*کیا اردو زبان کا فروغ ادب اطفال پر توجہ مرکوز کیے بغیر ممکن ہے؟*
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
ازقلم: ذوالفقار علی بخاری دورحاضر میں اردو پڑھنے، بولنے اورلکھنے والوں کی تعداد میں خاصی کمی دیکھی جا رہی ہے جو کہ اردو زبان کی بقا ء کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔کسی بھی زبان کی بقاء ادب اطفال کے فروغ کے بنا ناممکن ہے۔نونہالوں کو اگربچپن سے کسی خاص زبان کا مواد پڑھنے کو ملے گا تو وہ عمر بھر اُس سے جڑے رہے گا۔جب تک بچے کسی خاص زبان(چاہے وہ مادری زبان کیوں نہ ہو)کا ادب نہیں پڑھیں گے وہ اُس زبان کو پڑھنے، بولنے یا سیکھنے میں دل چسپی نہیں لیں گے۔افسوس ناک امریہ ہے کہ اردو زبان کے فروغ کے لیے کئی تنظیمیں ادب اطفال کے فروغ میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ہیں بصورت دیگرہمیں اردو کی بقاء کی فکر نہ ہوتی۔اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے ادب اطفال کس قدر ناگزیر ہے۔اِس حوالے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے اُن کا نظریہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس دل چسپ سروے کی روداد ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر طارق ریاض کے بقول”ادب اطفال پہلی منزل ہے، آخری منزل تک پہنچنے کے لیے۔“ ڈاکٹر روحینہ کوثر سید (بھارت) فرماتی ہیں: ”جی بالکل بھی نہیں، اردو زبان کا فروغ ادب اطفال پر توجہ مرکوز کیے بغیر ممکن ہے ہی نہیں، کیونکہ بچوں کے ادب سے ہی ادب عالیہ ترقی پاتا ہے۔ادب اطفال آنے والی نسلوں میں زبان سے پائیدار دلچسپی اور محبت کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا، مناسب ادب کے ذریعے بچوں کو زبان کے ساتھ مشغول رکھے بغیر اردو کو مؤثر طریقے سے فروغ دینا ممکن نہیں ہے۔“ پروفیسر محمد رئیس بابو علی کے بقول:”میری دانست میں اردو زبان کا فروغ، ادب اطفال کی پزیرائی اور اسے فروغ دیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بچپن میں ماں یا دادی کی گود میں سنی گئی کہانیاں نہ صرف نسل نو کے کردار کی تشکیل کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں بلکہ الفاظ کے اس پہلو اور تاثیر سے بھی آشنا کر دیتی ہیں جو کہ صرف ماحول میں بولے جانے والے روزمرہ کے الفاظ اور جملے پیدا کرنے سے یکسر قاصر رہتے ہیں، لفظوں کو برتنے اور پراثر جملوں کو ترتیب دینے کا فن بچپن میں پڑھیں کہانیوں کا ایک ناقابلِ یقین فائدہ ہے۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جن بچوں کو ابتدا ہی سے کہانیاں اور بچوں کے رسائل پڑھنے کی عادت ہوتی ہے، وہ آگے چل کر بھی زبان و ادب سے، کتابوں سے جْڑے رہتے ہیں۔ اگر بچوں کو یہ موقع بچپن میں نہ ملا ہو تو وہ عموماً کورس کی کتابوں تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔بچپن میں غیر معمولی یادداشت کے باعث ذخیرہ الفاظ یاد رکھنے کی صلاحیت بھی غیر معمولی ہوتی ہے جو آگے چل کر بھی اپنا مافی الضمیر زبانی یا تحریری طور پر بیان کرنے میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔“ فرح علوی (ادیب الاطفال، افسانہ نگار) کچھ یوں فرماتی ہیں:”"بالکل بھی نہیں، کیونکہ اس عہد کے بچے ہی آئندہ نسلوں کی آبیاری کریں گے، اس لیے اْردو زبان کو فروغ دینے کے لیے بچوں کے ادب سے آغاز کرنا ناگزیر ہے۔“ : پروفیسر حجاب زہرہ کچھ یوں بیان فرماتی ہیں: ”جی نہیں، ہر گز نہیں، ایسا سمجھنا بنیادوں کے بغیر عمارت کھڑی کرنے کے مترادف ہے جو کہ نا ممکن ہے۔ کسی بھی قوم کی ثقافت،ادب و رسومات اْس معاشرے کے بڑے بزرگوں پر تو منحصر ہوتی ہی ہے لیکِن اِسکی اصل بنیاد وہ نئی نسل ہے جس کے ہاتھوں اْس ادب و ثقافت کی تعمیر ہونی ہے۔ اِس لیے میں سمجھتی ہوں کہ ادب کا مرکز و محور ہی بچوں کی اخلاقی و ادبی لحاظ سے پرورش ہے۔ انہی بچوں کی ادبی تربیت مستقبل میں ادب کی ترویج کے دریچے کھولے گی۔مختصراً ادب اطفال پر کام کرنا اور اِس کے پھیلاؤ کے حوالے سے راہیں ہموار کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔“ عمارہ کنول چودھری(بانی و سرپرست تحریک دفاع قومی زبان و لباس)کے بقول:”فروغ اردو کا سب سے اہم ذریعہ ہی شعبہ ادب اطفال ہے۔بچے گھر کے ماحول سے، والدین سے،اساتذہ سے،معاشرہ سے سیکھتے ہیں اور بچپن میں سیکھی گئی باتیں،عادات،تہذیب و ثقافت،ایسے اثرات مرتب کرتے ہیں جو تا حیات ان کی زندگی میں انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جن بچوں کو ہم نے اقبال کی خودی کے فلسفے پڑھانے تھے،ان بچوں کو ہم جماعت اول سے ہی انگریزی سکھا رہے ہیں مغربی لباس پہنا رہے ہیں۔آج کے بچے اپنے چاروں طرف مغربی زبان تہذیب و ثقافت کے اثرات دیکھ رہے ہیں اور وہی رنگ ڈھنگ اپنا رہے ہیں۔سب سے زیادہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے اور اس کے بعد ہم لکھاریوں کا بھی فرض ہے کہ ہم اپنی زبان کے فروغ،نفاذ،قومی لباس یعنی اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے قلمی جہاد کریں۔اپنے قلم سے قوم میں شعور پیدا کریں۔بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں۔ والدین کے لیے کالم اور مضامین لکھیں۔تحریک دفاع قومی زبان و لباس اس سلسلے میں تمام اداروں کو کردار ادا کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔“ اسماء عنبرین کے مطابق”اردو زبان کا فروغ ادب اطفال پر توجہ مرکوز کیے بغیر ممکن نہیں۔اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ اس محفل (تحریک دفاع قومی زبان) کی تقریباََ نوے فیصد اراکین وہ ہیں۔جنہوں نے بچپن سے ہی تعلیم وتربیت، نونہال یا جمشید سیریز وغیرہ پڑھی ہیں۔چھوٹی عمر سے بچے کو جس قالب میں ڈھالیں وہ ڈھل جائے گا۔ بچپن کی عادات زندگی بھر کے لیے آپ کی شخصیت پر نقش ہو جاتی ہیں پھر سازگار ماحول ان میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ کچھ لوگ بڑی عمر میں بھی مطالعے کی طرف راغب ہوتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔“ نبیلہ کوثر فرماتی ہیں:”نہیں، اردو زبان کا فروغ ادبِ اطفال کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ بچہ جو زبان بچپن میں سنتا، پڑھتا اور بولتا ہے، وہی اس کی اصل زبان بن جاتی ہے۔ اگر ہم اردو کو بچوں کی ابتدائی تعلیم، کہانیوں، نظموں، اور کھیلوں کا حصہ نہیں بنائیں گے، تو وہ بڑی ہو کر اس زبان سے جڑ نہیں پائے گا۔ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں، نظمیں اور ڈرامے صرف زبان نہیں سکھاتے بلکہ تہذیب، اخلاق، محبت، اور سوچنے کا انداز بھی دیتے ہیں۔ اردو ادبِ اطفال بچوں کو اپنی تہذیب سے جوڑتا ہے۔ جب بچوں کے لیے مسلسل نیا ادب تخلیق کیا جاتا ہے، تو زبان میں روانی، جدت اور وسعت آتی ہے۔ نئی نسل کے لیے دلچسپ اور معیاری اردو مواد کی کمی زبان کے خاتمے کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اگر بچہ بچپن میں اردو کہانیوں سے لطف اندوز ہو گا، تو وہ اردو کو صرف "پڑھنے" نہیں بلکہ "محسوس" بھی کرے گا۔ادبِ اطفال کو نظر انداز کر کے اردو زبان کو فروغ دینا ایسا ہی ہے جیسے بیج بوئے بغیر درخت اگانے کی کوشش کرنا۔ زبان کے فروغ کی بنیاد بچوں کی تعلیم اور ادب پر ہے۔“ عائشہ گْل کے بقول”نہیں۔اردو زبان کا فروغ ادب اطفال کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر خالی برتن میں پانی ڈالا جائے تو پانی ہی رہے گا اور اگر دودھ ہے تو دودھ، اگر ہم کہیں کہ پانی کی جگہ دودھ بن جائے تو یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح جب بچپن میں بچوں کے سینوں میں اردو زبان کی محبت کو انڈیل دیں گے تو وقت کے ساتھ ساتھ ان کی محبت پروان چڑھتی جائے گی۔ادب اطفال کو فروغ دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم آج ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ لیکن ہماری نئی نسل ضرور ہوگی اور وہ بچپن کی رکھی گئی بنیاد کو مضبوط کرنے اور اس کو پھلدار درخت بنانے میں ہمیشہ کوشاں رہے گی۔ادب اطفال کے بغیر بچوں کی پرورش نہ مکمل ہے۔اس لیے آج کے والدین کو یہ قدم اٹھانا ہے اور آنے والی نسلوں کو سنوارنا ہے۔“ عائشہ راجپوت فرماتی ہیں:”اْردو زبان کا فروغ ادب اطفال پر توجہ مرکوز کیے بغیر ناممکن ہے۔ جب بچہ جانتا ہی نہیں کہ ٹارزن کون تھا یا عمرو عیار کی زنبیل کیا تھی۔ بچے کو خبر ہی نہیں ہے کہ فاروق، محمود، فرزانہ کی خاصیتیں کیا ہیں۔ وہ جانتا ہی نہیں کالے خان کے راز، نہ اسے کسی نیلی کوٹھی والے ڈاکٹر حبیب سے واسطہ پڑا ہے۔ بتائیے وہ کس ادب کی بات کرے گا۔ اسے بس ٹو ئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار ہی آئے گی۔ اردو بولے تب بھی لب و لہجہ انگریزوں والا۔ اس بدیسی لہجے میں اْردو بولنا اْردو کی توہین ہے۔ یاد رکھیے! جب تک ہم اپنے بچوں میں اْردو کی عملی، فکری اور علمی محبت پیدا نہیں کریں گے۔ تب تک ہم اْردو کے لیے نوجوان نسل پر جتنی بھی محنت کریں سب اکارت ہے۔ محبت تب پیدا ہوتی ہے جب انسیت ہو اور انسیت کے لیے تعلق ناگزیر ہے۔“ رضوانہ و قاص کے بقول”اردو زبان کا فروغ ادب پر توجہ دیے بغیر ممکن نہیں۔ہم بچوں سے جس زبان میں بات کرتے ہیں،بچہ وہی زبان بولنے لگ جاتا ہے۔اگر بچپن سے ہی بچوں کو اردو بولنی سکھائی جائے تو وہ سیکھ جائیں گے اور بچوں کواردو کہانیوں اور نظموں سے روشناس کرایا جائے۔ ادب اطفال نہ صرف زبان سکھاتا ہے بلکہ تہذیب، اخلاق اور سوچنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ لہذا ہمیں اردو ادب کے لیے شعبہ اطفال کو لازمی اہمیت دینی ہو گی۔“ : معصومہ شیخ فرماتی ہیں:”نہیں، اردو زبان کا فروغ ادبِ اطفال پر توجہ دیے بغیر ممکن نہیں۔ بچوں کے ذریعے ہی زبان نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اگر بچپن سے ہی بچوں کو اردو کہانیوں، نظموں اور دلچسپ مواد سے روشناس نہ کرایا جائے تو وہ دوسری زبانوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ادبِ اطفال نہ صرف زبان سکھاتا ہے بلکہ تہذیب، اخلاق اور سوچنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا اردو کی بقا اور ترقی کے لیے ادبِ اطفال کو لازمی اہمیت دینا ہوگی۔“ اقراء جبین کے بقول”نہیں،اردو زبان کا فروغ ادبِ اطفال کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ بچے ہمارے معاشرے،ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔اگر بچے ہی اپنی قومی زبان سے دْور رہیں گے تو وہ کس طرح اپنی زبان کو آگے لے کر چلیں گے۔بچے کا ذہن ایک صاف سیلٹ کی طرح ہوتا ہے۔ اس پر آپ جو رقم کریں گے وہی نقوش ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی زبان سے غافل ہو گئے ہیں، ہم نے اپنی زبان چھوڑ دی ہے۔بچوں کو انگریزی زبان سیکھنے پر لگا دیا ہے کیونکہ ہر پرائیوٹ ا سکول میں انگریزی زبان اور بول چال کو اہمیت دی جاتی ہے۔اردو زبان کے فروغ اور ادبِ اطفال پر زیادہ توجہ دینی ہو گی۔والدین کو چاہیے وہ بچوں کو"اردو کہانیاں اورنظمیں سنائیں اور ان کو کتابیں بھی خرید کر دیں تاکہ بچوں کے اندر اپنی زبان کی محبت پیدا ہو۔والدین گھر میں بھی اردو زبان کا زیادہ استعمال کریں۔مصنفین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے لیے نیا ادب تخلیق کریں، ادب اطفال اس طرح کا ہو کہ بچوں کی اس میں دلچسپی پیدا ہو۔بچوں کو لیے مذہبی،اخلاقی،مزاحیہ،کہانیاں اور نظمیں تخلیق کی جائے۔اس طرح آہستہ آہستہ بچوں میں اردو زبان کی محبت خودبخود ہی پیدا ہو جائے گی۔بچوں کے ادب پر توجہ دئیے بغیر اردو زبان زندہ رکھنا بہت مشکل امر ہے۔“ |