتقاضائے بشریت اگر کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حرف شکوہ زبان پر نہیں آنے دیتے تو ایسے اہل مدینہ کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔
اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
اب ذرہ ان حکمرانوں کا سوچیں جنہوں نے مدینہ پاک کا تقدس پامال کیا اور جس حکمران نے سیدنا امام حسین علیہ السلام اور دیگر اصحاب رسول اور ان کے فرزندوں کو ڈرایا دھمکایا نیز یزید لعین کے حامیوں کو بھی اس پر غور کرنا ہوگا ورنہ یزید کی طرح وہ بھی جہنم کا ایندھن بنین گے
کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبه میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اﷲ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قیام فرمانے کے بعد سب سے پہلا کام جو فرمایا وہ اس مقدس مسجد نبوی کی تعمیر ہے۔ زمین کا یہ قطعہ جہاں اب یہ مسجد موجود ہے دو یتیم بچوں حضرت سہل اور حضرت سہیل کی ملکیت تھا۔ یہ دونوں بچے سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے زیر کفالت تھے۔ اس جگہ کھجوریں خشک کی جاتی تھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں سے فرمایا یہ زمین مسجد کی تعمیر کے لئے ہمیں فروخت کر دو۔ بچوں نے بصد ادب و نیاز عرض کی : آقا یہ اراضی ہماری طرف سے بطور نذرانہ قبول فرمائیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس پیش کش کو بلا معاوضہ قبول نہ فرمایا۔ بالآخر قیمت ادا کرکے یہ زمین خرید لی گئی جس کے لئے دس ہزار دینار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادا کیے۔
ربیع الاول یکم ہجری بمطابق اکتوبر 622ء مسجد نبوی کا سنگ بنیاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے رکھا۔ مسجدکی تعمیر شروع کر دی گئی تو اس تعمیر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر کام کیا خود انٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ بھی فرماتے :
اَللَّهمَّ إِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَة، فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُهاجِرَةِ.
اے اﷲ! آخرت کا بدلہ ہی بہتر ہے تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس سال تک اس مسجد میں نمازیں ادا فرمائیں۔ یہ مسجد اسلام کا مرکز قرار پائی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
صَلَاةٌ فِی مَسْجِدِی هٰذَا خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ.
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
صَلَاتُهُ فِيْ مَسْجِدِی بِخَمْسِيْنَ أَلْفِ صَلَاةً.
’’جس نے میری مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز پڑھی اسے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فَإِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ.
’’بیشک میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد۔‘‘
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَنَا خَاتِمُ الْاَنْبِياءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الْاَنْبِيَاءِ.
’’میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کرام کی مساجد کی خاتم ہے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی فِی مَسْجِدِی أَرْبَعِيْنَ صَلٰوةً، لَا يَفُوْتُهُ صَلٰوةٌ کُتِبَتْ لَه بَرَاءَ ةٌ مِنَ النَّارِ، وَنَجَاةٌ مِنَ الْعَذَابِ وَبَرِيئَ مِنَ الْنَفَاقِ.
’’جس نے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں متواتر ادا کیں اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر سن 7 ہجری کے بعد مسجد نبوی کی از سر نو تعمیر فرمائی اور اسے مزید کشادہ کیا۔ اس کے بعد مسجد نبوی کی توسیع کی تواریخ درج ذیل ہیں :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے عہد میں، 17 ہجری۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے عہد میں، 29۔30 ہجری۔
ولید بن عبد الملک کے عہد میں، 88۔91 ہجری۔
مہدی العباسی کے عہد میں، 161۔165 ہجری۔
سلطان اشرف قائتبائی کے عہد میں، 888 ہجری۔
سلطان عبد المجید عثمانی کے عہد میں، 1265۔1277 ہجری۔
الملک سعود کے عہد میں، 1372 ہجری۔
اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودہ توسیع خادم الحرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز کے عہد (1405۔1412ھ) میں مکمل ہوئی۔
مسجد کا موجودہ توسیع شدہ رقبہ 98 ہزار 500 مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ چھت پر بھی نماز پڑھنے کے لئے 67 ہزار مربع میٹر کی جگہ موجود ہے۔
اس وقت مسجد میں عام دنوں میں 6 لاکھ 50 ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں البتہ حج کے زمانے میں اور رمضان المبارک کے دنوں میں یہ تعداد 10 لاکھ تک بھی ہو سکتی ہے۔
جنوبی سمت چھوڑ کر مسجد نبوی کے تین اطراف میں پر شکوہ، دیدہ زیب دروازے موجود ہیں۔ چند تاریخی دروازے جن سے متعارف ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں۔ مشرقی جانب باب جبریل ں، باب النساء اور باب البقیع، باب جنازہ، مغربی جانب باب السلام، باب ابوبکر ص، باب الرحمۃ اور باب سعود، شمالی جانب باب عثمان ص، باب مجیدی اور باب عمر رضی اللہ عنہ ۔
مسجد نبوی میں داخل ہوتے وقت درود شریف کا ورد جاری رکھیں اور یہ دعا پڑھیں :
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ. اَللّٰهمَّ اغْفِرْلِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ. اَللّٰهمَّ اجْعَلْنِيْ اَلْيَوْمَ مِنْ اَوْجَهِ مَنْ تَوَجَّهَ اِلَيْکَ وَاَقْرَبِ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَيْکَ وَاَنْجَحِ مَنْ دَعَاکَ وَابْتَغٰی مَرْضَاتِکَ.
’’اے اللہ! ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر درود بھیج اور برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اے اللہ! آج کے دن مجھے اپنی طرف متوجہ ہونے والوں میں سب سے زیادہ قریب بنالے اور زیادہ نواز ان میں سے جنہوں نے تجھ سے دعا کی اور اپنی مرادیں مانگیں۔
بیت اﷲ شریف کی زیارت اور حج کے مقدس فریضہ کی بجاآوری کے بعد عشاق اپنے اگلے سفر یعنی مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں، اور اس دربار کی حاضری کے لئے مچلتے جذبات، دھڑکتے دلوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ کشاں کشاں اپنے آقا و مولا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بصد ادب و احترام حاضر ہوتے ہیں۔ یہی عشاق کے دلوں کا حج ہوتا ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ زَارَ قَبْرِی، وَجَبَتْ لَه شَفَاعَتِيْ.
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہو کر میری زیارت کا شرف حاصل کیا میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :) میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا، اور کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اﷲ تعالیٰ اسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا۔‘‘
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔
جب شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخلہ کا وقت آئے تو زائر مدینہ غسل اور وضو کرے، اچھی سے اچھی پوشاک پہنے، نوافل ادا کرے، توبہ کی تجدید کرے اور پیدل چلتا ہوا اندر داخل ہو کر تصویر عجز بن جائے کہ وہ شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے شہرہ آفاق ’القصیدۃ النونیۃ‘ میں زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں :
٭ جب ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کریں۔
٭ پھر باطناً و ظاہراً انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر قبر انور کے پاس کھڑے ہوں۔
٭ یہ احساس دل میں جاگزیں رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبرانور میں زندہ ہیں سماعت بھی فرماتے ہیں اور کلام بھی فرماتے ہیں، پس وہاں کھڑے ہونے والوں کا سر ادباً و تعظیماً جھکا رہے۔
٭ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں کھڑے ہوں کہ رعبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہوں اورآنکھیں بارگاہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گریہ مسلسل کا نذرانہ پیش کرتی رہیں اور وہ طویل زمانوں کی مسافت طے کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کھو جائیں۔
٭ پھر مسلمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وقار و ادب کے ساتھ ہدیہ سلام پیش کرتے ہوئے آئے جیسا کہ صاحبانِ ایمان و صاحبان علم کا شیوہ ہے۔
٭ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے قریب آواز بھی بلند نہ کرے، خبردار! اور نہ ہی سجدہ ریز ہو۔
٭ یہی زیارت افضل اعمال میں سے ہے اور روزِ حشر اسے میزانِ حسنات میں رکھا جائے گا۔
اس کے بعد زائر یہ دعا کرے :
اَللّٰهُمَّ قَدْ سَمِعْنَا قَوْلَکَ وَأَطَعْنَا أَمْرَکَ وَقَصَدْنَا نَبِيَّکَ مُسْتَشْفِعِيْنَ به إِلَيْکَ مِنْ ذُنُوْبِنَا، اَللّٰهُمَّ! فَتُبْ عَلَيْنَا وَاسْعَدْنَا بِزِيَارِتِه وَادْخِلْنَا فِي شَفَاعَتِه، وَقَدْ جِئْنَاکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ ظَالِمِيْنَ أَنْفُسَنَا مُسْتَغْفِرِيْنَ لِذُنُوْبِنَا، وَقَدْ سَمَّاکَ اﷲُ تَعَالٰی بِالرُّئُ وْفِ الرَّحِيْمِ، فَاشْفَعْ لِمَنْ جَائَ کَ ظَالِمًا لِنَفْسِه مُعْتَرِفًا بِذَنْبه تَائِبًا إِلٰی رَبه.
’اے اللہ ہم نے تیرا فرمان سنا اور تیرے احکام کی تعمیل میں تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہیں، جو تیری بارگاہ میں ہمارے گناہوں کی شفاعت کریں گے، اے اللہ ہم پر رحم و کرم فرما اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی برکت سے ہمیں خوش بخت بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہمیں نصیب فرما۔ یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم! ہم آپ کی بارگاہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’روف و رحیم‘ بنایا ہے۔ پس وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنا گناہوں کا اقرار کرکے اس سے معافی مانگتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوا اس کی شفاعت فرمائیے۔‘‘
اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے لئے، اپنے ماں باپ، شیخ، اساتذہ، اولاد، اعزا و اقرباء، دوستوں اور سب مسلمانوں کے لئے شفاعت مانگیں، اور بار بار عرض کریں :
اَسْئَلُ الشَّفَاعَةَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اﷲ عليک و آلک وسلم.
پھر اگر کسی نے بارگاہ رسالت مآب میں سلام عرض کرنے کے لئے کہا ہو تو شرعاً اس کی طرف سے سلام پہنچانا لازم ہے اور یوں عرض کرے : السلام علیک یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن فلاں بن / بنت فلاں (نام و ولدیت)
جن کتب سے استفادہ کی گیا
بخاری شریف، کتاب فضائل الصحابة، باب هجرة النبی صلی الله عليه وآله وسلم واصحابه إلی المدينة، 3 : 1422-1423، رقم : 3694،کتاب التطوع، باب فضل الصلاة فی مسجد مکة والمدينة، 1 : 398، رقم : 21133،
مسلم شریف، کتاب الحج، باب الترغيب فی سکنی المدينة والصبر علی لاوائها، 2 : 1004، رقم : 1377، کتاب الحج، باب من أراد أهل المدينة بسوء أذا به اﷲ، 2 : 1007، رقم : 1386،کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجد مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394،کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجدی مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394،
ابن ماجه شریف، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3111،کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3112،کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی الصلاة فی المسجد الجامع، 2 : 191، رقم : 1413،
ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 45، رقم : 112،
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 12590،
سمهودی، وفاء الوفا، 1 : 77،
دار قطنی، السنن، 2 : 447، رقم : 2669، 447، رقم : 2667،
بيهقی، شعب الايمان، 3 : 490، رقم : 4157۔
طیالسی، المسند، 12 : 13، رقم : 65،
ابن قيم، القصيدة النونيه : 181،
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.