اقتدار کے نشے میں ڈوبے’ نشی کانت دوبے‘

جمہوری سیاست میں بھونکنا نقص نہیں خوبی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں نشی کانت دوبے جیسے لوگوں کو اسی کام کےلیے پالاجاتاہے ۔ آرزومند بھونکنے والے سیاستدانوں کے دل میں جب بھونکتے بھونکتے جب ترقی کے ارمان جاگتے ہیں تو آواز کچھ زیادہ تیز ہوجاتی ہے۔ بیچارے نشی کانت 2009 سے چوتھی بار الیکشن جیت چکے ، مرکز میں تیسری بار لگاتار ان کی پارٹی اقتدار میں آگئی پھر بھی وزارت سے محروم اور آگے تو کامیابی کے امکانات بھی مفقود اس لیے دوبے جی کی بے چینی میں قابلِ فہم ہے ۔ پچھلے سال ان پر بدعنوانی کا سنگین الزام بھی لگ گیا اور ایف آئی آر بھی درج ہوگئی اس لیے موصوف کے حزن و یاس میں بے شمار اضافہ ہوگیا ہے۔ اسی کے چلتے انہوں نے پہلے تو سی جی آئی اور پھر سابق الیکشن کمشنر سے پنگا لے کر نہ صرف خود کومصیبت میں ڈالا بلکہ اب تو یہ حال ہے’ہم تو ڈوبے صنم تم (مودی) کو بھی لے ڈوبیں گے‘۔ ایسے میں بعید نہیں کہ دوبے پرنظم و ضبط کا ڈنڈا برسا کر سیاسی موت کی نیند سلا دیا جائے۔

حزب اختلاف پر منہ زوری کرکے پارٹی رہنماوں سے دادِ تحسین وصول کرنے والے نشی کانت دوبے نے اس بار عدالت کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر سپریم کورٹ قانون بنائے گا تو پارلیمنٹ کو بند کر دینا چاہئے۔ دوبے نے ملک کی ساری خانہ جنگیوں کا الزام چیف جسٹس سنجیو کھنہ پر لگا دیا۔ اس احمقانہ بیان سے پلہ جھاڑ تے ہوئے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کو لکھنا پڑا کہ پارٹی ایسے بیانات کی حمایت نہیں کرتی۔سوال حمایت کرنے یا نہ کرنے کا نہیں بلکہ مخالفت کاہے۔ وہ اگر اس کی مذمت کرتی ہے تو صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گابلکہ اس بدزبان شخص پر کارروائی کرنی ورنہ یہ لفاظی بے معنیٰ ہے۔پارٹی صدر کے بیان سے بے نیاز مغربی بنگال میں بی جے پی رکن اسمبلی اگنی مترا پال نے نشی کانت دوبے کے خیالات کی تائید میں کہا کہ ’’انھوں نے صحیح بات کہی ہے۔ صدر ہندوستان کے چیف جسٹس کی تقرری کرتے ہیں۔ پھر ہندوستان کے چیف جسٹس صدر کے حکم کو کیسے مسترد کر سکتے ہیں؟ وہ پارلیمنٹ اور قوم کے پالیسی سازوں کے فیصلوں کو کیسے مسترد کر سکتے ہیں؟‘‘ یعنی جو نامزد کرے تو اس کے ہر غلط بات پر سرِ تسلیم خم کرنا لازمی ہے ۔ انہوں سی جے آئی کی وجہ سے پارلیمنٹ بند کرنے کی بات بھی کہی۔

بی جے پی رہنماوں کی اس زبان درازی نے حزب اختلاف کو نادر موقع عنایت کردیا۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے اسے محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی اور سازش کا حصہ قرار دیا ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دوبے اور نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ اس طرح کے بیانات وزیر اعظم کی خاموش منظوری کے بغیر نہیں دے سکتے۔کھیڑا کے مطابق سپریم کورٹ چونکہ بی جے پی کے غیر آئینی اقدامات پر روک لگا کر آئین کی حفاظت کر رہا ہے اس لیے بی جے پی کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ بی جے پی کو پریشانی سپریم کورٹ سے نہیں بلکہ ملک کے آئین سے ہے۔عدالت ِعظمیٰ نے وقف ایکٹ، پلیسز آف ورشپ ایکٹ اور اپوزیشن ریاستوں میں گورنروں کے کردار جیسے معاملات میں کڑا رخ اختیار کرکے بی جے پی کے سیاسی عزائم پر روک لگا دی ہے اس لیے وہ پریشان ہے۔پون کھیڑا نے ان بیانات پر وزیر اعظم کی خاموشی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے پوچھا’’اگر بی جے پی واقعی عدالت کی آزادی اور احترام پر یقین رکھتی ہے توکیا دوبے پر شوکاز نوٹس دیا گیا؟ ان سے وضاحت طلب کی گئی؟ اگر نہیں، تو کیا ہم یہ مان لیں کہ بی جے پی اس بیان کی پشت پناہی کر رہی ہے؟‘‘ انہوں نے اسے آئین کے خلاف ایک ذہن سازی کی مہم قرار دیا ۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے کہا کہ بھگوا پارٹی کے حامی اب اتنے زیادہ شدت پسند ہو گئے کہ وہ کھلے عام عدلیہ کو ’مذہبی جنگ‘ کی دھمکی دے رہے ہیں۔اویسی نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیاکہ، ’’مودی جی اگر آپ ان لوگوں کو نہیں روکیں گے تو ملک کمزور ہو جائے گا۔ ملک آپ کو معاف نہیں کرے گا اور کل آپ اقتدار میں نہیں رہیں گے۔ ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کو انہیں پارلیمانی رکنیت سےمحروم کرنے والے دوبے سے انتقام لینے کا موقع مل گیا ۔ انہوں نے ’ایکس‘ پر دوبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا، ’’یاد رکھیے، پٹ بُل (پالتو سانڈ) اپنے مالک کے اشارہ کے بغیر کچھ نہیں کرتا۔ پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ عدلیہ پر بی جے پی کے ذریعہ کیسے پروکسی حملے کیے جا رہے ہیں۔ بنچ کو ڈرانے کی بے شرم کوشش۔ ہندوستان سب سے نچلے دور میں ہے جب جاہل غنڈوں کے ذریعہ حکمرانی کی جا رہی ہے‘‘۔

کانگریس رہنما بی وی شرینواس نے کہا، ’’نشی کانت دوبے جیسے فسادی اراکین پارلیمنٹ میں اپنے آقاؤں کے حکم کے بغیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف منہ کھولنے کی ہمت نہیں ہے۔‘ اس طرح گویا دوبے کی آڑ میں مودی نشانے پر آگئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایسے تنازعات میں اپنے لوگوں کی زبان پر لگام لگانے کا کام کبھی نہیں کیا اس بیک وقت سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے بارے میں نشی کانت دوبے کے متنازع بیان کو لے کر اب توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک ایڈوکیٹ آن ریکارڈ انس تنویر نے اٹارنی جنرل کو خط لکھ کر توہینِ عدالت کے مقدمے کی اجازت طلب کی ہے۔ توہین عدالت ایکٹ 1971 کی دفعہ 15(1)(بی) اور 1975 میں بنے سپریم کورٹ کے قواعد کے تحت، توہین عدالت کی کارروائی چونکہ اٹارنی جنرل یا سالیسٹر جنرل اس کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتی اسی لیے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی سے خط لکھ کر رجوع کیا گیا ہے۔ اس خط میں نشی کانت دوبےکےخلاف سپریم کورٹ پر پارلیمانی امور میں مداخلت کرکے ملک کے اندر افرا تفری پھیلانے والا ادارہ قرار دینے کی بہتان تراشی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

آئین ہند میں سپریم کورٹ کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے سکتا ہے۔انس تنویر کے خط میں نشی کانت دوبے پر باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے سپریم کورٹ کی شبیہ خراب کرنے کاسنگین الزام بھی لگایا گیاہے۔ وہ کوئی معمولی وکیل نہیں ہیں بلکہ کرناٹک حجاب کیس لڑ چکے ہیں اور وقف ترمیمی قانون کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نشی کانت دوبے نے سپریم کورٹ پر مندروں کے معاملے میں دستاویزات مانگنے اور مساجد کو چھوٹ دینے کا الزام لگا کر سماج میں سپریم کورٹ کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر بداعتمادی پیدا کرنےکی سعی کی ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کا نام لے کر انہیں ملک میں خانہ جنگی کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یوپی کے سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر نے بھی سپریم کورٹ میں اس معاملے پر درخواست دائر کی ہے اور اٹارنی جنرل کو الگ سے اجازت کے لیے خط بھیجا ہے۔

سپریم کورٹ کی توہین کے معاملے جب دوبے جی پوری طرح گھِر گئے تو خود کو خالص فرقہ پرستی کی چادر میں چھپانے کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے اور اس تنازع سے تین دن پہلے 17؍ اپریل کو سابق چیف الیکشن کمشنر قریشی کے ایک ‘X’ پوسٹ پر نیا تنازع کھڑا کرنے کی مذموم کوشش کرڈالی ۔ ایس وائی قریشی نے لکھا تھا کہ ، ’’یہ وقف قانون یقینی طور پر مسلمانوں کی زمین ہڑپنے کی حکومت کی ایک بڑی شیطانی سازش ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ اسے غلط قرار دے گی۔ شرارتی پروپیگنڈہ مشینری نے بھی غلط معلومات پھیلا کر اپنا کام اچھے سے کر دیا ہے۔‘‘ اس پوسٹ تین دنوں تک کمبھ کرن کی نیند سونے والے نشی کانت دوبے اچانک 20؍ اپریل کو جاگے اور لکھا، ’’آپ الیکشن کمشنر نہیں، بلکہ مسلم کمشنر تھے۔ جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں بنگلہ دیشی دراندازوں کو ووٹر سب سے زیادہ آپ کے دور میں ہی بنایا گیا‘‘۔ بفرضِ محال اس الزام کو درست مان لیا جائے تب بھی سوال یہ ہے کہ کیا مقامی سطح پر کسی کو ووٹر بنانا چیف الیکشن کمشنر کا کام ہے؟ یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

نفرت کے نشے میں نشی کانت دوبے بھول گئے کہ قریشی صاحب 2010 سے2012 کے درمیان چیف الیکشن کمشنر تھے اس وقت جھارکھنڈ میں بی جے پی کے ارجن منڈا وزیر اعلیٰ تھا اور خود دوبے رکن پارلیمان تھے تو کیا وہ دونوں گھاس چھیل رہے تھے؟ انہوں نے بنگلہ دیشیوں کو ووٹر بننے سے کیوں نہیں روکا ؟ اس طرح کے اوٹ پٹانگ الزامات لگانے والوں کو سوچ سمجھ کر جھوٹ بولنا چاہیے۔ دوبے نے اپنی پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’’مذہب اسلام ہندوستان میں 712 میں آیا، اس سے پہلے یہ زمین ہندوؤں کی یا اس عقیدے سے وابستہ قبائلیوں، جین یا بدھ مت کے ماننے والوں کی تھی‘‘۔ اس بات کو حقیقت مان لیا جائے تو دوبے کو بتانا ہوگا کہ قبائلیوں کو ’ون واسی‘یعنی جنگلی کون کہتا ہے اور بدھ مت کے ماننے والوں کو اس ملک سے بھگانے کا کام کس نے کیا؟ ایس وائی قریشی کو ایک ہزار سال پرانی تاریخ پڑھنے کی تلقین کرنے والے دوبے کو اپنے گریبان میں جھانک دیکھنا چاہیے دوسروں کو ملک توڑنے سے منع کرنے کے بجائے خود اس سے بچنا چاہیے۔ امید ہے بہت جلد انہیں جیل میں چکی پیستے ہوئے تاریخ پڑھنے کا موقع مل جائے گا ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2143 Articles with 1633487 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.