اوورسیز کمیونٹی سے سربراہ پاک فوج کا قابل ستائش خطاب اور شہ رگ پاکستان کے زمینی حقائق

قارئین محترم ! آرمی چیف جنرل عاصم منیرنے پچھلے ایک عرصہ سے مختلف موقع پرملک و قوم کودرپیش معاشی مسائل ،زرعی پیداوارکی بہتری اور دیگرسکیورٹی معاملات کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا پرموجود منفی رحجانات پرکافی مفصل اظہارخیال کیا ہے ۔ ہربار اُنکا موضوع ملک و قوم سے متعلق اہم معاملات ہوتے ہیں ۔قبل ازیں بھی پچھلے سال کنونشن سنٹروالے خطاب کے اہم نکات کو لیتے ہوئے کچھ تجاویز دی تھیں ۔اور اب جبکہ پاک فوج کے سربراہ نے تارکین وطن کیساتھ براہ راست مخاطب ہوئے ہیں تو اُنھوں نے اس موقع پر بھی اُنھوں نے نہایت اہم نکات پربات کی ہے تاہم یہاں ملک پاکستان کی شہ رگ کو موضوع میں مرکزیت دیتے ہوئے آگے بڑھنا ہے ۔اس لئے یہاں وہی طرزعمل برقرارہے گا جوکہ ہمیشہ قلم کو ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنایا ہے ۔۔۔۔۔اس لئے یہاں آرمی چیف کے خطاب کو نکات کی شکل میں الگ الگ جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھنے کا ارادہ ہے ۔

یاد رہے اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 1 کروڑ پاکستانی مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔اوورسیز پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں۔متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ سب سے بڑی اوورسیز کمیونٹیز کی آماجگاہ ہیں۔تعلیم، صحت، آئی ٹی، انجینئرنگ، کاروبار، اور فلاحی شعبوں میں ہزاروں پاکستانی عالمی سطح پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔اوورسیز پاکستانی پاکستان کا نرم تشخص (soft image) اجاگر کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔مختلف ممالک میں پاکستانی کمیونٹیز مقامی سطح پر سیاسی اثر، سفارتی تعاون اور بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت بن چکی ہیں۔فلاحی اداروں، سکولز، ہسپتالوں، اور قدرتی آفات کے موقع پر اوورسیز پاکستانی بلند ترین سطح پر مدد فراہم کرتے ہیں۔جبکہ پچھلے کچھ عرصہ سے اِنھیں سیاسی فکری بنیادوں پرانتشار کا شکار بنانے کی کوششیں بھی ہوئیں ۔اور مناسب یہی تھا کہ تاکین وطن کو پاکستان کے سیاسی حالات ،معاشی چیلنجز اور امن و امان کے مسائل سے متعلق تشویش و مایوسی سے بچایا جائے ۔ظاہرہے ۔اوورسیز پاکستانی اکثر خود کو ملکی پالیسی سازی سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں، انہیں پہلی مرتبہ براہِ راست عسکری قیادت سے ایسا خطاب سننے کو ملا جس میں ان کے کردار کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ ''برین گین'' کہہ کر اس کی عزت افزائی بھی کی گئی۔اس سے لازمی طورپراوورسیرزمیں حب الوطنی کے جذبے میں اضافہ ہوگا۔اور اسکے اثرات نظرآئیں گے ۔ملک میں بیرون ممالک سے معاشی شرکت (remittances، سرمایہ کاری) بڑھنے کا امکان بڑھے گا اوریہ لوگ پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔چنانچہ اوورسیز پاکستانیز کنونشن میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا خطاب قومی وحدت، عسکری خود اعتمادی اور اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ جڑے تعلقات کا عملی مظہر تھا۔ ان کے ابتدائی کلمات، جن میں انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبات کو سراہا اور ان کے لیے محبت و احترام کا اظہار کیا، دراصل ایک قومی سطح پر اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ یہ الفاظ جذباتی بھی تھے اور عملی عزم کا اظہار بھی۔جنرل عاصم منیر نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ''پاکستان کی روشنی'' قرار دیا۔ یہ بیان ان کے عالمی کردار اور نمائندگی کو ایک عزت و افتخار کی نگاہ سے دیکھنے کا عندیہ تھا۔ آج جب دنیا میں پاکستانی برادری کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، تو اس بیان نے ان کے وقار کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

جب دنیا کے کچھ حلقے پاکستان میں برین ڈرین کا شکوہ کرتے ہیں، تو آرمی چیف کا یہ کہنا کہ یہ دراصل ''برین گین'' ہے، ایک انقلابی زاویہ پیش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی اپنی قابلیت، کاروبار، اور ترسیلات زر سے ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی اہمیت کو تسلیم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

آرمی چیف نے اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کی کہانی اگلی نسلوں تک پہنچانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ یہ ایک فکری اور نظریاتی پہلو ہے جو نہ صرف قومی تشخص کو زندہ رکھتا ہے بلکہ نئی نسل میں اپنی شناخت پر فخر کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔پاکستان کے دشمن یہ سوچ رکھتے ہیں کہ چند دہشتگرد اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں، مگر جنرل صاحب نے انتہائی اعتماد سے اس سازشی سوچ کو رد کیا۔ ان کا بیان بلوچستان کے حوالے سے نہایت حوصلہ افزا تھا کہ دہشتگردوں کی دس نسلیں بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ یہ پیغام عوام اور افواج کے اتحاد پر مبنی ہے۔بلوچستان کو پاکستان کی تقدیر اور ''ماتھے کا جھومر'' کہنا صرف جذباتی بات نہیں بلکہ اس خطے کی اسٹریٹجک اور اقتصادی اہمیت کا بھی اعتراف ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو محرومیوں کو کم کرکے قومی یکجہتی کو فروغ دیتی ہے۔

جنرل صاحب نے عوام اور فوج کے تعلق کو پاکستان کی طاقت کا مرکز قرار دیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک عوام اپنی افواج پر اعتماد رکھتے ہیں، دشمن کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ رشتہ اعتماد، قربانی، اور مشترکہ وژن پر مبنی ہے۔پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے جن وسائل سے نوازا ہے، ان کا تذکرہ ایک یاد دہانی ہے کہ شکر گزاری کے ساتھ ساتھ درست حکمت عملی ہی ہمیں ترقی کی راہوں پر گامزن کرے گی۔

جنرل صاحب نے کہا، ''جو ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہو گا، ہم مل کر ہٹا دیں گے''۔ یہ عزم عوامی قیادت، افواج اور ریاستی اداروں کے ایک صفحے پر ہونے کی علامت ہے۔ ترقی کو اجتماعی ارادے اور وحدت کے ساتھ جوڑنا بلاشبہ قومی ترقی کا نکتہ آغاز ہے۔

قارئین محترم ! جنرل سید عاصم منیرنے اوورسیز پاکستانیوں کو یاد دلایا گیا کہ وہ ایک اعلیٰ معاشرت، نظریے اور تہذیب کے وارث ہیں۔ یہ صرف فخر کی بات نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے کہ ہم اپنی اقدار کو ہر جگہ ظاہر کریں۔جنرل عاصم منیر نے امت مسلمہ اور پاکستانی قوم کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کیا کہ ہم نے کبھی مشکلات سے گھبرا کر ہتھیار نہیں ڈالے۔ یہی جذبہ آج بھی ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔افواج پاکستان کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جنرل صاحب نے جو الفاظ ادا کیے، وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔ ان شہداء کی قربانی کو قوم ایک مقدس امانت سمجھتی ہے۔

پاکستان کو قائداعظم کے خواب کے مطابق ایک عظیم ریاست بنانے کا عزم دراصل اس سفر کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش ہے جس کا آغاز 1947 میں ہوا تھا۔اوورسیز پاکستانیوں کو یاد دلایا گیا کہ وہ کسی عام قوم سے نہیں بلکہ ایک عظیم ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اعتماد پیدا کرنے والا پیغام ہے جو ان کی خدمات کو مزید جوش و خروش عطا کرتا ہے۔چونکہ جنرل سید عاصم منیرکے خطاب کا لہجہ جارحانہ نہیں بلکہ نرم، پُرامید اور حوصلہ افزا تھا، جو عسکری اداروں کے بارے میں عوامی تاثر کو متوازن اور بہتر بنانے کی حکمتِ عملی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔جبکہ قرآن واحادیث کے تناظرمیں اپنے خطاب کوجاری رکھا ۔اور اس سے فوج کے غیر روایتی پہلوؤں (مثلاً ترقی، سفارت، تعلیم) کو اجاگر کرنے میں مددملے گی ۔نیز عوام اور فوج کے درمیان اعتماد کا رشتہ مضبوط ہوگا۔

اوورسیرپاکستانیوں سے سربراہ پاک فوج کا خطاب ،ریاستی بیانیے کا عالمی سطح پر احاطہ کرتا ہے مثلاََ کشمیر، غزہ اور دہشتگردی جیسے معاملات پر آرمی چیف کا مؤقف بین الاقوامی سامعین (خصوصاً اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے) تک پہنچا، جو عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کر سکتا ہے۔نیزسفارتی محاذ پر پاکستان کے حق میں ہم آہنگی کی فضا سازگار ہوگی ۔اوربھارتی بیانیے کا جواب عالمی سطح پر مضبوط انداز میں پہنچ گیا۔یہ امرقابل ذکر ہے کہ اس خطاب سے داخلی سطح پر حوصلہ افزائی اور اتحاد کا پیغام اپنے اندر مثبت اثرات لئے ہوئے ہے ۔ایسے وقت میں جب ملک معاشی، سیاسی اور سماجی دباؤ میں ہے، یہ خطاب قوم کو یقین دہانی کا پیغام دیتا ہے کہ ادارے متحد اور متحرک ہیں۔اور اُنکی آزادی ،امن و سکون کی خاطر ہمہ جہتی کوششوں وکاو شوں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرینگے ۔اسکا عوامی نفسیات پر گہرامثبت اثرپڑیگا ۔اور یہ تاثر اُبھرے گا کہ بحرانوں کے باوجود پاک فوج استقامت کیساتھ ملک وقوم کیلئے مستعد ہے اور نفرتوں کی سیاسی تقسیم کے ماحول میں فوج یکجہتی پر زوردیتی ہے ۔علاوہ ازیں دہشتگردی اور علیحدگی پسندی کے خلاف دو ٹوک عزم کا اعادہ ہوا ہے ۔یعنی بلوچستان اور دہشتگردی کے حوالے سے سخت مؤقف دراصل ریاست کے صبر کی ایک حد دکھاتا ہے، اور پیغام دیتا ہے کہ فوج کسی بھی علیحدگی پسند یا شدت پسند گروہ کو ملک کی تقدیر پر اثر انداز نہیں ہونے دے گی۔یہ ایک طرح سے علیحدگی پسند عناصر کو واضح وارننگ بھی قرارپاتا ہے اور ریاستی رٹ اور سا لمیت کے حوالے سے پاک فوج کی سنجیدگی و احساس ذمہ داری عالمی طاقتوں کو یہ دکھانے کا موقع کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف پرعزم ہے

آرمی چیف نے اپنے خطاب میں نئی نسل کے لیے بیانیہ سازی میں مدددینے کیلئے پاکستان کی ترقی، نظریہ، اور قائداعظم کے وژن کی باتیں نوجوانوں کوبتائیں جوکہ ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہیں، جس سے وہ قومیت سے جڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔نظریاتی شعور میں اضافہ کیساتھ ساتھ پاکستان کے مستقبل پر اُمیداوریقین کی فضامیسر آئیگی ۔

قارئین کرام ! جب کوئی اپنے وطن سے دور ہو، اور پھر بھی اُس کے دل کی دھڑکن وطن کے نام پر تیز ہو جائے، تو سمجھ لیجیے کہ یہ رشتہ زمین کا نہیں، دل کا ہوتا ہے۔ یہی رشتہ اوورسیز پاکستانیوں کا ہے — خصوصاً ان کشمیریوں کا جو دنیا کے ہر کونے میں آباد ہیں، مگر ہر صبح اپنی دعاؤں میں‘‘کشمیر بنے گا پاکستان’’کا نعرہ ضرور دہراتے ہیں۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بیرونِ ملک پاکستانیوں سے خطاب کے دوران جس انداز سے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کیا، وہ صرف ایک سرکاری بیان نہیں تھا، بلکہ اُن کروڑوں دلوں کی ترجمانی تھی جو وطن کے لیے دھڑکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا: ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اور ہم کشمیریوں کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ہمارے دل کی آواز ہے۔''یہ جملہ محض جذباتی اظہار نہیں بلکہ قومی بیانیے کی روح ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی ''شہ رگ'' والی بات، آج بھی ہر کشمیری اور پاکستانی کی رگ و پے میں دوڑتی ہے۔ اور جب عسکری قیادت اس کو دہراتی ہے، تو یہ دلوں میں ایک نیا حوصلہ، ایک نیا یقین پیدا کرتی ہے۔اوورسیز کشمیری اس خطاب کو سُن کر یوں محسوس کرتے ہیں جیسے برسوں بعد کسی نے اُن کے سینے سے لگ کر اُن کے جذبات کو تسلیم کیا ہو۔‘‘اگر ضرورت پڑی تو ہم کشمیر کے لیے دس جنگیں بھی لڑیں گے’’— یہ الفاظ ایک طرف دشمن کے لیے وارننگ تھے، تو دوسری جانب اوورسیز کمیونٹی کے لیے اعتماد کا اعلان بھی تھا۔یہی اعتماد اس وقت سب سے زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاص طور پر جب آزاد کشمیر کی سیاست میں وفاداری کا معیار بدل رہا ہے۔ اسلام آباد کے مفادات کو وفا کا چولا پہنا کر، کچھ عناصر نے قومی بیانیے کو ذاتی مفادات کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔ آج آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت اپنے ذاتی مفاد میں پاکستان کے بیانیے کو کمزور کرتی جا رہی ہے، اور اصل خطرہ یہ نہیں کہ دشمن کیا کہہ رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سے کیسے کھوکھلے ہو رہے ہیں۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آزاد کشمیر کے کئی علاقوں میں ''بناوٹی حب الوطنی'' کی پروموشن کی جا رہی ہے — وہ لوگ جو آج تک اپنے کردار سے قوم کے مفادات کو مجروح کرتے آئے، اب محض نعروں سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کینسر ہے جو آخری اسٹیج پر ہے — اگراب بھی علاج نہ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

لہٰذا، ریاست کو اس وقت صرف پالیسی نہیں بلکہ حکمت کی ضرورت ہے۔ تجویز یہی ہے کہ پاک فوج — جو قوم کی آخری دفاعی لکیر ہے ۔فوج اور عوام مین اعتماد و یقین کوبراقراراور بڑھانے کیلئے جس طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی کی موثروچنیدہ لوگوں سے جس طرح اندرونی و بیرونی خطرات و معاملات اور قومی سلامتی و ترقی واستحکام کی ترجیحات کے تناظرمیں جس طرح بذریعہ کنونشز،ورکشاپس اور جلسہ ہا خصوصی کے ذریعے مسلسل’’براہ راست‘‘ رہنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے ۔اسی طرح ضروری ہے کہ اُن افراد، خاندانوں، اور اداروں سے براہ راست مکالمہ کرے جو نہ صرف دفاعِ وطن میں اپنی جوانیاں لُٹا چکے ہیں بلکہ آج بھی اپنی فکری وابستگی کے ساتھ نظریہ پاکستان کی حفاظت کر رہے ہیں۔۔۔۔یہ بھی یاد رہے کہ ’’اپنوں کے بھیس میں چھپے کاریگروں کو چاہے ،سیاستکار کہا جائے ،اقتدار سے چمٹا کوئی چچڑتشبیہ دی جائے یا کچھ بھی ۔۔۔یہ تو واہ واہ کرتے ہیں اور ایک ایسی زہرکی مانند ہیں جو بطاہرخوش رنگ و خوش ذائقہ ہے ۔مگر اسکی تاثر’’وجود ‘‘یعنی قومی سلامتی اور اس سے منسلک مفادات کیلئے قاتل کی حیثیت رکھتی ہے ۔لہذا حقیقی دوست وہی لوگ ہیں جو مناسب و متوازن الفاط و انداز کیساتھ ’’توجہ طلب اُمور‘‘بارے متوجہ کرنیکا فرض ادا کرتے ہیں ۔۔۔ایسے لوگوں پرموقع پرست خوشامد پرستوں واہ واہ کرنیوالوں کو ترجیح نہیں دی جانی چاہیے ۔ملک وقوم کیلئے درد دل رکھنے والے اور ہرجہت سے پُرعزم کردار کیلئے متحرک و بیدار پاکستانیوں کی کمی بھی نہیں جو اپنی جگہ اثر و وزن رکھتے ہیں ۔ان سمیت مسلح افواج کے متعلقین جوکہ شہداء کے خاندان، غازیان، نظریاتی حامیوں کیساتھ ساتھ، قومی سوچ کے حامل طلبہ، دیانتدار اساتذہ، اور بے غرض فلاحی شخصیات کو اعتماد میں لینا، وقت کی ضرورت ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو اس مکالمے کا حصہ بھی بنایا جائے، تاکہ وہ صرف ترسیلات نہ بھیجیں، بلکہ بیانیہِ پاکستان کے عالمی ترجمان بن کر ابھریں۔اس حوالے سے آرمی چیف کا حالیہ خطاب اثرانگیز ضرور ہے تاہم آئندہ بھی اووسیئرزکو مربوط و منسلک رکھنا ہوگا ۔۔

قارئین کرام ! آج مسئلہ کشمیر صرف سفارتی یا سیاسی بیانیے کا نہیں، یہ قوم کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے — اور ہمیں اس امتحان میں سرخرو ہونا ہے، ہر فورم پر، ہر سطح پر، ہر پاکستانی کی زبان پر یہی پیغام ہو:''کشمیر بنے گا پاکستان — صرف نعرہ نہیں، ہماری اجتماعی حقیقت ہے!''1948سے لیکرہنوز پاک فوج کی جانب سے کشمیریوں کیساتھ وہی ربط و تعلق اور رشتہ برقراررکھا گیا ہے جوکہ ’’شہ رگ کیساتھ جسم کا ہونا لازمی ہے‘‘لیکن کیا اس حوالے سے اسلام آباد کا کردار کبھی حوصلہ افزاء اور دُوراندیشی کا مظہر ثابت ہوا ؟؟؟ہرگز نہیں ۔بلکہ انتخابی سیاست ‘‘کی ضعبین لگا کر کشمیریوں کو پاکستان کے بجائے سیاستدانوں کا مداح بنایا گیا ۔اور بدلے میں قومی وسائل کو نوازشات عطا کیا جاتارہا ۔۔۔۔۔۔۔ آزادکشمیرکے حکمران عناصر کی ہمیشہ یہی روش رہی ہے کہ وہ اپنے اقتدار و مفادات کیلئے ’’واہ واہ‘‘کے بیانات و تقاریرضروری سمجھتے ہیں ۔۔۔اس لئے اس بار بھی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے اوورسیز پاکستانیوں سے حالیہ خطاب نے جہاں دنیا بھر میں پاکستانیوں کے دل جیت لیے، وہیں آزاد کشمیر کی قیادت نے حسبِ معمول ''واہ واہ'' اور ''تعریفوں کے پل'' باندھنے کی روایت کو بھی قائم رکھا۔ صدر، وزیراعظم اور بعض وزراء کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی نیا انکشاف ہو، حالانکہ ان کا طرزِ عمل برسوں سے ایک جیسا ہے — زبان پاکستان پاکستان، عمل میں پراسرار خاموشی یا پھرمنفی روش کی پرورش کے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں ۔رینجرزکے حوالے سے خبراُڑی تو اس میں وزیراعظم اور اُنکے کارخاص شامل تھے ۔پھر ریاستی غیرریاستی کا تعصب اُبھارا ،گیا اور پھرخود ہی کہا گیا کہ صرف سٹیٹ سبجیکٹ ہولڈرزہی بھرتی ہونگے ۔پھرکہا گیا کہ پہلے سے رینجرزموجود ہے ۔۔اسی طرح کہنے کو بہت سے سنسنی خیز خطابات و بیانات میڈیا کے مختلف میڈیمز کا حصہ چلے آئے ہیں ۔آزادکشمیرکی یہ قیادت، چاہے براہِ راست الیکشن سے آئی ہو یا کسی وجہ سے اسمبلی میں داخل ہوئی ہو، ان کے الفاظ میں پاک فوج کے لیے محبت اور وفاداری نظر آتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ وفاداری حقیقی ہے تو پھر گزشتہ چند سالوں میں آزاد کشمیر میں پاک فوج کے خلاف چلنے والی باقاعدہ مہمات پر انھوں نے آزادکشمیرمیں کون سے ایسے اقدامات کئے جوکہ بطور کشمیری قومیت ،پاکستان کیساتھ رشتوں مین مضبوطی کا سبب بن رہے ہیں۔۔۔۔۔۔بناوٹی حب الوطنی کے نعروں اور تقریری دعووں سے کسی قوم کا بیانیہ نہیں بنتا، بلکہ قربانی، استقامت، اور وضاحت سے تشکیل پاتا ہے۔ اور یہی تینوں عناصر ان کے بیانات سے ہمیشہ غائب رہے ہیں۔وزیراعظم یا صدر جب کیمرے کے سامنے پاکستان اور افواجِ پاکستان کی تعریف کرتے ہیں، تو ان کے پیچھے وہ وزراء بھی کھڑے ہوتے ہیں جن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، ذاتی مجلسیں، اور ذیلی بیانات میں فوج کے خلاف طنز، سوالات اور بعض اوقات واضح الزامات نظر آتے ہیں۔ کبھی کوئی ''جہاد'' کا اعلان کرتا ہے، تو دوسرا کہتا ہے ''دہشتگرد ریاست میں گھس آئے ہیں''۔ کوئی وزیر فکری انتشار پیدا کرنے کے لیے مسلکی مسئلہ اچھالتا ہے، تو کوئی اپنی جماعت کے مفاد کے لیے پاکستانی آئین اور افواج کے اہم اور ناگزیرکردار پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان حرکات پر کوئی جوابدہی نہیں ہوتی، بلکہ عام تاثر یہی ہے کہ جیسے یہ سب کسی معتبر اشارے پر ہو رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے — یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ آزاد کشمیر کو داخلی طور پر کمزور، اور نظریاتی طور پر کھوکھلا کر رہا ہے۔ایسے میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرکی جانب سے قومی عزم و یقین کا اظہار اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔مگراس شہ رگ کوکس کے رحم و کرم پرچھوڑا گیا ہے؟؟پاکستان کی شہ رگ بچانی ہوتو پھربہترنہیں کہ آزادکشمیرمیں گڈگورننس کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے ۔نہ کہ ’’انتخابی سیاست ‘‘کی یہ نحوست ،فریب بن کر وجود کو بتدریج غیرمنطقی انجام کی طرف دھکیلتی رہے ۔۔۔یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہی افراد واقعی افواجِ کی اہمیت کوسمجھتے ہیں اور ؂ پاکستان کے ساتھ نظریاتی وفاداربھی ہیں تو کیا انہوں نے کبھی اُن جلسوں، نعروں اور بیانات کی مذمت کی جہاں ''راولپنڈی کی مداخلت'' جیسے الفاظ استعمال ہوئے؟ اگر پاکستان واقعی ان کا آخری حوالہ ہے تو کیا کبھی انہوں نے سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی اس گمراہ کن مہم کے خلاف موقف اپنایا جس میں کشمیر کو ریاستی آزادی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے؟یہ عناصر اگر اپنے کارنامے ظاہرکرنے کیلئے سرکاری وسائل کا استعمال کرسکتے ہیں تو اِنھیں ’’اجتماعی قومی سوچ و نظریہ کی تقویت کیلئے اس حوالے سے کام کی توفیق کیوں نہیں ہوتی ۔۔میں یہاں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آزاد کشمیر آج جس فکری و نظریاتی انتشار کا شکار ہے، اُس کے ذمہ دار صرف بیرونی عناصر نہیں، بلکہ وہ اندرونی چہرے ہیں جو حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر اداروں کو مشکوک بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

قومیں صرف نعرے سے نہیں بچتیں — سمت، سچائی اور قربانی سے بچتی ہیں۔ اور آج اگر آرمی چیف کھل کر قومی بیانیے کو عالمی سطح پر بیان کر رہے ہیں، تو آزاد کشمیر کی قیادت پر لازم ہے کہ وہ صرف واہ واہ نہ کرے، بلکہ اپنی صفیں درست کرے۔انہیں اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ واقعتاً پاکستان کے وفادار ہیں، ورنہ تاریخ صرف ان کے بیانات نہیں، ان کے روئیے بھی یاد رکھے گی — اور وقت کا مورخ کبھی معاف نہیں کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Agha Safeer Kazmi
About the Author: Agha Safeer Kazmi Read More Articles by Agha Safeer Kazmi: 17 Articles with 12525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.