دنیا کے ہر کونے میں، جب دولت، اختیار اور شہوت کی خاموش
سرگوشیاں فضا میں بکھرتی ہیں، تو وہ قوتیں بھی جاگ اٹھتی ہیں جو نہ قانون
کی تابع ہوتی ہیں، نہ کسی ضمیر کی اسیر۔ ان قوتوں کو ہم مافیاز یا گروہی
سیاست کا نام دیتے ہیں — مگر اصل میں یہ ایک ایسا خاموش زہر ہے جو معاشرتی
رگوں میں سرایت کر کے پورے نظام کو بے جان کر دیتا ہے۔
یورپ کے پرشکوہ محلات سے لے کر ایشیا کی تنگ مگر زندہ گلیوں تک، جہاں کہیں
بھی طاقت کی سانسیں لی جاتی ہیں، وہاں ان پوشیدہ طاقتوں کا سایہ پایا جاتا
ہے۔ اٹلی کی مجرمانہ تنظیمیں، مشرقی ریاستوں کی خفیہ گٹھ بندیاں، اور بلقان
کے سرد خانے — سب ایک جیسے خواب بیچتے ہیں، مگر ان خوابوں کے اندر لہو کی
سرخی اور جسموں کی سسکیاں چھپی ہوتی ہیں۔ ان تنظیموں کا ہنر صرف بندوق
چلانا نہیں ہوتا، بلکہ وہ گفتگو، قربت، اور بے آواز لمس سے بھی اپنی
حکمرانی قائم کرتے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ جیسے متمدن معاشروں میں بھی یہ سلسلہ مختلف نہیں۔ وہاں
طاقت کے کھیل میں جسم اور ذہن دونوں کو ہتھیار بنایا جاتا ہے۔ خفیہ
ملاقاتیں، نرم لبوں کی باتیں، اور رات کی تاریکی میں ہونے والے فیصلے — سب
کچھ ایک خاموش معاہدہ ہوتے ہیں جس میں جسم کی گرمی سے سیاست کا رخ متعین
ہوتا ہے۔ وہاں ہر فیصلہ میز پر نہیں ہوتا، بعض اوقات وہ نرم گداز بستروں
میں، دبیز پردوں کے پیچھے ہوتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں گروہی سیاست نے ایک اور روپ دھارا ہے۔ یہاں قبیلوی تعصب،
نسلی برتری اور خاندانی سیاست ایک ایسا مکروہ مثلث بن چکی ہے جو نہ صرف
عوام کے خواب چاٹتا ہے، بلکہ ترقی کی راہوں پر دیوار بن جاتا ہے۔ لیڈران
صرف نعرے نہیں لگاتے، وہ جذبات سے کھیلتے ہیں، وہ چاہت کے وعدے کرتے ہیں،
وہ جسموں کو نہیں خریدتے، مگر روحوں کو گروی رکھ لیتے ہیں۔
گروہی سیاست صرف دشمنی پر قائم نہیں — یہ قربتوں، محرومیوں اور خاموش جذبوں
سے بھی اپنا وجود بناتی ہے۔ وہ جو نظام سے باہر ہوتا ہے، وہ صرف مخالف نہیں
رہتا — وہ اجنبی بن جاتا ہے، وہ ایسا بدنظر سایہ جسے ہر کوئی محسوس کرتا ہے،
مگر کوئی قبول نہیں کرتا۔
اگر انسانیت واقعی انصاف اور آزادی کی طلب گار ہے، تو اُسے سب سے پہلے ان
کمروں کے در بند کرنے ہوں گے جہاں طاقت، جنس، اور دولت ایک ہی بستر پر خواب
دیکھتے ہیں۔
|