محمد حفیظ خان کا ناول "منتارا": سیاست کے فرعونوں کی کہانی

اقصیٰ سرفراز ناول منتارا کے بارے میں لکھتی ہیں کہ "منتارا کی کہانی سیاسی عدم استحکام کی داستان ہے جس میں حالاتِ حاضرہ کا جائرہ لیا گیا ہے۔ ناول کا پلاٹ مجھے طاقتور لگا کیونکہ اس میں ملک کے وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی ذاتی زندگیوں کی ترجیحات اور مطلب پرست مفادات کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ یعنی ۔۔۔۔۔نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک وہی پرانا چل رہا ہے!"

اردو ادب میں سیاسی اور سماجی تناظر کو فکشن میں سمو کر پیش کرنا ایک مشکل فن ہے، جس میں کامیاب وہی ہوتا ہے جو حقیقت اور تخیل کے امتزاج کو ایک خاص توازن کے ساتھ برتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ محمد حفیظ خان سے میری ملاقات اکادمی ادبیات پاکستان کے رائٹرز ہاؤس میں ایک ایوارڈ تقریب میں ہوئی تھی۔ اس تقریب میں ان سے علم و ادب کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ اس تقریب میں میری دو کتابوں رہبر اعظم ﷺ (کھوار) اور تلاش (اردو) کو ڈاکٹر مشتاق عادل صاحب نے ایوارڈز کے لیے نامزد کیا تھا یہ دونوں ایوارڈز میں نے محمد حفیظ خان اور ڈاکٹر مشتاق عادل صاحب سے وصول کیا تھا۔ محمد حفیظ خان کا ناول "منتارا" ناول نگار کی فنی مہارت کا مظہر ہے، جو نہ صرف پاکستان کے سیاسی پس منظر میں لکھا گیا ہے بلکہ سیاست کے پیچیدہ جبر، استحصالی نظام، اور طاقت کے کھیل کی پرتیں کھولتا ہے۔

"منتارا" ایک سیاسی ناول ہے جس کا پلاٹ پاکستان کے موجودہ حالات پر مبنی ہے۔ اس ناول میں مصنف جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور سیاسی اشرافیہ کے کرداروں کے ذریعے ہمارے سیاسی و سماجی ڈھانچے کی تصویر کشی کی ہے۔ اقصیٰ سرفراز کے مطابق، یہ ناول ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ "نئے کردار آتے جا رہے ہیں مگر ناٹک وہی پرانا چل رہا ہے۔" یہ جملہ دراصل ناول کے مرکزی خیال کی بہترین عکاسی کرتا ہے، جہاں سیاست کے چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کا طرزِ عمل اور مقاصد وہی رہتے ہیں۔

محمد حفیظ خان کا قلم بے باک ہے۔ وہ اپنے اسلوب میں کسی قسم کی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ کھلے انداز میں طاقت کے ایوانوں میں موجود کرپشن، منافقت اور سیاست کی اندھیر نگری کو بے نقاب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ممتاز ادیب، شاعر اور دانشور انوار فطرت رقمطراز ہیں کہ "منتارا کی کہانی ایک عام سے منظر اور پس منظر میں کولمبو اور پھوکٹ کے ساحلوں پر بہت دھیمے خرام کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔ حسن و عشق کی چہلیں ہیں، خود سپردگیاں ہیں، ناز و نخرے ہیں، جسموں کی گہرائیوں کے بھید بھی ہیں اور بھاؤ بھی۔ یوں کہانی دھیمے دھیمے رفتار پکڑتی ہے اور حاکمیت کے بے رحمانہ اسلوب " ڈیپ سٹیٹ کے منجدھار میں پہنچ کر یہ رفتار دیوانگی کی خونیں حدوں میں داخل ہو جاتی ہے۔ کہانی کی زیریں لہروں کی بوقلمونی تہہ میں پڑی حیرتوں کی ریت کو اس وحشت و دہشت اور شدت کے ساتھ کھودتی ہے کہ قاری ہر ہر قدم پر خود کو نیچے ۔۔۔ اور نیچے دھنستا پاتا ہے۔ سیاسی جرائم کی لامتناہیئت دم لینے کی مہلت ارزانی نہیں کرتی۔ کہیں پڑھا تھا کہ قلوپطرہ کی ناک اگر ذرہ بھر مزید لمبی ہوتی تو تاریخ عالم کچھ اور ہوتی "منتارا" پڑھنے سے پہلے یہ جملہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ ہر دور کی سیاسی قحبہ گیری ہو یا قلوپطرہ کی ناک "منتارا" کی قلوپطراوں کی یہاں کی سیاست پر فرماں روائی صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہاں "سیاسی طوائف" کی برانڈ نیو اصطلاح اپنی تمام تر معنوی برہنگی کے ساتھ موجود ہے۔ مخدوم ناظر حیات ایک سیدھا سادہ سا حسن پرست کردار ہے لیکن انتشاری مہاجرت نے اسے ہوس کا خانہ بدوش بنا رکھا ہے۔ ایک گرم آنوش اسے سیاسی وجاہت سے زیادہ عزیز ہے۔ محمد حفیظ خان نے اسے بڑی ہی خوب صورتی اور مہارت کے ساتھ تیار کیا ہے"۔

ناول کا پلاٹ انتہائی جاندار اور مربوط ہے، جو آہستہ آہستہ قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ اس میں کولمبو اور پھوکٹ کے ساحلوں سے لے کر ڈیپ سٹیٹ کے منجدھار تک کے سفر میں انسانی نفسیات، اقتدار کی کشمکش، ہوس، طاقت کے کھیل اور سیاسی گندگی کو تفصیل سے بلا خوف بیان کیا گیا ہے۔

ناول کا مرکزی کردار مخدوم ناظر حیات ہے، جو ایک سیدھا سادہ، حسن پرست انسان ہے مگر سیاسی انتشار اور مہاجرت کی وجہ سے ہوس کا خانہ بدوش بن جاتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے مصنف نے پاکستانی سیاست کے کئی چہروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ناول میں ایسے کئی دوسرے کردار ہیں جو ہمارے موجودہ سیاسی حالات کی نمائندگی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ طاقت اور ہوس کا کھیل کس طرح معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

یہاں "منتارا" کا استعارہ بھی خاصا معنی خیز ہے۔ یہ کسی خاص کردار کا نام نہیں بلکہ سیاست میں چھپے ان عناصر کی علامت ہے جو وقت کے ساتھ شکلیں بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے: اقتدار پر قابض رہنا اور عوام کا استحصال کرنا وغیرہ وغیرہ۔

محمد حفیظ خان کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی اس کی حقیقت نگاری اور بے باکی ہے۔ وہ کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کا نام لیے بغیر پورے سیاسی نظام کی بدنظمی کو سامنے لاتے ہیں۔ ان کے قلم میں سماجی و سیاسی شعور کی جھلک نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ ناول صرف ایک کہانی ہی نہیں بلکہ ہمارے عہد کا سچ بھی ہے۔
اس حوالے سے اقصیٰ سرفراز کا تبصرہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے وہ لکھتی ہیں کہ "مصنف کا قلمی موضوع ایک ہی ہے مگر اپنی ہر کتاب میں انہوں نے پہلے سے انوکھا انداز اپنایا ہے تاکہ قاری بیزار نہ ہونے پائے۔"

یہی بات "منتارا" کے حوالے سے بھی صادق آتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک سیاسی ناول ہے، لیکن اس کا بیانیہ، اس کا اسلوب اور اس کی علامتیں اسے دیگر عام سیاسی کہانیوں سے الگ اور منفرد بناتی ہیں۔

"منتارا" محض ایک سیاسی ناول ہی نہیں بلکہ ایک فکری احتجاج بھی ہے۔ مصنف کا اسلوب سادہ مگر پراثر ہے۔ تشبیہات، استعارے اور علامتوں کا استعمال اس حد تک چابکدستی سے کیا گیا ہے کہ ناول محض ایک بیانیہ نہیں رہتا، بلکہ ایک ادبی شاہکار بن جاتا ہے۔

انوار فطرت نے درست لکھا ہے کہ "یہ کہانی دھیمے دھیمے رفتار پکڑتی ہے اور حاکمیت کے بے رحمانہ اسلوب، ‘ڈیپ سٹیٹ’ کے منجدھار میں پہنچ کر دیوانگی کی خونیں حدوں میں داخل ہو جاتی ہے۔"

یہی وہ نکتہ ہے جہاں "منتارا" روایتی ناولوں سے مختلف نظر آتا ہے۔ یہ ناول کسی سیدھی لکیر کی طرح نہیں چلتا بلکہ اس میں کئی اتار چڑھاؤ اور نفسیاتی گہرائیاں بھی موجود ہیں، جو قاری کو ہر لمحہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

محمد حفیظ خان کا ناول "منتارا" نہ صرف ایک بہترین سیاسی ناول ہے بلکہ یہ ہمارے عہد کے سیاسی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کا آئینہ بھی ہے۔ اس میں کردار صرف خیالی نہیں بلکہ ہمارے اردگرد موجود حقیقی چہرے ہیں۔ مصنف نے ناول میں منافقت، سیاست، طاقت کی ہوس اور انسانی بربادی کو جس بے خوفی سے بیان کیا ہے، وہ اسے ایک جراتمندانہ تخلیق کار کے طور شہرت کی بلندیوں پر پہنچائے گا۔

محمد حفیظ خان نے اس ناول کے ذریعے اردو فکشن میں ایک نئی سمت متعین کی ہے، جو صرف کہانی سنانے کے بجائے معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی زوال پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "منتارا" کو صرف ایک سیاسی ناول ہی نہیں بلکہ ایک فکری تحریک کا بھی درجہ دینا چاہیے۔ میں کتاب کی اشاعت پر مصنف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
 

Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali
About the Author: Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali Read More Articles by Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali: 13 Articles with 5244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.