آج کل پورا سوشل میڈیا ایسے دیسی وڈیو کلپس اور ریلز سے
بھرا پڑا ہے کہ جن میں ایئرپورٹ کا منظر ہوتا ہے ۔ اور کوئی نوجوان یا
نوبیاہتا جوڑا ایکدوسرے سے لپٹا ہوا رو رہا ہے ، کہیں کسی کی گود میں شیر
خوار بچہ بھی ہوتا ہے ۔ وہیں دیگر اہلخانہ بھی موجود ہوتے ہیں وہ نہایت ہی
بےرحمی اور خود غرضی کے ساتھ ہنسوں کے اس جوڑے کو بمشکل ایکدوسرے سے
چُھڑاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کی یلغار کے اس دور سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا
سکتا تھا کہ میاں بیوی یوں سر عام تو کیا گھر کی چاردیواری کے اندر بھی
باقی گھر والوں کے سامنے یوں ایکدوسرے سے لپٹ جائیں ۔ صرف ایک عشرہ قبل تک
میاں بیوی اپنے بچوں یا بزرگوں کے سامنے ایکدوسرے کے قریب ہو کر بھی بیٹھتے
نہیں تھے اُن کا احترام اور لحاظ رکھتے تھے لپٹنا چپکنا تو بڑی بات ہے ۔
پردیسی بکرا پورے پریوار سے گلے ملتا تھا سوائے اپنی بیوی کے ۔ مگر ذرائع
مواصلات کی بہتات اور مادر پدر آزاد ٹیلی نشریات نے جہاں بہت سی روایات و
اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے وہیں ایک حلال رشتے میں پائی جانے والی شرم
و حیا کو بھی نیست و نابود کر کے رکھ دیا ہے ۔
اچھے خاصے مذہبی اور دیندار گھرانوں میں بھی لغویات و خرافات کا دور دورہ
چل رہا ہے جن میں ایک تو یہی کہ اوور سیز خاوند کی پردیس روانگی کے موقع پر
اپنے دکھڑے کمرے میں ہی نمٹا لینے کی بجائے شارع عام پر فلمی انداز سے ایک
رومانی و جذباتی مگر غیر نغماتی الوداعی ملاقات پلس اشکوں کی برسات انجام
پاتی ہے ۔ وڈیو بھی بن رہی ہوتی ہے پھر سوشل میڈیا پر آپ لوڈ بھی کر دی
جاتی ہے ۔ اور ایسے ہی روح پرور مناظر تب بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں جب پردیسی
بکرا وطن واپس لوٹتا ہے اور منکوحہ پورے ہجوم کے سامنے دوڑتی ہوئی جا کر
اُس سے لپٹ جاتی ہے یہ رومانس جھاڑنے کے لئے گھر پہنچنے اور رات آنے تک کا
صبر نہیں ہوتا؟ اگر کچھ غلط نہیں تو یہی سب کچھ چند برس پہلے تک کیوں نہیں
ہوتا تھا؟
اب کیوں شرم و حیا اور تمیز و تہذیب کو بیچ کھایا گیا ہے؟ یہی اوصاف اُس
قوم میں بھی پائے جاتے تھے جن کا مذہب اسلام نہیں ہے مگر موجودہ دور میں
سبھی ایک ہی صف میں آن کھڑے ہوئے ہیں اور بڑے بوڑھے بیچارے بےبسی کے ساتھ
یہ سب دیکھنے اور نظریں چُرانے پر مجبور ہیں مگر اِس بےمہار ڈیجیٹل دور کی
نئی نسل پر اِن کا کوئی بس نہیں ۔ ایک اور انتہائی فضول و نا معقول رسم جو
ثقافت کا حصہ بن چکی ہے کہ ابھی نکاح ہوا نہیں کہ دولہا میاں جھٹ سے اپنی
دلہن کے پاس پہنچے نہیں ۔ سب چھوٹوں بڑوں اور بزرگوں کے سامنے دولہا اپنی
دلہن سے بغلگیر ہو جاتا ہے اسے ماتھے پر بوسہ دیتا ہے ۔ ہمارے ماں باپ دادا
کیا کوئی بیوقوف تھے یا جاہل جنہیں اپنی شادی کے موقع پر اتنا بھی پتہ نہیں
تھا کہ اب اُن کے درمیان ایک حلال رشتہ قائم ہو چکا ہے وہ ایکدوسرے کے محرم
بن چکے ہیں اور پوری خلقت کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کرنا عین جائز ہے ۔
اقدار و اخلاقیات کی پامالی کو جس طرح سے نارملائز کیا جا رہا ہے تو حلال
کی آڑ میں نا جانے اور کیا کیا گل کھلائے جانے باقی ہیں ۔ |