پہلگام، وہی وادی جو کبھی سکون اور خاموشی کا دوسرا نام
تھی، 22 اپریل کو اچانک گولیوں کی آوازوں سے دہل اٹھی۔ ایک مسلح حملہ ہوا،
جس میں 26 بے گناہ سیاح اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ جو چند لمحے پہلے
قدرتی مناظر کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے، اگلے لمحے خاک و خون میں لت پت
تھے۔ اور اس کے بعد وہی روایتی کہانی دہرائی گئی: الزامات کی بارش، قومی
غصے کی لہریں، اور حکومتوں کا جارحانہ بیانیہ۔
جیسے ہی خبر پھیلی، بھارتی میڈیا اور سرکاری اداروں نے فوراً پاکستان کی
طرف انگلی اٹھا دی۔ ابھی تحقیقات کا آغاز بھی نہ ہوا تھا کہ بھارت نے پانچ
اہم اقدامات کا اعلان کر دیا۔ پہلا قدم، پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کیے
گئے—even SAARC ویزا رکھنے والوں کو بھی روکا گیا۔ دوسرا، واہگہ-اٹاری
بارڈر بند کر دیا گیا۔ تیسرا، نئی دہلی میں موجود پاکستانی فوجی مشیروں کو
ناپسندیدہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ چوتھا، بھارت نے اپنے
مشیروں کو بھی اسلام آباد سے واپس بلا لیا۔ اور پانچواں، سب سے خطرناک
فیصلہ: سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا گیا، جو دونوں ممالک کے درمیان پانی کی
تقسیم کا بنیادی معاہدہ تھا۔
ان فیصلوں کی نوعیت بتا رہی ہے کہ یہ ردِ عمل صرف سکیورٹی خدشات کا نہیں
بلکہ ایک خاص سیاسی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور
مودی حکومت کے دائیں بازو کے بیانیے میں پاکستان کو ایک مستقل دشمن کے طور
پر پیش کرنا بہت سودمند ہے—خاص طور پر جب ملک کے اندر مہنگائی، بے روزگاری
اور اقلیتوں پر مظالم کے مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہوں۔
اب بات پاکستان کی بھی کر لی جائے۔ پاکستانی حکومت نے فوراً بیان دیا کہ ان
کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ریاست ایسے
عناصر کو پنپنے دے گی جو اپنے عمل سے ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرتے رہیں؟
لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور دیگر شدت پسند گروہوں کی موجودگی پاکستان کے لیے
ایک مستقل دردِ سر ہے۔ دنیا اب لفظوں پر نہیں، زمینی حقائق پر یقین کرتی
ہے۔ اگر ریاست واقعی امن کی خواہاں ہے تو ان گروہوں کے خلاف عملی اقدامات
کرنے ہوں گے، ورنہ ہر بار محض لاتعلقی ظاہر کر دینے سے بات نہیں بنے گی۔
ادھر بھارت میں بھی سب کچھ شفاف نہیں۔ مودی حکومت نے اس سانحے کو انتخابی
مہم میں بدل دیا ہے۔ جیسے ہی حملہ ہوا، ان کا میڈیا اور سیاستدان ایک مخصوص
بیانیے پر اتر آئے۔ عوام کو غصے میں لا کر ووٹ لینا ایک پرانی حکمتِ عملی
ہے۔ مگر کیا ان جذباتی فیصلوں سے مسئلہ حل ہوگا؟ کیا سرحدوں پر دیواریں
کھڑی کر دینے سے کشمیر کا درد ختم ہو جائے گا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ
صرف انتخابی سیاست کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اور خطرناک قدم ہے۔ یہ معاہدہ 1960 سے دونوں
ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
اب اس کی معطلی سے نہ صرف پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچے گا بلکہ خطے میں
ایک نیا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔ پانی جیسے بنیادی انسانی حق پر
سیاست، وہ بھی اس شدّت سے، صرف ایک انتہا پسند حکومت ہی کر سکتی ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر ایک اور خیال بھی جنم لیتا ہے۔ کیا یہ صرف دو ممالک کا
جھگڑا ہے؟ یا اس کے پیچھے کچھ بڑے ہاتھ بھی کارفرما ہیں؟ جنوبی ایشیا میں
دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں، اور دنیا کی بڑی طاقتیں—امریکہ، چین،
روس—پردے کے پیچھے اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ امریکہ کی بھارت نواز پالیسی،
اور چین و روس کا پاکستان کی طرف جھکاؤ، اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ
پہلگام حملہ ایک عالمی پراکسی وار کی شروعات بھی ہو سکتا ہے۔
پہلگام میں جو لوگ مارے گئے، وہ نہ ہندو تھے نہ مسلمان—وہ انسان تھے۔ لیکن
ان کے خون سے اب سیاست کی سیاہی تیار ہو رہی ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ حملہ
کس نے کیا، بلکہ یہ بھی ہے کہ اسے استعمال کس نے کیا؟ کب تک خطے کے عام لوگ
ان طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے، جو صرف اپنی طاقت، ووٹ اور مفادات
کے لیے جیتنا چاہتینہے ۔
|