حمید شاہد کے افسانے" خونی لام ہوا قتلام بچوں کا "متغیر اقدار کے تناظر میں مطالعہ

حمید شاہد کے افسانے" خونی لام ہوا قتلام بچوں کا "متغیر اقدار کے تناظر میں مطالعہ

حمید شاہد کا شمار عصر حاضر کے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ ان کے افسانے معاشرتی حقائق کی عمدہ ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا افسانہ خونی لام ہوا قتلام بچوں کا ساجی حقیقت نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔

خونی لام ہوا قتلام بچوں کا ایک ایسے افسردہ معاشرے کی کہانی ہے جس کو محبت میسر نہیں آئی ۔ ماسٹر سلیم کا کرداراس افسانے کا ایسا زندہ و پائندہ کردار ہے جو ہر لحاظ سے اہم ہے۔ اس کردار میں روایت سے انحراف کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور مخالفین کو مددلل جواب دے کر چپ کرانے کی قابلیت بھی موجود ہے۔ ماسٹر سلیم یوم تکبیر(28 مئی ) منانے کے حق میں نہیں اور اسے نبی پاک کی سنت کے خلاف قرار دیتے ہوئے جس محبت ، امن اور اتحاد کا درس دیتا ہے اسے باقی معاشرے میں بطور فساد دیکھا جا رہا ہے لیکن چوں کہ ماسٹر سلیم سب سے محبت اور خوش خلقی سے ملتا ہے اس لیے لوگ کہیں نہ کہیں اس کے نظریات قبول کرتے نظر آتے ہیں ۔ماسٹر سلیم کا کردار دراصل محبت کا پیا مبر ہے وہ معاشرے میں پھیلی بے چینی اور بد امنی کو اپنے خطبات کے ذریعے کم کرنا چاہتا ہے یہاں تک کہ مائی حاجراں کے بیٹے کی بینک نوکری اوراس کے حلال و حرام کے متعلق ماسٹر صاحب کے دلائل انھیں پر امن شہری بناتے ہیں ۔ ماسٹر سراپا محبت کردار ہے ۔ پورے افسانے کی مجموعی فضا پر چھایا یہ کردار محبت کی وہ مثال ہے جو عالمی دنیا کے سامنے مسلمانوں کی دہشت گردچہرے کے تناظر کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے جس طرح عالمی دنیا میں پاکستان کو محبت و امن سے عاری سمجھا جاتا ہے وہاں ادبی دنیا میں ماسٹر سلیم جیسے کردارپاکستان کی شناخت کا وہ چہرہ پیش کرتے ہیں جو اس مٹی مں رہنے والوں کا حقیقی چہرہ ہے۔

مشہور ماہر سماجیات درخائم کا سماجی اقدار کے بارے میں کہنا ہے کہ معاشرہایک ایسی اکائی ہے جس میں تمام افراد کو مل جل کر رہنا چاہئے۔

اس افسانے کا نمائندہ کردار ماسٹر سلیم سب افراد کو مل جل کر ساتھ رہنے کا درس دیتا ہے۔ لیکن جب وہ ساتھ مل کر نہیں رہتے تو معاشرہ ایک تغیر کا شکار ہوتا ہے اور بچے کے ذہنوں میں دہشت پھیلانے کے منصوبے بننے لگتے ہیں ۔ یہ سب اس لیے ہوتا کیونکہ ماسٹر کے نظریات کو کہیں قبول نہیں کیا گیا۔اور معاشرتی رویے انھیں چپ رہنے پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ معاشرہ انتشار کا شکار بن جاتا ہے۔

درخائم اپنے نظریے میں کہتا ہے کہ معاشرے میں تعصب اور فرقہ بندی و مذہبی منافرت نہیں ہونی چاہئے ورنہ معاشرہ ایک نہ سمجھ آنے والی تغیراتی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔ اس افسانے میں حمید شاہد بھی ماسٹر سلیم کے کردار کےذریعے مسلمانوں کے مذہب کے معاملے میں انتہا پسندانہ رویں کا تذکرہ اور حلال حرام کی بحث کرکے معاشرتی اقدار کی تغیر پذیری کو واضح کرتے ہیں۔
درخائم کے نزدیک جب انسان اپنے معاشرے میں رہتا ہے تو اس کی سمجھ بوجھ انسان کو ہونی چاہیئے۔شخصی فیصلے نہیں ہونے چاہیئے،۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ماسٹر سلیم سب کو ایک مرکز پر لانا چاہتا مگر لوگ اس کی بات کے منکر ہیں ۔ بہت جگہوں پر وہ باقی لوگوں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کی رائے کو تسلیم کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کے محلے میں زیادہ فساد برپا نہیں ہوتا ۔ اور لوگ خوش حالی سے مل جل کر رہتے ہیں ۔

درخائم کے نزدیک معاشرہ سائنسی ترقی سے متاثر ہوتا ہے ۔ اس افسانے میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ جدید سائنسی ترقی نے بچوں تک کو موت کے منہ میں دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔
درخائم کے نزدیک معاشرتی تبدیلیوں کی وجوہسات کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔ اس افسانے میں معاشرتی اقدار کی تغیر پذیری کی بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ لوگوں کے رویے، دہشت، خوف ، مذہبی فرقہ بندی اور لوگوں کا پرتشدد رویہ اور سب سے بڑھ کر سائنسی ترقی معاشرے میں اقدار کے تغیر کا باعث بنتی ہے۔

حمید شاہد اس افسانے میں جنگ اور دہشت کے ماحول میں رچے بسے پاکستانی معاشرے کو جس محبت کا درس دیتے ہیں ۔وہ بہت اہم ہے۔ان کے نزدیک مذہبی انتہا پسندی اور نفرت انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنا دیتی ہے۔ فلیش بیک تکنیک میں لکھا گیا یہ افسانہ وطن کی محبت اور عالمی طاقتوں اور مقامی سامراج کے گٹھ جوڑ کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے معصوم لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سوالیہ نشان ہے۔افسانہ نگار اس افسانےکے ذریعے ایک ایسی محبت کا متلاشی ہے جو فرد کو فرد سے جوڑ کر ایک صحت مند معاشرہ بناتی ہے۔



 

Naeema bibi
About the Author: Naeema bibi Read More Articles by Naeema bibi: 12 Articles with 21816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.